مصر ہنوز دور است
'آج اگر نذار قبانی زندہ ہوتے تو مصر سمیت عرب دنیا میں موجودہ عوامی لہر پر شاندار نظم لکھتے'۔ میرے ایک دوست نے کہا۔
نذار قبانی، عرب دنیا کا بہت بڑا شاعر جس نے مصر کے جمال ناصر کے مرنے پر ان کے جنازے میں شریک مطلق العنان عرب حکمرانوں کیلیے کہا تھا 'وہ پیغمبر کے جنازے کے جلوس میں اپنے جبوں تلے خنجر چھپائے چل رہے ہیں'۔ نذار قبانی کی یہ نظم اس کے اپنے ملک شام سمیت کئی ملکوں میں کئی برسوں تک زیر بندش رہی تھی۔
آج نذار قبانی کے لوگ اپنے ایسے مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جن کو اس نے علامتی طور 'ابو لہب' کا نام دیا تھا۔ ابو لہب حکمرانوں کے خلاف مصر 'یہیں سے اٹھے گا شور محشر یہیں پہ روز حساب ہوگا' کی صدا بنا ہوا ہے۔
کسے خبر تھی کہ وہ پیارے پیارے بچے جو کل تک مبارک کو سکولوں میں سلامی دیتے تھے آج اس کے ٹینکوں کے آگے بوریا بستر ڈالے ہوئے 'جاؤ جاؤ مبارک جاؤ' کے نعرے لگا رہے ہوں گے۔ ان میں سے ہزاروں لاکھوں ہیں جن کی عمریں مبارک کی مطلق العنانی والے برسوں کی مدت سے بھی بہت کم ہے۔
مصر میں جو غریب کا ٹھیلہ الٹا تھا وہ اب تخت تاج گرائے جانے کا موجب بنا۔ تیونس اور اب، مصری لوگ ہیں کہ نیل بپھرا ہوا ہے۔
یہ لہر پاکستان تک جائے گی؟ کئی لوگ اس عظیم جمہوریت کے بارے میں خوش فہمی میں ہیں جہاں سب اچھا ہے۔ جہاں لوگ بھوک سے اپنے بچے بیچتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ عجیب و غریب ملک مصر بن جائے نہرو جیسا دماغ رکھنے والے صدر اور وزیر اعظم کے تدبر و تدابیر سے ستر وزراء کی فوج ظفر موج پر مشتمل کی کابینہ کی کٹوتی کردی گئی ہے کہ مصر ہنوز دور است۔
تبصرےتبصرہ کریں
پاکستانی حکمران تو حسنی مبارک سے دو ہاتھ آگے ہی ہیں ، حالات مصر سے بد تر ، عوام مضطرب لیکن جلد بہل جانے والے - یہاں زندگی کے پیمانے مختلف ہیں بلکہ بدل چکے ہیں - احتجاج تو بہت ہوتے ہیں بلکہ اب مشغلہ ہی بن گۓ ہیں ، لیکن ان احتجاجوں میں معنویت ندارد ، مستقل مزاجی ناپید اور پھر ایک اور احتجاج کا عزم لئے پرانے احتجاج کو ختم کیا جاتا ہے- اب کی صورتحال میں ممکنہ شدید احتجاج سے نمٹنے کے لئے استحصالی قوتین بزعم خود قیادت کے لئے پر تول رہی ہیں- اول تو کسی انقلابی احتجاج کو سر نہیں ابھارنے دیا جاۓ گا ، اگر خدا نخواستہ ایسا ہو بھی جاتا ہے تو انھیں غلامی میں جکڑنا آسان بنانے کا بندوبست بھی پیشگی کیا جا رہا ہے لہذا راوی چین ہی چین لکھتا ہے
کوئی سر پیر نہیں آپ کی بات کا۔
ہمارے ہاں نام نہاد مفاہمت کی سياست والے انتہائی مکار و چالاک ہيں۔ عوام کے غيض وغضب کے آگے کون ٹہرسکا ہے مگر عوام بيدار تو ہو۔جب ميدان عمل ميں نکل کھڑے ہوں تو نتائج بر آمد ہی ہوتے ہيں۔يہ لہر شايد يہاں تک وارد نہ ہو کہ ہمارے لوگوں کا مزاج يکسر مختلف ہے
حسن مجتییٰ بھائی ، یہ لوگ کبھی نہیں سدھریں گے - اس سے پہلے کہ یہاں کے لوگ کسی تبدیلی کے بارے میں سوچیں یہ چالاک لوگ شوگر کوٹنگ کرکے حالات دبا لیں گے مزید کچھ وقت کے لیے - اور اس میں یہ حکمران ہ بلکہ یہاں کی آرمی ، اسٹلبشمینٹ اور سیاستدان سب شامل ہیں۔
پاکستان ميں مصر والی صورتحال اسليۓ پيدا نہيں ہوگی کيونکہ پاکستان ميں کوئ بھی حکمران عربوں کی طرح اتنے لمبے عرصے کی ليۓ چاہنے کے باوجود نہيں رہ سکتا- ہاں پاکستان ميں ايک بخرابی عام ہے جو کہ عرب مطلق العنان حمکرانوں سے مماثلت رکھتی ہے يہاں پر حکمرانوں کے خاندان والے چاہے وہ اہل ہو يا نہيں اپنے باپ دادوں کے نام ليکر اور انکے نام پر عوام کو مروجہ طريقوں سے دھوکہ ديکر کرسی پر براجمان ہو جاتے ہيں اور جب ايک پارٹی اپنے مالی مسائل حل کر ليتی ہے تو تب دوسری پارٹی اسی چال کو استعمال ميں لا کر کرسی اور عوام کے کاندھوں پر سوار ہو جاتی ہے اور کبھی ملک کی تيسری بڑی پارٹی (فوج) دونوں کو مظلوم بنا کر ملک و قوم کے بہترين مفاد ميں نا چاہتے ہوۓ بھی سياسی دکانداروں سے دوگنا وقت لگا کر کچھ وقت آرام کرنے بيرکوں ميں چلی جاتی ہے -
ميں مصريوں کو داد دينا چاہتا ہوں جنہوں نے ايک مختصر وقت ميں نہتے اور پرامن رہ کر مبارک جيسے مضبوط اعصاب والے حکمران کو صدارتی محل سے بے دخل کر کے ايک نئ شاندار مثال قائم کردی ہے اور دنيا کو ايک نيا انداز سکھا ديا ہے کہ بغير اشتعال اور خون خرابے کے بھی کسی فرعون کو سبق سکھايا جاسکتا ہے- آج دنيا مصری نوجوان جو مبارک کے دور ميں ہی پيدا اور جوان ہوۓ کو انکے اس نۓ انداز کو شاندار الفاظ ميں داد دے رہی ہے- ورنہ تو لاکھوں لوگوں کو مروا کر اپنی کرسی بچائی جايا کرنے کی روايت تو بہت عام ہے -
ايک بات اور نوٹ کرنے کی ہے جب بھی فوج نے حکومت کی عوام پر گولی چلانے کے احکام نہيں مانے عوام اور فوج دونوں جيتے اسکی مثال ہم سويت يونين، تيونس اور اب مصر ميں ديکھ چکے ہيں -
تصحیح فرمالیں۔
مصر میں نہیں۔ بلکہ تیونس میں ایک بے روزگار گریجویٹ کے پاس بلدیہ کا اجازت نامہ نہ ہونے کی وجہ سے اسکا ٹھیلہ پولیس نے الٹا دیا تھا اور اسے ایک تھپڑ بھی جڑ دیا تھا۔ اس بے روزگار گریجویٹ نوجوان نے اس پہ دلبرداشتہ ہو کر خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی تھی اور مرنے سے پہلے سارے معاملے کو واضح کر گیا تھا کہ وہ کیوں مرنے جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں تیونس اور بعد ازاں مصر کے آمروں کو ملک سے بھاگنا پڑا۔
تیونسی اور مصری تحریکوں کا پاکستان پہ کوئی اثر پڑتا نظر نہیں آتا۔ نابیناؤں کے گھروں میں بینا پیدا ہو سکتے ہٰیں مگر معزوری اور محتاجی کی جس بے ایمان بیماری کا ہم شکار ہیں اسکا کوئی علاج نہیں۔ یہ بات پاکستان کے کابینہ ساز اچھی طرح جانتے ہیں۔
مجتبی بھائی ہمارے مزاج میں ہی احتجاج نہیں ہے۔ ہم لوگ علام ذہییت کے ہیں اسی لیے ہم کوئی انقلاب نہیں لا سکتے ہم نے ہر آنیوالے کیلیے واہ واہ کرنی ہے۔
شام کے شاعر نزار قبانی کی کچھ شاعری خاکسار کی نظروں سے بھی گزری ہے اور ان کی نظموں کی مجموعی خصوصیت ولولہ انگیزی، پر امیدی اور جوش و جذبہ کا تصویری اظہار ہے۔ قبانی نے عرب لیڈرشپ پر اپنی شاعری میں بھرپور وار کیے اور مصری عوام کے ساتھ ساتھ عرب عوام کو خوب جھنجھوڑا اور خوابِ خرگوش سے جگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شاعرانہ خصوصیات، ملک کے سیاسی حالات و واقعات اور قید و بند صعوبتوں کے پیشِ نظر حبیب جالب کو پاکستان کا قبانی کہا جا سکتا ہے۔ قبانی اپنی ایک معروف نظم میں سوئی ہوئی عرب قوم کو جگانے کی غرض سے لکھتے ہیں:
‘ہم گلیوں میں دندنائے پھرتے ہیں
لوگوں کو رسیوں میں جکڑتے ہیں
کھڑکیاں اور تالے توڑتے رہتے ہیں۔
ہم مینڈک کی طرح تعریف کے پل باندھتے ہیں
مینڈک کی طرح قسمیں کھاتے ہیں
ہم بونوں کو ہیرو
اور ہیروز کو زیرہ بنا دیتے ہیں
ہمیں سوچنے کی فرصت ہی کہاں ہے
ہم بے کار شور مچاتے ہیں
محاورے بولتے ہیں
دشمن پر فتح کے لیے
خدا سے مدد مانگتے ہیں ۔۔۔‘