'ہم بھی کریں گے'
مذہبی رہنماؤں کی جانب سے گزشتہ دنوں ہڑتال سے ایک روز پہلے روٹی لینے اسلام آباد کے ایک تندور پر گیا تو وہاں کے مالک نے ہڑتال کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے بتایا کہ ہڑتال توہین رسالت قانون میں کسی بھی ترمیم کے خلاف ہے تو اس شخص نے مزید کچھ پوچھے بغیر کہا کہ پھر تو ٹھیک ہی ہے 'ہم بھی کریں گے'۔
مجھے یقین ہے اس شخص کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ توہین رسالت قانون ہے کیا، کب بنا، کس نے بنایا اور اب اس میں کون سی تبدیلی کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ ہے اس کا اندھا اعتقاد۔ یہ سوچ ہے گلی کے ایک عام شخص کی اور ایسے عام اشخاص کی تعداد پاکستان میں تقریباً کروڑوں سے تو کم ہرگز نہیں ہے۔
پاکستان میں مذہب پر بات کرنا پہلے بھی ایک سنجیدہ اور حساس مسئلہ تھا اور اب بھی ہے لیکن اب بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی لہر نے اسے جینے مرنے کا سوال بنا دیا ہے۔ اس پر بات کرنے سے پہلے ہر کسی کو ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ سوچنا پڑے گا۔ لیکن ان کا کیا ہوگا جو سلمان تاثیر کو شہید اور جان بحق لکھ رہے ہیں۔ مذہبی قدامت پسندی کیا اس کی اجازت دیتی ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
‘خدا کا سایہ خدا جانے سَر پر ہے کہ نہیں
خدا کا نام مگر اس زمین پر بہت ہے‘
‘جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے
وہ شریعت معبدوں کے زیرِ سایہ سو گئی‘
اس سوال سے پہلے یہ پوچھیں کہ کیا مذہب کی بنیاد پر پاکستان بننا ٹھیک تھا؟ اگر یہ ملک مذہب کے نام پر بنایا گیا تھا تو یہ سب ٹھیک ہے۔ میرے خیال میں ہمیں بات انیس سو سینتالیس سے شروع کرنی چاہیے۔ غلط سوال غلط سوچ کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان کے چند نام نہاد علماء اور ان کے پيروکار جو ملک ميں مذہب کو بطور طاقت غنڈہ گردی اور کاروبار کا ذريعہ سمجھتے ہيں بشمول شريف برادران جن کی تاريں خفيہ طور پر ان سے منسلک ہيں اس واقعے کے ذمہ دار ہیں۔ ايسے واقعات نہ تو خدا اور رسول کو پسند ہيں اور نہ کسی مہذب معاشرے کو زيب ديتے ہيں۔
ہم اپنی اخلاقی اور انسانی قدروں کو کھو چکے ہيں اور شايد پاکستان کے لیے يہ ہی قيامت کے دن ہيں۔ توہين رسالت کے قانون کے حامی لوگوں سے سوال ہے کہ جب ملک ميں باقی قوانين کا غلط استعمال ہوتا ہے تو اس قانون پہ صحيح عمل کرنے کی کيسے گارنٹی دی جاسکتی ہے؟
مکرمی آپ نے دور حاضر کے جید علماء سے بات کرنے کا جو محفوظ طریقہ عنایت فرمایا اس کے لئے شکریہ، مجھے بس اتنا ہی پوچھنا ہے کہ طائف میں حضرت محمد صلی اللہ وآلہ وسلم پر تو جسمانی تشدد کی گواہی بھی ملتی ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان گستاخوں کے حق میں ہدایت کی دعا فرمائی گئی۔ کہیے کہ وہ سب جھوٹ ہے اور طائف کو ملیا میٹ کر دیا گیا تھا، یا پھر اعتراف کر لیں کہ آج جو کچھ ناموس رسالت کے نام پر ہو رہا ہے، منافقت اور نری سیاست کے علاوہ کچھ نہیں۔ مجھے معلوم ہے آپ لوگوں کے پاس مجھ ایسے گستاخوں کا منہ بند کرنے کو بہت کچھ ہے، لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ وہاں کس منہ سے جاؤ گے؟ کیا اس طرح کی مکروہ ترین منافقت کو اب واقعی ختم نہیں ہونا چاہیے؟
کل اگر آپ کے خلاف ہی مجھ جیسا کوئی بازاری ، تیسرے درجے کا آدمی دو جھوٹے گواہ کھڑے کر کے ایسے بھونڈے الزامات کے ساتھ آپ کی نہ صرف پگڑی اچھالے بلکہ قانون کے بل پر زندگی کے درپے ہو جاۓ تو کہیے کیا گزرے گی آپ اور آپ کے خاندان پر ۔
پاکستان میں لوگوں کو بولنے سے پہلے تولنا چاہیے۔ یہ سویڈن یا برطانیہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان ملک کی تقافت مختلف ہے اور لوگ مختلف ہیں۔
چند جاہل قسم کے مذہبی ٹھیکیداروں نے اسلام کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ اکثریت کو کچھ معلوم نہیں ہوتا وہ ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
اگر آپ درست کو درست نہیں اور غلط کو غلط نہیں کہہ سکتے تو اپنے آپ کو مسلمان یا انسان نہ کہیں۔ سلمان تاثیر کے قاتل انسان بھی نہیں۔
جب اس سوچ کا پرچار کرنے والےعناصر مقتدر رياستی اداروں کی مجبوری بن چکے ہوں اور انہيں لگام دينا تو درکنار ان کے وجود ہي سے انکار برتا جائے تو يہ معاشرہ بد سے بدتر کی طرف گامزن رہے گا۔
سلمان تاثیر کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ چند مذہبی ٹھیکیداروں نے عام انسانوں کو گمراہ کر دیا ہے۔
جو حقائق اور معاملات سامنے آ رہے ہیں، وہ سب سلمان تاثیر کے قاتل کی کہانی صاف بیان کر رہے ہیں۔ تو اب لوگ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ "یہ بہت برا ہوا"۔ ایک ایسا شخص جو صرف نام کا اور دنیاوی مسلمان ہو اور ایک اپنے ملک میں گورنر کے فرائض انجام دے رہا ہو جہاں پر وہ خود کسی قانون کی پاسداری نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی قانونِ ناموسِ رسالت کے بارے میں ایسے الفاظ کا استعمال کرے جو بہت غلط ہوں تو کیا "لبرل انتہا پسندی" نہیں ہے ؟؟؟؟
اس ملک کا سب سے بڑا الميہ تو يہ ہے کہ ہم قانون کے نفاذ عدليہ کی بالا دستی کے عملی کردار کو متحرک کرنے مں بری طرح ناکام ہو چکےہيں۔ اس مايوسی کے بعد لوگوں نے از خود جزا اور سزا دينا شروع کر ديا۔ قانون کی اگر بالا دستی اور عمل داری فوری اور بلا کسی مداخلت کے ہوتی ہے تو ايسے واقعات کا سد باب ہوتا ہے۔ يہاں عدليہ کا کردار اب ديکھنا ہے کيونکہ اب تو عدالیہ آزاد ہے اس موقع پر ان کا کردار ايک بڑے طوفان کا رخ موڑنے کا کردار ادا کر سکتا ہے اور حقائق سامنے لائيں کہ مرحوم کے بيانات میں توہينِ رسالت کا عنصر کتنا ہے۔
ہم جیسے منافق، چور، جاہل لوگوں کا ایک اور کارنامہ۔۔۔۔ "پاکستان کا مطلب کیا ؟ میں ہوں اور تُو ناں"
مذہب کے جو بیوپاری ہیں
وہ سب سے بڑی بیماری ہیں،
وہ جن کے سوا سب کافر ہیں
وہ دین کا حرفِ آخر ہیں،
ان جھوٹوں اور مکاروں سے
مذہب کے ٹھیکیداروں سے
میں باغی ہوں، میں باغی ہوں۔۔۔
مذہبى جنونى كے ہاتھوں جنونى سيكولر مارا گيا۔۔
بہت ڈرتے ہوئے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ ہمیں اپنے پیاروں پر تنقید کو برداشت کرنا ہوگا۔ تب جا کر ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوگا۔
کیا آج تک کسی نے یہ بتایا کہ ناموسِ رسالت کا قانون کیا ہے اور اس کے کتنے پوائنٹ ہیں؟ کیا سلمان تاثیر پورا قانون ختم کرنا چاہتا تھا یا کچھ تبدیلی لانا چاہتا تھا؟ کسی کو کچھ نہیں پتا۔ کیا ہم نے کبھی بائبل جلانے کی بات کی ؟ یا کبھی کسی مذہبی پیشوا کے بارے میں کچھ برا کہا ؟ آخر ہمیں اس حد تک کیوں پہنچایا جاتا ہے کہ ہمارے لوگ ایسا کام کریں اور پھر شدت پسند کہلائیں؟
اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا توہین ہے، مزید کچھ نہیں کہہ سکتے اپنی جان کا خوف ہے۔
قانون کے غلط استعمال ميں اکيلا گورنر ہی تو ملوث نہ تھا بلکہ عوام، سياستدان، فوجی، ملاں سب قانون کا غلط استعمال کرتے ہيں۔اسی ليۓ تو اس نے ناموس رسالت قانون کے خلاف سٹينڈ ليا کہ اس کا غلط استعمال ملک ميں افراتفری پھيلا سکتا ہے۔اس نے قانون کے غلط استعمال کی مخالفت کی نہ کہ توہين رسالت کي۔ رہی بات نام کے مسلمان کی تو دلوں کا حال اللہ جانتا ہے۔muzzi مياں بہت خوب لکھا۔
سلمان تاثیر نے جب گستاخی کی تب کسی نے زبان نہیں کھولی، اور آج ان کے ہمدرد بلکہ اسلام دشمنوں کے قلم حرکت میں آ گئے۔۔۔ بہت خوب
غیر مسلم کیا کم تھے کہ مسلمان بھی شانِ رسول کے گستاخ بن گئے۔گستاخی کے لیے اتنی دور جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اپنے والدین کی گستاخی کرو ، بھائی کی کرو ، لیڈر کی کرو وغیرہ مگر محمّد تک جانا میری فکر سے باہر ہے۔
بہت ڈرتے ہوئے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ ہمیں اپنے پیاروں پر تنقید کو برداشت کرنا ہوگا۔ تب جا کر ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوگا۔
یہ مانتا ہوں کہ سلمان تاثیر زیادہ لوگوں کے پسندیدہ نہیں تھے لیکن جب کہا گیا ہے کہ "ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے" تو کس نے آپ کو حق دیا ہے کہ صرف ایک شخص کے بیان پر آپ اسے قتل کرنے کا فتوٰا جاری کر دیں؟ افسوس کہ ہمارا "اسلامی جمہوریہ" جاہل اور ان پڑھ علماؤں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔
اے خدا! ہمیں جنونی، وحشی اور جاہل لوگوں سے نکال کر کسی ایسے معاشرے میں بھیج دے جہاں انسانی عظمت مقدم ہے۔
اگر ہمارا دِل اِتنا کمزور ہے کہ ہم خود چُھری نہیں چلا سکتے تو چلانے والے کی مدد تو کر سکتے ہیں۔ وہ جو اپنے آپ کو لبرل مسلمان سمجھتے ہیں وُہ زیادہ سے زیادہ اپنی ناک پکڑ کر مُنہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ کیا مفکرِ پاکستان علامہ اِقبال نے غازی عِلم دین شہید کے جنازے پر نہیں فرمایا تھا کہ یہ ان پڑھ ہم سے بازی لے گیا؟
معذرت کے ساتھ کہوں گی کے توہینِ رسالت کی مرتکب تو ہماری پوری قوم ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو فخر سے مسلمان کہتے ہیں اور روز مرہ کی زندگی میں خدا اور رسول کے احکامات کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں ، رشوت لیتے ہیں ، بد دیانتی کرتے ہیں ، قانون توڑتے ہیں۔ اپنی نوکری اور کاروبار بچانے کے لئے خدا سے زیادہ اس کے بندوں کی عبادت کرتے ہیں۔ کیا یہ سب توہینِ رسالت اور توہینِ خدا نہیں؟ دوسری بات یہ کہنا چاہوں گی کہ پاکستان میں کون سا قانون ہے جس کا استعمال ٹھیک ہوتا ہے؟ اگر کوئی قانون غلط استعمال ہو رہا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ قانون ہی ختم کر دیاجائے؟۔ کیا کوئی ہندو یہ برداشت کرے گا کہ رام سیتا کو برا بھلا کہا جائے؟ یا کوئی بدھ اپنے نبی کی برائی پسند کرے گا؟ یا عیسائی حضرت عیسٰی یا حضرت مریم کی برائی سنیں گے؟؟ کبھی بھارت جا کر رام سیتا کو گالی تو دے کر دیکھیں ، آپ کا حال سلمان تاثیر سے برا نہ ہو تو مجھے آ کر ضرور بتائیں۔ تو پھر مسلمانوں سے یہ کیوں امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے نبی کی برائی تحمّل اور مذہبی رواداری سے سنیں۔ جہاں حکومت اپنے قوانین پر خود انصاف سے عمل نہ کروا سکے وہاں ہی اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں۔جب ہم خود ہی اچھے مسلمان نہیں تو دوسروں سے عزت کی توقع بیکار ہے۔
ہم ایک منافق معاشرے میں منافقت بھرے انداز میں منافقت کی زندگی جی رہے ہیں اور یہ منافقت ہمارے خون میں رچ بس چکی ہے۔
ملک میں جڑیں پکڑ چکی "اندھی تقلید پرستی" کسی بھی طرح اسلامی مذہبی اقدار کا حصہ نہیں ہیں بلکہ برعکس اسلام ہیں۔ اندھی اعتقاد پرستی دراصل "جنونیت" کے جراثیم کی موجودگی پر مہر ثبت کرتی ہے۔ جنونیت میں انسان، صبر و تحمل و بردباری، متوازن و درست سوچ اور ہوش و حواس سے محروم ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سلمان تاثیر جس مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھے ہیں، یہ آگے کیا گل کِھلائےگی کیا اس کا کوئی توڑ ہے؟ اور کیا یہ مذہب کے لبادے میں "اسلام" پر "قاتلانہ حملہ" نہیں ہے؟ گورنر پنجاب کے قتل سے پہلے آئے روز ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جو ملک میں مذہبی جنونیت کے غلبہ کی موجودگی پر مہر ثبت کرتے ہیں۔ ان واقعات میں گوجرہ، سمبڑیال، سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ہونے والے انسان دشمن واقعات خاص الخاص ہیں۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد یہ بعید از قیاس ہرگز نہیں کہ جلد یا بدیر "طالبانائزیشن" اسلام آباد پر کنٹرول کر کے "ایٹمی پلانٹ" کو ہاتھ میں لے کر "اندھے اعتقاد" و "مذہبی جنونیت" کے غلبہ کی وجہ سے دنیا میں ہی "جہنم" کا نمونہ پیش کر دے۔ دوسری طرف اس سے اسلام کی دعوتی تصویر بگڑے گی جس کے نتیجہ میں لوگ اسلام کی طرف مائل ہونے کی بجائے اس سے خائف ہونا شروع ہو جائیں گے۔
‘ناز جس خاکِ وطن پر تھا مجھے آہ ! جگر
اسی جنت پہ جہنم کا گماں ہوتا ہے‘
کيا مذہب کی بنياد پر پاکستان کابننا ٹھيک تھا؟ خالد انصاری
اس کا جواب يہ ہے کہ قيامِ پاکستان کے وقت ہندو مسلمان کا دشمن تھا نہ کہ شعيہ ، وہابی ، سني، مرزائی يا کوئی اور فرقہ۔ فرقوں کا آپس ميں اختلاف ضرور تھا مگر قتل و غارت يا دشمنی نہ تھی اور نہ کاروباری نيم ملاں کو کوئی اہميت ديتا تھا۔ يہ ہی وجہ تھی قائداعظم کا ساتھ مسلمانوں نے ديا تاکہ ہندو بنياد پرستوں سے دور رہا جاسکے اور مسلمانوں کی مذہب کی بنياد پر حق تلفی نہ ہو۔اگر قائد کو معلوم ہوتا کہ ايک دن پاکستان کے مسلمان ايک دوسرے کے جانی دشمن بنيں گے تو شايد کانگريس نہ چھوڑتے۔ 1947 کو آج سے ملانا بے معنی ہے کيونکہ ہر نصف صدی کے بعد انسانی سوچ اور امنگيں کروٹ ليتی ہيں اور نيا دور جنم ليتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان والے خطے ميں لکير کے فقيروں کی اکثريت ہونے کی وجہ سے آج بھارت، تھائی لينڈ، ويتنام اور فلپين ہم سے بہت آگے نکل گئے ہيں۔
يہ لبرل اور مذہبی انتہا پسندی کے درميان ايک دنگل ہے۔ کرپشن اور بے انصافی کی وجہ سے معاشرے ميں يہ فيشن روز بروز عام ہو رہا ہے۔
آپ کے گھر میں بچے آپ کے باپ دادا کو گالیاں دینی شروع کر دیں گے تو کیا آپ یہ اعلان کریں گے کہ باپ دادا کی عزت کرنا ضروری نہیں ؟؟
جو ہوا ٹھیک ہوا۔ نبی آخرالزماں كی شان میں گستاخی برداشت نہیں كی جائےگی، یہ اسلام كا بنیادی اصول ہے۔
پاکستان کی آدھی پچاس فی صد آبادی باقی پچاس فی صد آبادی کو گستاخِ رسول سمجھتی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آدھی آبادی کو مار دینا چاہئے؟؟؟ شرم کا مقام ہے اس قوم کے لئے۔
قانون ناموس رسالت کی بات کی تھی اس گنہگار نے ، شان رسالت میں گستاخی کا پہلو کہاں سے نکل آیا؟ کیا یہ قانون اس جیسے چند انسانوں نے مل کر نہیں بنایا تھا؟ کیا وہ انسانی غلطیوں سے مبرا تھے؟ کیا انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں تبدیلی کی سزا موت ہونی چاہیے؟ اور اگر بات مان بھی لی جائے تو کیا یوں سڑکوں پر ہر شخص کو اپنی عدالت لگانے کا اختیار ہونا چاہیے؟ ذرا جذبات سے ہٹ کر ایک لمحے کے لئے بھی سوچیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ مملکت خداداد میں انسانی خون کس قدر ارزاں ہے ۔ یہ سب اس معاشرے کے زوال کی نشانیاں ہیں، جسے ہم اور آپ آنکھیں بند کر کے نا مناسب تاویلوں کے ذریعے کندھا دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یقین جانیے اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو کچھ بھی باقی نہیں بچنے والا۔
فائقہ صاحبہ خدا کا خوف کریں ، مانا کہ سلمان تاثیر میں ہزار برائیاں تھیں لیکن ان کا کوئی ایک بیان ایسا بھی بتا دیں جس میں اس نے شانِ رسالت میں گستاخی کی ہو ؟ انسانی قانون کو آخر آسمانی صحیفہ سمجھنے اور ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اور لفظ گالی تو شاید آپ نے بلکل نامناسب استعمال کیا ہے۔
اس قوم پر خدا کا عذاب نازل ہو رہا ہے۔ ہم نام تو اس شخص کا لیتے ہیں جو رحمت العالمین ہیں لیکن ہمارا رحم و رحمت سے تعلق بھی نہیں ہے۔ خدا کے نزدیک سب سے بہتر مذہب کی ایسی نمائش کر رہے ہیں کہ غیر مسلم تو دور کی بات مسلم دنیا بھی اچھا نہیں سوچتی ہے اس قوم کو۔ ناموسِ رسالت پر ہمارے نبی نے کسی کو کبھی کچھ نا کہا تھا۔ طائف ، ہندو اور وہ عورت جو آپ پر کوڑا پھنکتی تھی، غرض نبی پاک کے ساری زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے رحم کیا اور رحمت العالمین ہونے کا ثبوت دیا۔ آج کے مولوی آپ کے نام پر درندگی کی انتہا پر ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ پاکستانی قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ زیادہ مہلت نہیں دیتا اور ایسے کام اور ایسے لوگوں کی حمایت چھوڑ دینی چاہیے۔
ميں يہ سو چ رہا ہوں کہ آخر اسلامی واقعات ميں اس تضاد کو سمجھانے والے علما کہاں ہيں جو ايک طرف تو طائف کا واقعہ سامنے لا تا ہے اور دوسری طرف گستاخ کے ليے موت کےواقعات سناتا ہے۔ کيا طائف کے لوگ گستاخ نہيں تھے؟ اگر وہاں آپ نے درگزر کيا تو کيا آج يہ قاتل ہمارا ہيرو بن سکتا ہے؟۔ کتنے افسوس کی بات ہے ايک قتل پر کھل کر کسی نے تنقيد بھی نہیں کی ان جاہل مولويوں کے ڈر سے۔ ہر پاکستانی کو ان مولويوں کا بائيکاٹ کرنا چاہيے اور قتل کا مقدمہ ان مولويوں پر درج ہونا چاہيے جنہوں نے سلمان تاثير پر فتوٰہ ديا۔ يہ دين کو مذاق بنانے والےمولوی کسی رعایت کے مستحق نہيں۔
قانون کے رکھوالے اگر قاتل ہوں تو پھر اس ملک کا یہی حال ہوگا جس کی مثال آپ کو روزانہ بلوچستان ميں ملےگی۔ بلوچوں کے بچوں کے قتل۔ کيا بلوچ انسان يا مسلمان نہيں ہيں؟
بات جب اسلام اور نبی مہربان کی ذات گرامی تک پہنچے گی تو پھر کسی بھی مسلمان کا میٹر کہیں بھی گھوم سکتا ہے۔ چاہے وہ امریکا کی ریاست ٹیکساس میں واقع سب سے بڑے فوجی اڈے فورٹ ہڈ پر کام کرنے والا میجر نیدال حسن ہو یا پھر اسلام آباد میں ایلیٹ پولیس فورس کا جوان ملک ممتاز قادری ۔
اب وہ دن دور نہیں کہ پاک لوگوں کے پاک ملک میں مزدوری مانگنے والے "گستاخ" پر بھی آرٹیکل دوسو پچانوے سی استعمال کر کے "ایمان تازہ" کیا جائے گا۔
مذہبی علماء کے بارے میں بات کرتے لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی تو مسلم ہیں۔ تو کیا جب ان کے سامنے ایسے کوئی گستاخی کی جاتی ہے تو کیا وہ یہ کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ مذہب کے نام پر غنڈہ گردی منع ہے؟ سلمان تاثیر، ایک مسلمان ہونے کے ناطے قانون کو تبدیل کرنے کا کہہ سکتا ہے مگر اس قانون کو کالا قانون کہنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔
کيا يہ منافقت نہيں کہ بھيس محافظ کا اور نکلا قاتل۔
ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے جنہوں نے سلمان تاثیر کے الفاظ "کالا قانون" کو دین ایمان کا مسئلہ بنایا اور ان دو لفظوں سے جنت کے خواب دیکھنے لگ پڑتے ہیں۔ الفاظ کو چمٹی سے اٹھا کر نہ دیکھو بلکہ ان کو سیاق و سباق کے حوالے سے پڑھنا سیکھو۔ "کالا قانون" اس لیے کہا تھا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا تھا۔ ملائیت اور اس کی پیداواریں اس قانون کو اپنے ذاتی مفاد و فائدہ کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ ان انتہا پسندوں اور اس کے چیلوں نے الف ب پ قاعدہ سے آگے کچھ پڑھا ہوتا تو ان کو معلوم ہوتا کہ ممتاز مفتی نے اپنے سفرنامہ "لبیک" میں خانہ کعبہ کو "کالا کوٹھا" لکھا ہے۔ اس پر بھی مقدمے اور فتوٰے داغے گئے تھے۔ ہر شخص کا اپنے اللہ اور نبی سے اظہار محبت کا طریقہ اپنا ہوتا ہے۔ ممتاز مفتی نے ‘کالا کوٹھا‘ لکھ کر اللہ سے اپنا والہانہ پیار و محبت کا اظہار کیا تھا نہ کہ مذاق اڑایا تھا۔ پاکستان میں جتنی اشد اور ہنگامی بنیادوں پر سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ اور اگر یہ انقلاب جلد نہ رونما ہوا تو پاکستان کا خدا ہی حافظ۔
کيا قاتل قادری توہينِ رسالت کا مرتکب نہيں ہوا؟ جس نے اپنے پيغمبر کی امن و آتشی کی تعليمات کے برعکس پُرتشدد قتل کا راستہ چنا ۔وہ اللہ و نبی کی توہين کا مرتکب نہيں ہوا کہ ايک انسانی جان کو يوں بےدردی اور بے حرمتی سے ختم کيا؟
آخر یہ قانون ہے کیا اور کیا ترمیم کی جا رہی ہے؟ پاکستانی سیاست دانوں کو آسیہ بی بی کا مقدمہ تو نظر آتا ہے مگر ڈاکٹرعافیہ کے لیے کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ کیوں؟
ہم اسلامی شعور سے مستفيد ہونے کے لیے مولويوں کے محتاج نہيں۔
ہماری قوم اس قدر زوال پزير ہو گئی ہے، ہما ری قيادت اتنی کھوکھلی ہو گئی ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے گروہوں کے آگے کوئی بھی سياسی ليڈر بولنے سے اجتناب کر رہا ہے اور کچھ ليڈر اسی جماعت کے اس قتل کو سياسی فائدے کے ليے استعمال کرنے کی کوشش ميں ہيں۔ آخر يہ سب کچھ کيا؟ يہ سب کچھ ايسے ہی ہے کہ ميں نے ايک محافظ رکھا اور اپنے خيالات کا اظہار کيا۔ کسی نے کہا ميں نے گستاخی کی اور ميرے گارڈ نے يہ سن مجھے مار ڈالا۔ کتنے افسوس کی بات ہے اس مارنے والے کو ہيرو بنانا۔ ميرے نبی سے ايسی کوئی تعليم مجھے نہیں ملی جہاں ميں دھوکے سے کسی مسلمان کو تو کيا کسی کافر کو بھی قتل کروں۔ چاہے وہ ميدانِ جنگ ہی کيوں نہ ہو۔
بھارتيوں کو قائداعظم کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ جنہوں نے سارے ہندوستان کے ان پڑھ، جاہل اور ان سے بھی بڑے، پڑھے لکھے بيوقوف اور بزدل ايک جگہ اکٹھے کر کے اس کو پاکستان کا نام دے ديا ورنہ ان لوگوں نے تمام ہندوستان کا جينا حرام کر دينا تھا۔ کيا کوئی بتائےگا کہ تاثير نے کون سی توہينِ رسالت کی تھي؟ بس مولويوں نے مشہور کرديا اور سب جاہلوں نے مان ليا۔ کيا کسی انسان کے بنائے قانون کی مخالفت کرنا يا تبديل کرنا توہينِ رسالت ہے؟
"جنگ کے اور بھی تو میدان ہیں
صرف میدانِ کشت وخون ہی نہیں
حاصلِ زندگی خرد بھی ہے،
حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں"
اگر کوئی سچا عاشقِ رسول ہے تو وہ سلمان تاثير ہے۔ يثرب کے والي، غريبوں اور مظلوموں کے خيرخواہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ايک ارب پتی بزنس مين اور گورنر نے اپني جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ايک غريب بےسہارا بچوں کی مظلوم ماں کے ليے جان دے کر سچے عاشقِ رسول کا فرض نبھايا ہے۔ باقی سب باتيں کرتے رہ گئے۔
میں ان لوگوں كی بات سے اتفاق كروں گا جو كہہ رہے ہیں كہ توہینِ رسالت قانون كا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے لیكن ہمارے ملك میں ایسے متعدد قوانین موجود ہیں جن كا غلط استعمال كركے بے گناہ لوگوں كو مصیبت میں مبتلا كیا جاتا ہے۔ تاہم كیا اس سے وہ قانون بھی غلط ہوجاتا ہے؟ قانون كا غلط استعمال ہو تو قانون كو بدلنے كی ضرورت نہیں بلكہ استعمال كرنے والوں پر گرفت كی ضرورت ہے۔
ہم نبی کی ذات سے پیار پہلے کرتے ہیں اور ان کی سنت سے بعد میں۔ اس لئے کہ ذات پہلے ہوتی ہے اور سیرت بعد میں۔ سیرت کیا کہتی ہے ، بعد میں دیکھنا چاہئے۔ پہلے اس زبان کا بند ہونا ضروری ہے جو پیارے نبی کی توہین پر سزا کے قانون کو "کالا قانون" کہے۔
قانون کا غلط استعمال ہمیشہ قانون میں موجود سقم کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے اور قوانین تو ہر معاشرہ اپنی ضروریات اور عوامی رجحانات کے بنیاد پر تشکیل دیتا ہے۔ ترمیم کا مطلب کسی قانون کو سرے سے ختم کرنا کب ہوتا ہے؟ اس سے مراد قانون میں موجود سقم دور کرنا ہوتا ہے اور اگر قوانین میں ترمیم کی رسم ختم کی جائے تو معاشرہ جمود کا شکار ہو کر زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ بات درست ہے کہ قوانین پر عمل درآمد کے سلسلے میں اصلاح پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنے نبی سے پیار ہے اور اس کے اظہار کے لئے کسی قانون کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں۔ کسی کے ماں باپ کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہہ دے یا گالی بک دے تو اس گستاخ کی زبان کھینچ لینا ہماری غیرت کا پیمانہ ہے لیکن اگر کوئی ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کرے یا ان سے منسوب افراد کے بارے میں منفی رائے دے تو ہمیں رواداری اور بردباری کی تلقین کی جاتی ہے۔ واہ رے دوہرا معیار۔۔۔
آپ اپنی ان چند سطروں سے ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ توہینِ رسالت کے مرتکب افراد چاہے ان کا تعلق کسی ملک سے یا کسی زبان سے یا پاکستان کے کسی بھی مسلک سے ہوگستاخِ رسول کی سزا صرف موت ہے اور یہ قانون کسی عام انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے۔ قرآنی صورتوں اور احادیث و روایات سے ثابت ہے۔ خیر پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ہی بنا تھا اور اس کی بنیاد اسلام کے نام پر ہی ہوئی ہے۔ آپ جیسے روشن خیال مسلمانوں کی چند سطور لکھنے سے سوائے شر کے اور کچھ نہیں پھیلتا۔