بنگلہ دیش اور اس کے پاکستانی ہیرو
بنگلہ دیش کی حکومت نے اس مرتبہ اپنے یوم آزادی کے موقعے پر سابقہ مغربی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں ، شاعروں اور دانشوروں کو اپنے اعلیٰ سول اعزازت دیے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت اور اکثر عوام کے نزدیک ان افراد نے سابقہ متحدہ پاکستان میں مغربی بازو یعنی مغربی پاکستان سے سینہ چاکان مشرق کی قومی آزادی میں ان کی حمایت کی تھی۔
بنگلہ دیشی حکومت اور عوام کی طرف سے ان کی حمایت کے لیے مانے اور جانے والے اس وقت کے مغربی پاکستانی سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں میں جو نام ہیں وہ ہیں سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید، بیسویں صدی میں سندھی زبان کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایاز (ایک دفعہ بنگلہ دیش کے بابائے قوم یا بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان نے انیس سو انہتر میں اپنے ساتھیوں تاج ادین احمد وغیرہ سے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہمارے نذر الاسلام کی طرح ہیں) اور ملک کے معروف بلوچ سیاسی رہنما اور مدبر میر غوث بخش بزنجو، بائیں بازو کی مشہور سرگرم کارکن طاہرہ مظہر علی خان اور معروف لکھاری احمد سلیم بھی شامل ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کافی عرصے تک سابقہ مغربی پاکستان میں اپنے اصولوں اور خیالات کی وجہ سے اپنے ہی لوگ کئی دنوں تک 'غدار' کہتے رہے تھے اور بعض کو پابند سلاسل بھی رہنا پڑا تھا۔ شیخ ایاز سابقہ مشرقی پاکستان پر فوجی کارروائی کی مخالفت کرنے پر کئی ماہ تک ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت نظر بند بھی کر دیے گئے تھے جبکہ جی ایم سید اپنے گاؤں میں نظر بند تھے۔ اسی طرح احمد سلیم، طاہرہ مظہر علی خان اور حبیب جالب کو عظیم پنجابی صوفی شاعر شاہ حسین کے مزار سے مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے خلاف جلوس نکالنے پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اب بنگلہ دیشی حکومت نے سابقہ مغربی پاکستان میں ان کے حق میں اٹھنے والی ایسی آوازوں کو بڑا سول اعزار دیا ہے۔
لیکن پاکستان میں ماسوائے ایک آدھ چینل پر ایک آدہ منٹ ٹِکر چلنے کے اس خبر کو میڈیا نے مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیے رکھا۔
تبصرےتبصرہ کریں
وقت لگے گا ان حصاروں سے نکلنے ميں - بلوغت کے سفر ميں پہلا قدم تو کجا ابھي احساس تک ناپيد نظر آتا ہے حسن مجتبٰی
گزشتہ ماہ ايک عشائیے پر سيالکوٹ سے تعلق رکھنے والے محب وطن پاکستا نی نے پی پی والوں کوبرا بہلا کہتے ہو ئے اچانک بھٹو صاحب کو دعا دينا شروع کر دی. بقو ل انکے بھٹو صاحب نے ایک کام بھت ا چھا کيا کہ ان بنگالی غداروں کو ھم سے الگ کر کے! مجھے انکی بات سنکر يہ شک بہی ھوا کے کھیں مسلم ليگ کا قيام ڈھاکہ کے بجا ئے سيالکوٹ ميں تو نہں ھوا-
بنگلہ ديش کا پاکستان کے ساتھ الحاق قائداعظم کی وجہ سے ہوا تھا ورنہ تحريک پاکستان کے کئی بنگلاديشی ليڈر قيام پاکستان کے وقت ہی عليحدہ ملک کے حامی تھے۔بھٹو کو تو مجبورا” کہنا پڑا تھا کہ ادھر ہم اودھر تم کيونکہ اس کے بغير چارا نہيں تھا۔سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ بنگلاديش نے عليحدہ ہوکر کيا ترقی کی سوائے آبادی بڑھانے اور غير مستحکم سياسی حکومتيں۔سندھی اور بلوچ قوم پرستوں کے ليۓ يہ سبق ہے کہ عليحدگی مسائل کو ختم نہيں کرسکتی اور نہ ہی غريب عوام کا کوئی بھلا ہوگا اس ليۓ دانشمندی کے ساتھ جس گھر ميں رہتے ہيں وہاں اتحاد اور محبت کی فضا پيدا کريں۔
بنگلہ ديشی بھائيوں نے الگ ہوکر کيا پايا؟ اگر صرف سياسی بنيادوں پر علیحدگی مسائل کا حل ہوتی تو کئ ممالک آج دنيا کے امير ترين ملک ہوتے۔ مگر اتحاد ميں رہ کر ترقی ديکھنی ہے تو امريکہ کی مثال ديکھ ليں ۔ پچاس رياستوں نے ايک متحدہ قوم کی حیثيت سے جو ترقی حاصل کی ہے وہ باقی دنيا کو کئی صديوں ميں بھی نصيب نہيں ہوگی۔ ايک اور قريب کی مثال لے ليں بھارت، جو ايک بڑا ملک ہے، وہ جو ترقی کر رہا ہے وہ بہت کم چھوٹے ممالک حاصل کر سکيں ہيں۔
ايک صاحب پريشان ہيں کہ بنگلہ ديش نے کيا ترقی کی؟ سوائے آبادی بڑھانے اور غير مستحکم حکومتوں کے۔ ان سے گزارش ہے مفکر ضرور بنيں ليکن درست معلومات کے ساتھ۔ معيشت سمجھتے ہوں تو کرنسی ريٹ سے ابتدا کر ليں۔ ديکھيں اُن کا اور خود آپ کا سکہ کدھر کھڑا ہے؟ اگر سڈني ميں برٹش ٹيکسٹائل مصنوعات نظر آئيں تو ليبل چيک کريں۔ يہ صرف ايک مثال ہے بيرونی سرمايہ کاری کی۔
محترم اقبال صاحب آپ کی رائے ميں بھی وزن ہے مگر بندہ کے خيال ميں کرنسی کا اگر تھوڑا سا فرق پڑا ہے تو وہ پچھلے دو تين سالوں ميں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف آپريشن اور عليحدگی پسند تنظيموں کی وجہ سے غير يقينی حالت، جس کی وجہ سے بيرونی سرمايہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ بندہ اپنے آپ کو مفکر نہيں سمجھتا مگر بحثيت بی بی سی کا قاری رائے دينے کا حق رکھتا ہے۔ سڈنی ميں پاکستان کی بنی ہوئی مصنوعات جس ميں جينز کی پتلونيں اور باسمتی چاول بہت عام ہيں جبکہ بنگلاديش کے بنے ہوئےملبوسات بھی مل جاتے ہيں مگر پاکستان کی بنی ہوئی ليوائز کی جينز گوروں اور ايشين لوگوں دونوں ميں بہت مقبول ہے۔ چلو اگر آپ کی بات مان بھی لی جائے کہ بنگلاديش آگے نکل گيا ہے مگر ويت نام اور تھائی لينڈ کو بھی ديکھيں کہ وہ ہم سے بہت گئےگزرے تھے اور اب کس مقام پر ہيں نيز بحیثيت ايٹمی طاقت اور کرکٹ کے حوالے سے ايک پاکستانی اور بنگلہ ديشی کا فرق گورے بہت اچھی طرح محسوس کرتے ہيں۔مجھے خدشہ ہے کہ کہيں آپ کی سوچ بنگلاديش کو دنيا کے پہلے دس ترقی يافتہ ممالک ميں نہ کھڑا کردے۔
بنگلہ دیش نے الگ ہو کر پاکستان کو غلط ثابت کیا ہے اور ہندو مسلم دو قومی نظریہ کو جھوٹا دکھایا ہے۔
غدار اور محب وطن ہيرو ايک ہی سمندر ميں ايک سی ناؤ پر سوار دو مختلف اطراف ميں ايک سے لوگوں کی طرف سفر کر رہے ہوتے ہيں۔ رہا ذيلی بحث کہ بنگلہ ديش نے الگ ہو کر کيا پايا تو دوستوں سے معذرت کے ساتھ بنگالی اگر معاشی طور پر استحکام کی بلند منازل سے کوسوں دور ہيں تو بھی ڈھاکہ ميں اجتماعی آبرو ريزی کا خوف نہيں، کوئی منظم مسلح طاقت ان کی عصمت کو تار تار نہيں کرتی۔ عزت، آبرو، خودداری کی توقير ان صفات سے عاری اقوام کی سمجھ ميں نہيں آتيں يا پھر بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کي۔
فقط ايٹمی طاقت ہی کافي ہوتی تو سوويت يونين نہيں ٹوٹتا۔ رہ گيا کرکٹ تو اس ميں آپ کے بورڈ اور کھلاڑيوں نے جو چار چاند لگا رکھے ہيں اس ميں ناز کا پہلو تو نظر نہيں آتا ۔ کون کہاں کھڑا ہوتا ہے اور کون بھکاری کا بھکاری رہ جاتا ہے يہ تو آنے والا وقت ہی بتاۓ گا۔
يہ سب صاحبان کردار و گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ با ضمير بھی تھے۔ اصولی موقف اپنانے پر ان کو پس زندان ہی ڈالنے کی روايت رہی ہے۔ فيض صاحب کو لينن ادب انعام غير ملکيوں نے ديا جب کہ ہم نے ان کی قدر نہ کي۔ ممتاز ماہر طبعيات ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز ملا تو ہم نے ان کی قدر کی نہ ہی اس انعام کي۔اس تناظر ميں بريکنگ نيوز اور ٹکر بازی والے ميڈيا نے بھی ان افراد کے ساتھ يہی سلوک کيا ہے جو ہمارا وطيرہ بن چکا ہے۔ ہاں البتہ ميڈيا اس کے مقابلہ ميں ڈيفنس جيسے پوش علاقہ ميں ايک لڑکی کے ساتھ ہونے والی مبينہ جنسی زيادتی کو کوريج ديتا رہا۔
اگر ہم بنگالیوں کو اپنا بھائی سمجھ کر رکھتے تو وہ کبھی ہم سے جدا نہیں ہوتے۔ سارا قصور ہمارا ہی ہے کیونکہ ہم سب لوگ خود بھی بہت بے حس ہیں اور ہمارے حکمران بھی ایسے ہی ہیں۔
بحيثيت ايک قوم ان کو برا کہنا درست نہيں جو اکثر کہتے سنائی ديتا ہے۔ پاکستان ميں عليحدگی کی وجہ موجودہ پاکستان میں مظالم کو بحيثيت انسان کيسے نذر انداز کيا جاسکتا ہے؟ ڈھائی لاکھ انسانوں کا قتلِ عام غير معمولی وجہ ہے کيا؟ کوئی غيروں سے بھی ايسا سلوک نہیں کرتا جيسا کہ پا کستان اپنوں سے کرتا آيا اور کررہا ہے۔ بات صرف آنکھيں کھول کر ديکھنے اور حقيقت کو تسليم کرنے کی ہے۔
دراصل پاکستان پر ان لوگوں نے دھاندلی اور ريشہ دوانی سے اپنا اقتدار قائم کر ليا جن کا اقتدار کا سورج مسلم ليگ نے گل کر ديا تھا۔ اس کے لئے انہوں نے لياقت علی خان کےقتل کي سازش ميں شرکت بھی گوارہ کر لی ليکن اس کلاس کو مشرقی پاکستان کی افرادی قوت سے خطرہ تھا کہ اگر وہ مين اسٹريم ميں داخل ہوئے تو ان کا رياست پر کنٹرول مشکل ہو گا۔ اس لئے سازشيں اور حقوق پر ڈاکا ڈال کر انہيں بند گلی کی طرف دھکيلا گيا پھر جب انہيں يہ احساس شدت سے ہونے لگا کہ انہيں پاکستان کے ساتھ رہ کر حقوق نہيں مليں گے تو پھر تحريک عليحدگی پر منتج ہوئی۔ کيونکہ ايوب نے فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہروايا تھا۔ جبکہ مشرقی پاکستان کی اليکشن کمپين شيخ مجيب چلا رہا تھا اور وہ تمام حالات سے باخبر تھا۔ اسی طرح 1971ء کا اليکشن اور پاور ٹرانسفر نہ کرنا جلتی پر تيل کا کام کر گئي۔ وہ حق بجانب تھے غدار يہاں کی بيروکريسی تھی جس نے اپنے اقتدار ميں آڑے آنے والے لوگوں کو صرف غداری کے تمغے دے کر ديوار سے لگايا۔ بلوچستان کی صورت حال بھی اسی طرف ليجائی جا رہی ہے- جس کا ادراک شايد انہيں نہيں۔
میں ایک پاکستانی ہوں، اگر بنگالیوں نے الگ ملک بنایا تو کیا غلط کیا؟ الگ ملک تو قائداعظم نے بھی بنایا تھا۔ پاکستان میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے بنگلہ دیش نے بھی امداد کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمارے محتاج نہیں۔ باقی رہی بات علیحدگی کی تو آزاد زندگی ہر ایک کا حق ہے۔
دعا ہے کہ رحمان صاحب کی بات ہر پاکستانی کو سمجھ آ جائے، ورنہ یہاں قومی آزادی کا حق ماننا تو دور کی بات ، ایسے کسی تصور کو بھی غداری جان کر بلا توقف موت کا پروانہ جاری کر دیا جاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو بلوچستان آ کر دیکھ لیں ،جن کچروں کے ڈھیر پر کوئی اپنے پالتو کتے کی لاش بھی پھینکنا گوارا نہیں کرتا وہیں بلوچ ماؤں کے لال صرف اسی بات پر گولیوں سے چھلنی بے گو ر و کفن ملتے ہیں۔
میں اتفاق کرتا ہوں واقعی بلوچستان میں یہ سب ہو رہا ہے لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم پنجاب والوں کہ ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ ہم سب پر ایسے لوگ مسلط ہیں جو اپنے انفرادی مفاد کے لیے ہر حد پھلانگتے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے 90 ٪ سے زائد لوگوں کے حالات ویسے ہی ہیں جیسے کے بلوچستان کے۔پنجاب میں غربت اور ظلم و زیادتی سے ہونے والی خودکشیاں اس کا ثبوت ہیں۔ بلوچستان میں مائیں اپنے بچوں کی لاشیں دیکھنے پر مجبور ہیں لیکن پنجاب میں مائیں مفلسی اور ظلم کے ہاتھوں اپنی اولاد کو ختم کرنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کا سبب یہاں کے اپنے لیڈر ہیں نہ کہ پنجاب میں رہنے والے آپ ہی کی طرح کہ 90 ٪ لوگ۔
عوامی رہنما کو پنپنے ہی کہاں دیا جاتا ہے۔ یہاں تو سرکاری سردار، چوہدری، وڈیرہ، پیر و مرشد ہی لیڈرشپ کا حقدار ہے۔ اگر واقعی اپنا کوئی لیڈر ہوتا تو کیا خیال ہے مادر وطن یوں جہنم کا سماں پیش کرتا ؟ پنجاب کے عوام کی محرومیاں اپنی جگہ لیکن انہیں مقدس گائے کی پرستش کے بعد دودھ دہی کا حق بہرحال ملتا ہی ہے اور بلوچستان کو تو شاید شکوے کی سزا بھی اذیت ناک موت۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بلوچ بھی پنجابیوں کی نظروں میں نا کارا، جاہل ، اجڈ گنوار بنگالی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ہم اور آپ تو حالات کی پیداوار ہیں، فطرت کو تبدیلی کے ضروری اور موافق اجزاء مل جائیں تو وہ اپنا فیصلہ صحیح وقت پر سنا ہی دیتا ہے۔ میرے آپ کے پاس سوائے اس فیصلے کے جائز و ناجائز ہونے کی تاویلوں کے کچھ بھی نہیں بچتا۔ پھر چاہے ہم اسے سازش کا نام دیں، محرومیوں کا ڈھنڈورا پیٹیں، نا انصافی کہیں یا اپنوں پرائیوں کی ستم ظریفی مگر دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش ابھرتے رہیں گے۔ اگر ہم واقعی کچھ کر سکتے ہیں تو صرف یہی کہ ہمیں انسانوں پر اپنے نام نہاد دائمی حق حاکمیت سے دستبردار ہونا پڑےگا ورنہ پھر وہی تاریخی پچھتاوا۔