انکوائری کا لولی پاپ
آج میرا دل و دماغ کچھ نہیں کہہ رہا لیکن مجھے صرف اور صرف اظہار ہمدردی پر مجبور کر رہا ہے۔ یہ ہمدردی میں اور کسی سے نہیں اپنی قوم کے منتخب رہنماؤں سے کرنا چاہتا ہوں۔ کتنا مشکل ملک ملا ہے انہیں چلانے کے لیے۔ بےچارے صدر اور وزیر اعظم تو آج کل انکوائریوں کے حکم دے دے کر یقینا تھک گئے ہوں گے۔ ایک کے بعد دوسرا ایسے اندوہناک واقع کہ قوم کے پاس شاید اظہار حیرت میں چبانے کے لیے انگلیاں بھی نہیں رہیں۔
ان انکوائریوں کو مکمل کرنے کا وقت کس کے پاس ہے۔ یہ تو عوام کی تسلی کے لیے لولی پاپ ہیں جو انہیں وقتی طور پر مطمئن کرنے کے لیے تھما دیے جاتے ہیں۔ ان کی نتائج کا انتظار کوئی نہیں کرسکتا لہذا حکومت کی حد تک انہیں بھلا دیا جاتا ہے۔ یہی شاید وجہ ہے کہ ایک بھی مکمل ہو کر عوام کے سامنے نہیں لائی گئی ہیں۔ حکمرانوں کے نذدیک اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ناخوشگوار واقعات بار بار قوم کو یاد دلانا بھی اچھا نہیں۔ انہیں قوم کی ظاہری صحت کی شاید زیادہ فکر ہے۔ ان کی حکمت عملی یہی بہتر ہے کہ لوگ اسے بھول جائیں تو بہتر ہے۔ لیکن میرے لیے ایسا ممکن نہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے کہ ماضی میں ہونے والی انکوائریاں اور ان کے نتائج سب کو معلوم ہیں لیکن ایک نظر ضرور ڈالتے ہیں ماضی قریب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ تحقیقات پر۔
1۔ سب سے بڑی تحقیقات تو ملک کی خودمختاری کی امریکہ کی جانب سے تاریخی خلاف ورزی یعنی واقعے ایبٹ آباد حملے کی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے نہ چاہتے ہوئے بھی کمیشن کا اعلان ہوگیا ہے۔ نتیجہ مجھے اور سترا کروڑ عوام کو معلوم ہے۔
2۔ کوئٹہ میں خروٹ آباد میں پانچ غیرملکیوں کی ہلاکت
3۔ عمر چیمہ پر تشدد کی انکوائری۔
مہران بیس پر حملے کی تحقیقات4۔
5ترقیاتی بینک میں صحافیوں پر تشدد کی انکوائری
اور اب
6 نے کہا ہے کہ سلیم شہزاد کی ہلاکت کی تحقیقات پر بھی ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ نتیجہ مجھے معلوم ہے لہذا میری حکومت سے التجاء ہے کہ اخلاقی دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں۔ وزیرستان کے حیات اللہ، سوات کے موسی خانخیل اور عبدالعزیز، باڑہ کے نصر اللہ آفریدی اور باجوڑ کے محمد ابراہیم جیسے کئی دیگر صحافیوں کی ہلاکت کی تحقیقات مکمل ہوتیں اور مجرم پکڑے جاتے تو شاید آج ہم سلیم شہزاد کو خود خبر بنے سے بچا لیتے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب ہارون صاحب یہ سوال ہی نہیں کہ انکوائری ہونی چاہیے بلکہ سلیم شہزاد دن دھاڑھے اسلام آباد سے اغواء ہوئے ہیں حکومت کو ذمہ داران کو پکڑ نا ہوگا چاہے کوئی بھی ہوں۔ رحمان ملک کی طرف سے انعام مقرر کرنا صحافیوں کے ساتھ ایک اور مذاق ہے۔
اگر انکوائری کميشن واقعات کی تحقيقات کرنے ميں کامياب ہوجاتے ہيں تو يہ سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ ہماری کشتی کنارے لگ گئی اور ملک کا امن کی طرف پہلا قدم۔ حکومتی کميشن اس وقت کامياب ہونگے جب حکومت، فوج اور اس کی انٹيليجنس سے زيادہ طاقتور ہوں گے جو کہ نہيں ہے۔
انکوائری کمیشنز قائم کر کر کے حکومت نے اپنے آپ کو تماشہ بنا لیا ہے۔ رحمان ملک نے ابھی سےکہہ دیا ہے کہ سلیم شہزاد کا قتل دشمنی معلوم ہوتی ہے۔ جب رحمان صاحب نے بتا دیا کہ یہ دشمنوں کی کارروائی ہے تو پھر کمیشن کس کام کا؟
کيوں بيچاری آئی ايس آئی کے پيچھے پڑے ہوئے ہيں آپ لوگ ! باقی دنيا ميں بھی تو جابر حکومت کر رہی ہیں نا۔ٰ
ہماری حکومت پہلے دن سے لولی پاپ پر چل رہی ہے۔ تین سال تو مکمل کر لئے ہیں باقی تین بھی اسی طرح پورے ہو جائیں گے۔ صدراور وزیر اعظم اسی طرح تبادلہ خیال کر کے کسی دوسرے ملک کے دورے پر چل پڑیں گے۔
انکوائری بٹھانے کا مطلب تو حقائق کو وہ رخ دينا ہے جو ارباب اختيار لوگوں کو دکھانا چاہتے ہيں۔ يہ صرف وقت حاصل کرنے کے ڈرامے ہيں۔ اصل حقائق تو ويسے ہی سامنے آنے چاہئيں کہ کہيں کوئی شديد کمی ہے اور ادارے اپنے اصل کام پر توجہ نہيں ديتے۔
‘روزِ محشر کسے معلوم کہ کب آئے گا
عدل بَر وقت ملے اس پہ یقین رکھتا ہوں مَیں‘
اس میں کوئی شک کی بات اب نہیں رہ گئی کہ پاکستان ایک وکھری ٹائپ کا ایسا ملک ہے جہاں پر جُرم کرنے والوں کو حتیٰ کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے جرائم پیشہ افراد کو بھی انکوائری اور تفتیش کے طویل ترین عمل میں سے گزار کر انہیں آزادی اور زندگی کی ایک نئی امید کی راہ دکھلائی جاتی ہے۔ یہ یہاں کے قانون، پولیس اور عدالتی نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف مظلوم اور متاثرہ افراد کے دلوں میں بھی ظالمان کے خلاف غم و غصے اور انہیں کیفرِ کردار پر پہنچانے کے لیے جذبات بتدریج دھیمے پڑتے جاتے ہیں۔ پاکستان کا عدالتی نظام بہت پیچیدہ ہے اور تفتیش، ثبوت،گواہان وغیرہ کے لولی پاپ کے ذریعے قاتلوں کو زندگی بخشی جاتی ہے۔ جس پس منظر میں سلیم شہزاد کو قتل کیا گیا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے تو اب تبصرہ لکھتے ہوئے بھی کافی چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ بہرحال سلیم شہزاد کی ہلاکت پر انکوائری کمیشن بٹھانا اس لیے قرین قیاس اور عقل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے کہ انہیں “نامعلوم“ افراد نے قتل کیا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں بغیر انکوائری و تفتیش کے فوری کسی کے خلاف فیصلہ صادر کر دینا بذاتِ خود ایک غلط اور غیر اخلاقی بات ہے۔ ایشیاء ٹائمز آن لائن میں سلیم شہزاد کی رپورٹ تب منظر عام آئی جب ان کے اغوا کی خبر آئی۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ ایشیاء ٹائمز آن لائن اس قدر مشہور نہیں کہ اس کی خبر فوری طور پر عوامی توجہ حاصل کر لے حالانکہ رپورٹ کا جس قسم کا مواد ہے وہ جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیلنے کو کافی تھا۔ مزید برآں، جب مذکورہ صحافی پر غیرمحتاط رپورٹنگ کا الزام بھی داغا جاتا رہا ہو اور ان کی تحقیقی رپورٹ “نامعلوم ذرائع“ کے حوالے سے شائع ہو، اور صرف اپنے مطلب کی خبر لے اڑتے ہوں اور اُس کی تحقیق میں لگ جاتے ہوں۔ تو “نامعلوم ذرائع“ اور “مطلب کی خبر“ سے درجنوں سوالات ذہن میں جنم لینے لگتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ “مطلب کی خبر“ راتوں رات شہرت پانے کے لیے ہو؟ یا اس سے “پارٹ ٹائم“ ملتا ہو؟ یا اس سے “سپیشلائزیشن“ کی دھونس جمائی جا سکتی ہو، وغیرہ وغیرہ۔ نامعلوم ذرائع سے قطع تعلق نیوی بیس پی این ایس پر حملہ اور اس سے قبل نیوی کی بسوں پر ہونے والے حملوں کو اگر دیکھا جائے تو سلیم شہزاد کی رپورٹ کافی وزن رکھتی ہے۔ دوسری طرف اس بات کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی کہ اسامہ کی امریکی اپریشن کے ذریعے ہلاکت کے بعد سے پاکستان کے خفیہ اداروں پر بہت دباؤ ہے لہذا عین ممکن ہے کہ اس دباؤ کو مزید بڑھانے کے لیے سلیم شہزاد کو “کرائے کے قاتلوں“ کے ذریعہ قتل کروایا گیا ہو۔ ان تمام پہلوؤں کے بعد بھی بلین روپے کا سوال ابھی باقی ہے کہ جب ایک رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے قاتل نامی قادری ابھی تک کیفرِ کردار تک نہیں پہنچا تو پھر نامعلوم افراد کے ٹارچر سے ہلاک ہونے والے سلیم شہزاد کے قتل پر انکوائری بٹھانا کیا وزن اور معنی رکھتا ہے؟
پاکستان دنیا میں صحافیوں کےلئے ایسا خطر ناک ملک بن چکا ہے کہ اب کوئی صحافی یہ سوچے بھی نہیں کہ وہ آزاد صحافت اور عوام کی آواز بنے گا۔ اگر کسی صحافی کو آزاد صحافت کرنا ہے تو اس کا میرے پیارے صحافیوں بھائیوں کے ساتھ ایسا ہوگا جو پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں صحافیوں کے ساتھ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں، خفیہ اداروں اور دیگر اعلیٰ طاقت رکھنے والوں نے خود پاکستان کو صحافیوں کے لئے خطر ناک ملک بنا دیا ہے تاکہ ان لوگوں کی بدعنوانی، بلوچستان ، قبائلی علاقوں اور ملک کے دیگر علاقوں میں بےگناہ شہریوں کا قتل عام جاری رہے۔ عوام کے سامنے اصل حقائق نا آسکیں۔ بھائی میرے پاکستان میں اگر کسی واقع پر کمیشن یا انکوائری کروانے کا حکام دیا جاتا ہے تو اس واقع کو سرد خانے میں ڈالا جا تا ہے۔ رحمن ملک صاحب، آپ اپنی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو اب تک نہیں پکڑ سکے ہیں تو صحافی غریبوں کے قاتلوں کو کیا پکڑیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ تحقیقات کی کوئی ضرورت نہیں لیکن لوگ چپ ہیں۔ احتجاج کیوں نہیں ہو رہا ہے۔
ہر بم دھماکے اور خود کش حملے کے بعد وزیر داخلہ تحقیقات کا حکم دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اور صوبائی حکومت سے رپورٹ بھی طلب کرتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن آگے پھر کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ کوئی پتہ نہیں۔
ویسے بھی ہارون صاحب۔۔۔۔ جس مسئلے سے جان چھڑانا ہو اس کے لیئے کمیٹی بنائی جاتی ہے اور جس واقعے پر مٹی ڈالنا ہو اس کی تحقیقات کا حکم دیا جاتا ہے
کچھ بھی نہیں ہوگا لوگ مرتے رہیں گے اور ہم چکھتے رہیں گے۔ یہ ملک تباہ ہو جائے گا۔
شاید کے ترے دل ميں اتر جائے میری بات
اگر آئی ایس آئی اپنا جو ان کا اصل کام ہے کرتی تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ سلیم شہزاد کو اس بات کی سزا دینا کہ انہوں نے کوئی خبر دی کہ بحریہ میں شدت پسند گروپ بن گیا ہے۔ آئی ایس آئی کا کام تھا کہ وہ یہ گروپ نہ بننے دیتی لیکن افسوس کہ سب ایجنسیاں اپنے کام سے ہٹ گئیں ہیں۔
ہارون صاحب !يہ بات تو اب بطور مثال پيش کی جاتی ہے کہ حکومت جس بات پر کچھ نہ کرنے کے موڈ ميں ہو تو کميشن، ٹربيونل، کميٹی وغيرہ کی تشکيل کا اعلان کر ديتی ہے۔ اگر کچھ پيش رفت ہو تو اس ميں روڑے اٹکاتی ہے۔ کوئی نيک نام يا ديانت دار آدمی عرق ريزی سے رپورٹ مرتب کرکے دے تو وہ محض سرد خانے، الماريوں يا ردی کی نظر ہوجاتی ہے۔ سليم شہزاد شہيد کو سچ بولنے لکھنے پر ہميشہ کے ليے خاموش کردياگيا ہے۔ان کے سفاک قاتل کبھی بھی سامنے نہيں آئيں گے۔ اس حکومت سے يہ توقع کرنا بے کار ہے جو اپنی شہيد قائد کے قاتلوں کا پتہ نہيں لگا سکے وہ ایک صحافی کے کيس ميں کيا پيش رفت دکھائيں گے؟
بدنام زمانہ ایجنسی کا ایک اور صحافی شکار؟
سن اُنیس سو اکتیس میں لینن نے ‘آزادیء صحافت کا اشتراکی نظریہ‘ میں لکھا کہ ‘آزادیء صحافت ایک خالص جمہوری نظام میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ لیکن جب تک چھاپے خانے اور کاغذ کے ذخیرے سرمایہ داروں اور منافع خوروں کے ہاتھ میں ہیں، آزادیء صحافت محض ایک جھوٹ ہے۔ ہمیں صحافت کی کایا پلٹنا ہوگی۔ ہم اسے سنسنی خیزی اور افراتفری پھیلانے والی خبروں کی اشاعت کا ذریعہ نہیں بننے دیں گے‘۔ لینن کی یہ بات آج پاکستان کی پرنٹ و الیکٹرانک صحافت کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ سن سینتالیس سے آج تک حکومتوں کی تبدیلی، آمریت کی راہ ہمواری، فرقہ وارانہ پھیلاؤ، فحاشی، ثقافتی و لسانی جبر و تشدد، ہمسایہ ممالک کے ساتھ دگرگوں تعلقات اور داخلی انتشار کا ایک اجمالی خاکہ ذہن میں لایا جائے تو آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی وجہ یہاں کے ایک مخصوص الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ہے جس نے ملک کی تریسٹھ سالہ تاریخ کو ریاستی بحران کی زِد میں رکھا۔ نامعلوم یا غیر مصدقہ ذرائع کا حوالہ دے کر مخصوص اور من پسند خبر نشر کرنا، بغیر تحقیق و ثبوت اکٹھے کیے خبر تراش لینا، رائے عامہ ہموار کرنے کی بجائے اس میں بگاڑ و انتشار پیدا کرنے والی خبریں بطور “بریکنگ نیوز“ چلانا، واقعات کی رپورٹنگ کرنے اور حقائق کی ترجمانی کرتے وقت سچائی کی بجائے جذبات اور مجموعی عوامی رحجان و موڈ کو مدِ نظر رکھنا، کارٹونی صحافت کے آداب کی دھجیاں اُڑانا اور سیاسی و مذہبی و سماجی شخصیات کا تمسخر اڑانا اور ان کی کردار کشی کرنا، خبر کو ایسے انداز و تکنیک سے نشر یا شائع کرنا کہ جس سے “میڈیا مالکان“ کی اپنی رائے،عوامی رائے نظر آئے، ملک کی سلامتی، قومی یکجہتی و استحکام کو ‘آزادیء صحافت‘ کے ملمع تلے دبا دینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کی صحافت کی نمایاں “خصوصیات“ ہیں۔ جب پاکستان میں ‘زرد صحافت‘ کو صحافت سمجھا جاتا ہے تو پھر سلیم شہزاد کی تحقیقی رپورٹ کو بھی جانچنا، پرکھنا اور تولنا ضروری ہے۔ آزادیء صحافت کا یہ معنی ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اس کے نام پر ملک و عوام کی آزادی کو خطرات لاحق کر دیئے جائیں۔ مُکدی گَل یہ کہ پاکستان کو بھارت کی فوج سے بھی اتنا خطرہ نہیں جتنا کہ یہاں کی صحافت اور اس کے کارکنوں سے ہے۔
مجھے صرف اتنا بتا دیں ـان ایف کینڈی کو کس نے مروایا؟ قاتل کے قاتل کو بھی مروا دیا۔ آج تک سی آئی اے والے امریکی صدر کے قاتل کو نہیں پکڑ سکے۔ وجہ آپ جانتے ہیں۔ آئی ایس آئی کی جان چھوڑ دیں۔
محترم نجيب صاحب لينن کا آزادی صحافت کا فلسفہ اپنی جگہ مگر کيمونسٹ روس کے دور ميں تو آزادی صحافت نام کی کوئی چيز ہی نہ تھی اور روس کے اندرونی حالات کا پتہ صرف خدا کو تھا يا ان کے کيمونسٹ ليڈروں کو۔ رہی بات کہ من پسند خبروں کی بريکنگ نيوز چلانا يا غير مصدقہ ذرائع سے خبر نشر کرنا تو اگر يہ سب کچھ قانون کے دائرے کے اندر رہ کر کريں تو بالکل اسی طرح جائز جس طرح دوکاندار اپنا پرکشش مال شو کيس ميں رکھ کر سجاتے ہيں يا موبائل فون اور کريڈٹ کارڈ کمپنياں بزنس ٹرکس استعمال کرتی ہيں۔ ملک کی بدنامی يا غداری والی صحافت تو يقينا” کسی کو قابل قبول نہيں ہوتی مگر پھر بھی کسی ايک شخص کو پکڑ کر مار دينا کہ خبر اس نے لگوائی اور وہ بھی بغير تحقيق کے بالکل ناانصافی والی بات ہے جو کہ پاکستان ميں بدستور جاری ہے اور اس کا مطلب يہ بھی ہے کہ سول ادارے اور عدالتيں قابل بھروسہ نہيں اور آئی ايس آئی کے اندر چند لوگ فرعون کے رشتہ دار ہيں۔ آپ نے شايد ڈر کے مارے دوسرا تبصرہ لکھا کہ کہيں شامت نہ آجائے۔
پاکستانی حکومتوں کی انکوائرياں اور کميشن ہميشہ سے ايک مذاق ہی رہا ہے۔ يہاں لاٹھی کا قانون ہی چلتا ہے۔ حکومتيں چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی ہوں جھوٹ بولتی ہيں۔ پاکستان کے چند مسائل ميں سے ايک مسئلہ يہ بھی ہے کہ يہاں عوام کے پڑھے لکھے طبقے ميں جديد ٹيکنالوجی کی بدولت شعور بيدار ہو رہا ہے اور وہ ہر معاملے کا موازنہ دنيا کے دوسرے ممالک سے کرتے ہيں۔ وہ اس نتيجے پر پہنچتے ہيں کہ پاکستان ميں ہر ادارہ عوام کو دھوکہ دے رہا ہے۔ يہ بات حکومتوں کو گوارہ نہيں ہے کيونکہ وہ ابھی تک پرانے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہيں جو کہ عوام سے چھپائے نہيں چھپتا۔ اگر يہ عوام سے ہر بات کو چھپانے والی پرانی روٹين کو چھوڑ ديا جاۓ اور عوام کو ہر معاملے تک رسائی بغير کسی رکاوٹ کے دی جائے تو ہر ايک ادارہ سدھر جائے گا کيونکہ ٹرانسپرنسی بذات خود ايک جاری احتسابی عمل ہے۔ پھر تحقيقاتی رپورٹيں بھی سچی ہونگی اور عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ اس سے بہت سے مسائل کا حل خود بخود ہوتا جائے گا۔
جناب ہارون الرشید! آپ صاحب نے کیا دلاسے بھرا بلاگ تحریر فرمایا ہے۔ رحمان ملک صاحب کا یہ قوم اور خصوصاََ صحافی برادری بےحد مشکور ہے کہ انہوں نے سلیم شہزاد کے قتل کی اہمیت کو اتنا تو ضرور جانا کہ قاتلوں کی گرفتاری کیلئے انعام کا اعلان کیا۔ آپ نے بہت خوب کہا کہ صدر و وزیراعظم ہر واقعے کے بعد انکوائری، انکوائری، انکوائری قوالی کی ٹیم کے ہمنوائوں کی طرح گنگناتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ہارون صاحب! آپ شاید بھول رہے ہیں کہ صدر، وزیر اعظم اور ان کی ٹیم بھی اقتدار میں آئی نہیں بلکہ اس قوالی میں شرکت کیلئے ہمنوائوں کی ٹیم کے طور پر شامل کیے گئے ہیں۔
سلیم شہزاد تو ایک بہادر و نڈر صحافی ٹھہرے۔ آپ یقین کریں کہ کئی لوگوں نے تو اس شعبے سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ میں یہ کہوں گا کہ صحافیوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا صرف ان کی تنظیموں کا کام ہی رہ گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے تو جیسے ان کی قتل کی خبریں چلانا بھی گوارہ نہیں سمجھا ہے۔ حال ہی میں ہمارے بہت ہی محنتی اور بہادر صحافی نصراللہ آفریدی شہید ہوئے۔ تو ہمارے نجی ٹیلی ویژن چینلز نے اس موقعہ پر صرف فوری خبر چلائیں لیکن بعد میں اس واقعے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ ڈوب مرنے کا مقام تو ہمارے سیکورٹی اداروں کیلئے تھا ہی کہ عین موقعہ پر بم ڈسپوزل سکواڈ والے اس چیز کا تعین بھی نہیں کرسکے کہ یہ بم دھماکہ تھا۔ وہ یہ کہہ کر جائے وقوعہ سے جانے والے تھے کہ یہ سی این جی سلینڈر پھٹنے کا نتیجہ ہے۔ کہ اس دوران ہمارے پشاور کے سینیئر صحافی ان پر برس پڑے کہ یہ پلانٹڈ بم دھماکہ ہے اور اس کی صحیح معنوں میں تفتیش کی جائے۔ جس کے بعد گاڑی ہٹائی گئی تو پتہ چلا کہ گاڑی کے نیچے ریموٹ کنٹرول بم نصب کیا گیا تھا۔
محترم ہارون صاحب! آخر میں، میں یہی کہوں گا کہ نہ صرف ہمارے حکمرانوں کو مشکل ملک ملا ہے اور وہ انکوائریوں کا حکم دے دے کر تھک گئے ہیں بلکہ ہمارے بی ڈی ایس صاحبان اور دیگر تفتیشی ادارے اگر تھک نہیں گئے ہیں تو شاید ان کو اب یہ مزید گوارہ نہیں کہ وہ جائے وقوعہ پر صحیح تفتیش یا انکوائری کرے۔ اللہ تعالٰی اس ملک کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
ہارون بھائی کون سی انکوائری اور کيسی انکوائری؟ ہم تو ہر وقت يہی سُنتے اور ديکھتے يہاں تک آچُکے ہيں کہ حکُومت کی ياد دہانيوں کو اب خاطِر ميں ہی نہيں لاتے۔ جانتے جو ہيں کہ کُچھ ہونے والا نہيں ہے۔ ہر تکليف دہ بات کو دبا ديا جاتا ہے اور کُچھ اِس طرح سے دبايا جاتا ہے کہ کوئی اور بڑی کارروائی کرکے پِچھلی تکليف کو بُھلانے کی کوشِش کی جاتی ہے۔ ليکِن کيا ايسا مُمکِن ہو سکتا ہے؟ عجيب بکواس اور بھونڈی کوشِش ہے۔ جِن کے ساتھ يہ بيتی ہو وُہ اِس تکليف کو کيسے بُھول سکتے ہيں۔ کاش کہ دِل رکھنے والے اِس درد کو سمجھ سکيں اور جو کُچھ بھی وُہ کرتے ہيں کبھی يہ سوچ کر ديکھيں کہ اگر يہ دُکھ خُود اُن کو مِلتا تو کيا وُہ اِسے يُونہی انکوائريوں کے سپُرد کر کے پُر سکُون ہو جاتے۔
ہم کیوں اب بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ قاتل پکڑے جائیں گے اور اپنے کئیے کی سزا پائیں گے؟ اگر قانون پر ہی عمل ہو جاتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ جو حکومت انہیں ہونے سے نہیں روک سکتی وہ اس کے بعد کیا کرسکتی ہے۔ ہنسی اور آنسو آتے ہیں ایسی باتوں پر۔
ارے جناب جس ملک میں دن دیکھے ایک گورنر کو قتل کر دیا جائے اور قاتل سامنے موجود ہو ۔۔ اقرار بھی کرلے تو کچھ نہیں ہوتا۔۔۔بےنظیر جیسی رہنما کو قتل کر دیا جاتا ہے اور ایف آئی آر تک نہیں ہوتی۔۔۔ سارا کیس ایک مذاق بنا دیا جاتا ہے۔۔ اس ملک میں ایک صحافی کی کیا حیثیت ہے۔۔ تحقیقات کے نام سے ایک تماشہ بھی شروع کر دیا جائے تو کچھ نہیں ہوگا میرے بھائی۔۔۔
جناب اس ملک کو تو کميشنوں کی بھی عادت ہو چکی ہے۔ پہلے کس کمیشن کی رپورٹ يا انکوائری سے کچھ حاصل ہوا ہے؟ حمودالرحمان کميشن تو ياد ہے نا آپ کو
قاتلوں کے نام-
دن ايک ستم ايک ستم رات کرو ھو
وہ دوست ھو دشمن کو بھي تم مات کرو ھو
دامن پہ کوئی چھينٹ نا خنجر پہ داغ
تم قتل کرو ھو کہ کرامات کرو ھو
وقت کا ضیاء