| بلاگز | اگلا بلاگ >>

جموریت برُی یاڈکٹیٹرشپ؟

اصناف: ,

نعیمہ احمد مہجور | 2011-02-02 ،15:10

مصر کے عوامی مظاہروں کو دیکھ کر جہاں عرب دنیا کے اندر ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے وہیں اُن قوموں میں اضطراب کی کیفیت ہے جو جمہوریت میں رہ کر اپنے حقوق سے محروم ہیں۔

حسنی مبارک کی مطلق العنان حکومت پر اِلزام ہے کہ اس نے اپوزیشن کو خاموش کر دیا، عوام کے بنیادی حقوق سلب کر لیے، غریب اور امیر کے بیچ خلیج کو وسیع کر دیا، جھوٹے انتخابات کا ڈرامہ کروایا اور مغربی آقاؤں کے اِشارے پر عوام کی خواہشات کو نظرانداز کر دیا حالانکہ مغربی آقا خود کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتے ہیں۔

اِن الزامات کی روشنی میں جمہوریت کی کوکھ میں پلنے والے کشمیر پر نظر ڈالیں۔

سن نوے کے بعد سے تقریباً سات لاکھ فوج کشمیر کی گلیوں اور سڑکوں پر تعینات ہے۔ تحریک کے دوران گرفتار کیے جانے والے ہزاروں نوجوان بھارت کی مختلف جیلوں میں اسیر ہیں۔ خود حکومت کی اعدادو شمار کے مطابق چھیالیس ہزار افراد ہلاک کر دیے گئے جن کی تعداد انسانی حقوق کی تنظیمیں اّسی ہزار سے زائد بتاتی ہیں۔ صرف سن دو ہزار دس میں پولیس نے تین ہزار نوجوانوں کو سنگ بازی کے الزام میں گرفتار کیا۔

اب بھی دس ہزار نوجوان لاپتہ ہیں اور چالیس ہزار سے زائد یتیم بچے ہیں۔ عصمت دری کے تقریباً سات سو واقعات رجسٹر ہوئے ہیں۔

انتہا یہ ہے کہ بجلی پانی سڑک یا روزگار کے لیے اگر جلوس یا احتجاج ہوتا ہے تو بچوں اور نوجوانوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے۔ یہ سب جمہوریت کے سائے میں ہو رہا ہے۔

شاید اسی لیے کشمیر میں جہموریت اور ڈکٹیٹرشپ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا اور وہ اس کی پیچیدگیوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:40 2011-02-02 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
    بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘

  • 2. 16:01 2011-02-02 ,احمد بگٹی :

    جنوبی ایشیاء میں مخصوص مفادات کے تحفظ کے لئے جمہوری آمریت کے بہترین نمونے بلوچستان اور کشمیر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسی جمہوریت اور آمریت میں میں تمیز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی جس پیمانے پر پامالی جمہوریت کے نام نہاد چھتری تلے ہو رہی ہے ایسا شاید شخصی آمریت میں نا ممکن ہے، کیونکہ جمہوری تماشوں میں اپنی سیاہ کاریوں کی گھنٹی کسی اور کے گلے باندھنا بہت آسان ہوتا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی باتیں، تعلیم، صحت، شہری و سماجی سہولیات، یہ سب فلسفیانہ باتیں ہیں، کمزور و محکوم لوگوں کے لئے اس طرح کے خواب دیکھنے پر بھی پابندی ہونی چاہیۓ، کیونکہ یہ خواب انہیں غلامانہ زندگی جینے نہیں دیتیں اور عام انسانی زندگی ان کا حق نہیں ہوتا۔ کشمیری اور بلوچ اپنے کمزور ہونے کی قیمت اگر رضاکارانہ طور پر ادا نہیں کرتے تو طاقتور قوتیں ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالنے کا گر بہت خوب جانتی ہیں۔

  • 3. 17:03 2011-02-02 , رضا :

    برما کی طرح کشمير بھی جغرافيائی حيثيت کی سزا بھگت رہا ہے- خدا رحم کرے، اس کے دکھوں کا خاتمہ بھی نظر نہيں آتا -

  • 4. 17:46 2011-02-02 ,Tanveer Arif :

    کشمیری فیصلہ کریں کہ ان کی جدوجہد قوم پرستی کی ہے یا جہادی-

  • 5. 19:28 2011-02-02 ,رمضان مندازی آمری پاکستان :

    میرے نزدیک جمہوریت کا معنی ہے "سیاست دانوں کا وہ ہتھیار جس کے استعمال سےکوئی سیاست داں منٹوں میں نہ صرف عرب پتی بن سکتا ہے بلکہ سیکنڈوں کے حساب سے اپنے سیاسی حریفوں کو کنگال بنا کر ملک سے باہر بھیج کر ساری برائیوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور یہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ یہ تمام کوتاہیاں ہمیں ورثے میں ملی ہیں" جبکہ آمریت کا مطلب میری لغت میں "بد عنوان سیاست دانوں اور چوروں کو سبق سیکھانا اور ان کا احتساب کرنا ہے"۔

  • 6. 23:19 2011-02-02 ,جج بادشاہ،وولنگونگ آستراليا :

    محترمہ آپ کا بلاگ آپ کی شريف النفس سوچ، سادگی اور کشمير سے محبت کو عياں کرتا ہے مگر تجربات اور نتائج کی روشنی ميں ديکھا جائے تو آج تک دنيا ميں جتنے قانون و قائدے، نظريات اور مذہب آئے ان ميں سب سے بہتر جمہوری نظام ہی ثابت ہوا (آپ سو فيصد کامياب کبھی نہيں ہوسکتے)۔ سوشلازم يا مارکس کے نظريات دوسرے نمبر پر آتے ہيں مگر اس کے ليۓ ضروری ہے کہ يہ پوری دنيا ميں ہو کيونکہ آج کے سائينسی دور ميں اگر ايک طرف امريکہ اور يورپ ميں آزاد سيکولرازم ہو تو چند ملکوں ميں نافذ سوشلازم اس قوم کو نفسياتی طور پر محکوم بنادے گا۔ اسی ليۓ روس کے عوام نے اس کو رد کرديا۔ باقی ڈکٹيٹر شپ يا بادشاہت کا مطلب تو عوام کو غلام بنانے کے مترادف ہے۔ جہاں تک کشمير اور بھارت کا ايشو ہے اس کو جمہوريت يا ڈکٹيٹرشپ سے ملانا بے معنی ہے کيونکہ کشمير کے علاوہ بھی بھارت کے صوبے ہيں وہاں تو کچھ نہيں ہوتا اصل بات عليحدگی کی ہے اور جمہوريت کا مطلب يہ نہيں کہ جب مرضی کوئی گروپ عليحدگی چاہے تو اسے عليحدہ کرديا جائے اس کے ليۓ ضروری ہے کہ ايسے حالات پيدا کيۓ جائيں کہ جس سے دنيا کو پتہ چلے کہ ان سے بحثيت قوم زيادتی ہوتی ہے اور عليحدہ ہوکر وہ پہلے سے بہتر معاشی حالت بنا سکتے ہيں مگر کشمير ميں ايسا نہيں ہے بلکہ چند شدت پسندوں کے علاوہ بہت سے لوگ بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی ہيں نيز آزادی کے ايشو کو واضح بھی نہيں کيا جاتا کہ وہ عليحدہ کشمير چاہتے ہيں يا پاکستان کے ساتھ الحاق۔ يہ بھارت کی جمہوريت کی کاميابی ہی ہے کہ آج دنيا کی دوسری بڑی آبادی ميں کئی چھوٹے ملکوں کی نسبت زيادہ امن ہے اور 2011 کا عالمی کرکٹ ورلڈ کپ بھی شروع ہونے والا ہے۔

  • 7. 2:23 2011-02-03 ,javed ahmed malik.ubauro :

    کشمیر بنے گا پاکستان۔

  • 8. 5:52 2011-02-03 ,iqbal khursheed, karachi :

    پسماندگی اور جبر کا شکار یہ خطہ، ایک طویل عرصے سے جمہوریت اور آمریت کے درمیان کھڑا ہے جس کی کوکھ سے اذیت جنم لے رہی ہے۔ کشمیر اس کی ایک مثال ہے، تاہم اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، تو فہرست طویل ہوسکتی ہے۔ کئی چھوٹے بڑے علاقوں میں ریاستی جبر کے خلاف تحریک جاری ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں کئی ریاستیں علیحدگی کی خواہش مند ہیں۔ اگر روس اور چین کی جانب نظر دوڑائی جائے، تو شاید وہاں بھی ایسی مثالیں مل جائیں۔ ہندوستان بھی اسی خطہ کا ایک ترقی کرتا، غریب ملک ہے، مشرق جس اجتماعی المیے کا سامنا ہے، وہ اس خطہ کے مظلوم عوام کو درپیش ہے، اور شاید آگے بھی رہے۔

  • 9. 7:27 2011-02-03 ,سجادالحسنين حيدرآباد دکن :

    بے شک يہ حقيقت ہے ليکن جہاں تک ميرا خيال ہے مصر کے انقلاب کا موازنہ کشمير کے حالات سے نہيں کيا جاسکتا -

  • 10. 12:45 2011-02-03 ,ghulam mustafa :

    جمہوریت اور امارات بھری طاقتوں کا کھیل ہے، جو ان کے مفادات کا زیادہ خیال رکھے وہ ہی اچھا ہوتا ہے، چاہے وہ "ووٹ بلیٹ" سے آیا ہو یا "ڈنڈے" کے زور پر۔ چاہے وہ حسنی مبارک ہو یا ہمارے ملک کا کوئی حکمران۔

  • 11. 15:48 2011-02-03 ,shaheen :

    کشمیر وہ خطہ ہے جہاں تحریکِ آزادی سب سے طویل ہے۔ قربانیاں رنگ لائیں گی اگر آزادی پسند حضرات کی قیادت دل سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

  • 12. 17:23 2011-02-03 ,Hamid Mehmood - Dublin :

    ہمیں مغرب کو الزام دینے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہے۔ مغرب میں سب ٹھیک ہو رہا ہے لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے خوار نہیں ہونا پڑتا، وہاں لوگ agencies کے ہاتھوں غائب نہیں ہوتے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس میں سب قصور ان کا ہے اور ہم بےقصور ہیں۔ ہر کوئی اپنے مفاد کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہ کوئی love affair نہیں ہے -we should growup

  • 13. 16:54 2011-02-04 ,حامد محمود :

    سب سے آسان یہ ہے کہ اپنی کوتاہیاں دوسروں پر ڈال دیں۔ بیرونی ہاتھ، کوئی تیسرا ہاتھ، را، یہود و ہنود، امریکا، سب احمق بنانے کے سلوگن ہیں اور ہم اتنے سادہ کہ سالہا سال سے مان لیتے ہیں ان باتوں کو۔

  • 14. 7:30 2011-02-08 ,رضا :

    جنوبي سوڈان کے رائے شماري کےنتائج ديکھ کر امريکی صدر اوباما نے جولائی دو ہزار گیارہ ميں جنوبی سوڈان کو ايک آزاد ملک تسليم کر لينے کا عنديہ ديا ہے۔ ايک رائے شماري کا وعدہ کشميريوں سے بھی ہوا تھاانیس سو اڑتالیس ميں، يہ وعدہ کون سی نسل سے وفا ہو گا؟ يا ان کے لئے کوئی دوسرا معيار روا رکھا ہے؟

  • 15. 6:45 2011-02-28 ,راجہ جی :

    وہی بھلا جو سب کا بھلا کرے۔ اگر جمہیوریت صرف نعروں تک محدود ہو اور اس کی ہر حرکت عوام مخالف ہو، تو آچار ڈالنا ہے ایسی جمہوریت کا۔ اگر ڈکٹیٹر شپ عوام کی فلاح و بہبود کا کام کرتی ہے اور پرامن زندگی گزارنے کا حق دیتی ہے تو پھر جمہوریت سے کہیں بہتر ہے۔

̳ iD

̳ navigation

̳ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔