'بُل ڈوزر'
بھاری بھرکم بُل ڈوزر آپ سب نے دیکھے ہوں گے۔ ان کا کام محض نئی تعمیر کی جانے والی سڑک کے لیے ڈالے گئے روڑوں یعنی پتھروں کو ایک لیول پر لانا ہوتا ہے۔ اونچے نیچے سب پتھروں کو ایک سطح پر لانا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔
آنجہانی رچرڈ ہالبروک کو بوسنیا کے مسئلے پر بعض لوگوں کی جانب سے 'بُل ڈوزر' کا خطاب ملا۔ اس خطاب کی وجہ ان کی کوششوں سے ڈیٹن معاہدے کے تحت ساڑھے تین برس پرانی بوسنیائی جنگ ختم کرانا تھی۔ لیکن افغانستان کے معاملے پر وہ کوئی زیادہ مؤثر اور متحرک دکھائی نہیں دیے۔ آخری دنوں میں یہ بل ڈوزر واشنگٹن کے کسی ایک کونے میں بےکار کھڑا زیادہ محسوس ہو رہا تھا۔
لیکن مسئلہ شاید ہمارے خطے میں بل ڈوزر کا نہیں بلکہ تنازعے کے فریقین کا ہے۔ وہ ایک لائن میں آنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ ہر کوئی افغانستان میں اپنے مفاد کو مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ چھوٹی یورپی ریاستوں کی نسبت ایک مضبوط پاکستان جس کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ خطے میں ہر مسئلے کا حل کشمیر سے نتھی کیے ہوئے ہو، مغرور طالبان جنہوں نے اتحادی افواج کی ابتدائی غلطیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہو اور کمزور لیکن منہ زور افغان صدر حامد کرزئی ہالبروک کے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے۔ لیکن اس سب سے بھی زیادہ ان کی ناکامی کی وجہ خطے میں سرگرم فریقین کے درمیان بداعتمادی کے پودے کو راستے سے اکھاڑ پھینکنے میں ان کی ناکامی ہے۔ سطحی طور پر تو سب بھائی بھائی، اتحادی اور دوست ہیں لیکن پیٹھ پیچھے ہر کوئی دوسرے پر شک کرتا ہے۔
یہ شک کا گندا موبل آئل ہی جب تک تبدیل نہیں ہوگا، ہالبروک جیسے بل ڈوزر شاید بےسود ثابت ہوں۔
تبصرےتبصرہ کریں
ہارون رشيد صاحب! آپ کاتجزيہ وتبصرہ درست ہے۔حال ہی ميں وکی ليکس نے بھی يہی بات ليک کی ہے کہ بظاہر دوست اور بھائی کہنے والے ايک دوسرے بارے ميں کيا کچھ کہتے ہيں اور پس پردہ کيا ہوتا ہے۔ پيچيدہ معاملات اور حالات سدھر جائيں اگر فريقين صدق دل سے اقدامات پر عملدرآمد کريں۔ اگر واقعی ايسا ہوجائے توکسي ڈنڈا بردار يا بلڈوزر کي ضرورت ہی پيش نہ آئے۔
کہنے کو تو ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے مگر جب پيشہ ور زندگی کا معاملہ آتا ہے تو ہم اپنے دين، ايمان اور عقيدے کو محض اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرتے ہيں اور اپنے مطلب کی مثالوں اور ارشادات کا حوالہ بھی دين کی کتابوں سے ڈھونڈ ليتے ہيں۔ کسی سمجھدار کی قيمتي رائے محض اپنے مفاد کی خاطر دين کا حوالہ ڈھونڈ کر رد کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ ابتدائی اسلام کا مطالعہ کيا جائے تو اسلام شروع ہی سے امن اور صلح صفائی کو قائم کرنے کے ليے آیا اور جنگيں محض دفاع کی خاطر لڑی گئيں۔ امن پسند اقليتوں کو برابر کے حقوق ديے گئے۔ جب دشمن طاقت ور نظر آيا تو غار ميں رسول پاک نے محض اس ليے پناہ لی کہ زندگی کی اہميت ايسے جہاد سے زيادہ ہے جس ميں کاميابی کا امکان نہ ہو۔ يہ طالبان جب اتنے انسانوں کو مروائيں گے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کا مقصد کچھ اور ہے اور وہ معصوم لوگوں کے ايمان کو اپنے مفاد يعنی سرداری نظام اور مجرمانہ سرگرمياں قائم رکھنے کی خاطر استعمال کر رہے ہيں۔ بوسنيا ميں کاميابی کی بنيادی وجہ عام آدمی کے شعور اور تعليمی شرح نسبت افغانستان يا پاکستان سے قدرے زيادہ ہونا ہے۔
وہ ایک لائن کونسی ہے جس میں سب نہیں آنا چاہتے؟ وہ ہے امریکی مفادات کی لائن۔ یہ ایک لائن دنیا کے مسائل کا حل نہیں ہے جناب۔ بلکہ بہت سے مسائل کی اصل وجہ ہے۔ جب تک یہ امریکی مفادات کی ایک لائن انسانیت کے مفادات کی دو لائن میں نہیں بدل جاتی تب تک ویت نام، افغانستان اور عراق بنتے بگڑتے رہیں گے۔ اپنی افواج پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے والے امریکہ نے دس سال میں افغانستان کی ترقی کے لیے کیا کیا ہے؟
واقعی لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جب پاکستان کے ارباب اختیار ملک کو قیام پاکستان کے مقاصد، نظریہ پاکستان کو مکمل طور پر فراموش کرتے ہوئے ملک میں قبیلائی انداز، بدعنوانی، اقرباءپروری، بے انصافی، ظلم و جبر، ہٹ دھرمی کا ماحول سجائے بیٹھے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے ذریعے پاکستان کی جغرافیائی، توانائی اور پانی کے حوالے سے بھی شہ رگ کشمیر پر بھارت کو قبضے کو بلواسطہ قبول کیا گیا۔ جیسے اسلام کا نام ہمارے حکمرانوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال کیا اسی طرح ہماری حکومتوں نے کشمیر کا نام نمائشی انداز میں ہی سجائے رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے ہی جنوبی ایشیاءمیں امن و ترقی کے لئے بھارتی نیک نیتی ثابت ہو سکتی ہے۔
ہالبروک صاحب کے اچانک موت سے کوئی اور متاثر ہوا ہو یا نہ ہو ، بہرحال ہمارے وزیر اور وزیر اعظم ضرور متاثر ہوئے۔ خیال تھا کہ حکومت کا اصلی حاکموں سے رابطہ غیر معینہ مدت کے لئے منقطع رہےگا لیکن بھلا ہو امریکا سرکار کا کہ انہوں نے ایک نئے بلڈوزر کا بندوبست کر دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکار کی بھاری بھرکم ، خستہ حال گاڑی کو نئی آمدہ امریکی بلڈوزر کس حد تک گھسیٹنے میں کامیاب ہوتا ہے۔