ہر دن عید، ہر رات شب رات
ایک مہینے کی چھٹی کے بعد کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن جب چھٹی پر تھے تو دل کرتا تھا کہ فوراً واپس چلے جائیں اور کام شروع کر دیں۔ وہاں اس بات کا بھی احساس ہوا کہ انسان وطن واپس چھٹی گزارنے جاتے ہوئے کچھ زیادہ ہی تھک جاتا ہے۔
ایک شہر سے دوسرے شہر اور پھر وہاں سے تیسرے شہر کو روانگی۔ گرمی سفر اور بارشوں کو دیکھتے اور محسوس کرتے بس ایک دم سے چھٹیاں ختم ہو گئیں۔
پاکستان میں بھی سکولوں میں چھٹیاں تھیں۔ اس لیئے بچے کزنز کے ساتھ ساری ساری رات جاگتے رہتے اور سارا دن سوتے۔ والدین بھی دن کی گرمی سے بچوں کو بچانے کے لیئے اس پر اعتراض نہ کرتے۔ پر مجھے دیر تک سو کر اٹھنا پسند نہیں۔ اس لیئے اپنے بچوں کو اٹھانے کی کوشش کرتا رہتا مگر وہ اٹھتے اپنی مرضی سے ہی۔
ایک دن میرا بیٹا بلال جب سو کر اٹھا تو جسم میں درد کی شکایت کرنے لگا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یہ دیر تک جاگتے رہنے کی وجہ سے ہے لیکن اس کا جواب تھا:It is because of you; you take me to different places daily.
وہ تھک گیا تھا اور روز کسی نئے کزن یا انجان بچے سے دوستی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یہ بات مہینہ گزر جانے کے بعد اس وقت سمجھ میں آئی جب اس نے کہا کہ آپ مجھے تایا کے گھر چھوڑ کر چلے جایا کریں اور اگر انگلینڈ بھی واپس جانا چاہیں تو چلے جائیں۔ میں آپ سے ملنے آ جایا کروں گا۔
لیکن ہم سب ساتھ ہی واپس آئے اور اپنے گھر آتے ہی ایسا لگا جیسے آرام آ گیا۔ ایک خاص قسم کی خاموش رہنے کی آزادی نے جیسے تھکن اتار لی ہے۔ صرف ایک مہینے نے زندگی کا ’پرسپیکٹو‘ کتنا بدل دیا ہے۔ ہاں ایک اور بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب چھوٹا بیٹا عدن بھی ڈائننگ ٹیبل سے تھوڑا بڑا مطلب اونچا ہو گیا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بہت درست تحرير فرمايا آپ نے کہ انسان وطن ميں چھٹياں گزارنے جاتے ہوئے زيادہ تھک جاتا ہے ۔ اسی لیئے ميں اور اہليہ کراچی سے واپسی پر کم از کم چاردن دبئی رکتے ہوئے آتے ہيں تاکہ آٹھ دس دنوں کی تھکان اتار کر تازہ دم ہوکر گھر پہنچا جائے۔
بس جناب قائداعظم انٹرنيشنل ايئرپورٹ سے ہی گھر والے اور عزيز واقارب دعوت کی تاريخيں مانگنا شروع ہوجاتے ہيں ۔ کہيں پہ ناشتہ تو کہيں پر لنچ تو کہيں ڈنر ۔ صرف يہی نہيں کبھی کبھی تو ايسا بھی ہوا کے بريک فاسٹ جہاز ميں، لنچ لاہور ميں بڑی باجی کے يہاں اور ڈنر منجھلے بھائی کے يہاں کراچی ميں۔اور ميری چھوٹی سی بيٹی کا اپنے کزنز کے ساتھ کھيلنا کودنا اور ميک ڈونلڈز کے حلال چکن نگسٹس کی ضد۔اور سب بچوں کو ليکر جانے کی فرمائشيں اور کئی مرتبہ جانا ۔اور ان سب کوانگليڈ لے کر چلنے کی معصوم خواہش۔ اتنی بھاگ دوڑ اس ميں خاندان کے بڑوں کی قدم بوسی اور دعاؤں کے لیئے ملاقاتيں۔ ابو کی قبر کی زيارت اور امی کی گود ميں سر رکھنے کی کوشش۔ مگر وقت اتنا مختصر کے کچھ بھی اس طرح سے نہيں ہوپاتا جيسا کرنے کی تڑپ ليکر جاتے ہيں۔ بس تشنگی رہ جاتی ہے ۔مگر اتنی محبت اور پيار ملتا ہے کہ اسے سميٹنا مشکل ہوتا ہے ۔ بس يہی تو چاہيۓ ! پھر واپسی ميں وہي ڈرامائی سين سب کا رونا اور نگاہ بھر بھر کر دکھنا اور امام ضامنوں کے بوجھ سے ہاتھ کا بھاری ہواجانا ۔۔اور بوجھل دل و قدموں سے واپسی کا سفر، دبئی رکتے ہوئے۔
بس دعا ہے اسی طرح ہمارا ہر دن عيد اور ہر رات شبِ برات ہو ۔
عارف بھائ کيا آپ کے بچے اردو نہيں بولتے
ویلکم بیک ۔ سب سے پہلے تو خوش آمديد بہت دنوں سے آن لائن پر آپ کا بلاگ بہت مس کر رہی تھی۔ آج جيسے ہی آئی تو آپکا بلاگ ديکھ کر کافی مسرت ہوئی ۔ بے حد دلچسپ۔ جب انسان پرديس ميں ہو تو وطن کی ياد تو ستاتی ہے اس لئے تعطيلات ميں فی الفور اپنے وطن کا رخ کرت ہےا ليکن بچوں کو ايڈجسٹ کرنے میں کافی دن لگ جاتے ہيں۔ کيونکہ وہ تو ٹھہرے ولايتی پيداوار ليکن جب تک بيچارے ايڈجسٹ کرتے ہيں تو چھٹياں ختم اور جب واپس جارہے ہوتے ہيں تو انگريزی اردو اور جيسی زبان بولتے ہوئے جاتے ہيں۔ مگر شميم بھائی يہ اچھا ہے کے بچوں کو اپنے آبائی وطن اور وہاں کا رہن سہن ديکھنا چاہيے تاکہ ان کے ذہن ميں وطن کے تصور دھندلا نا ہو اور جہاں تک اپنے گھر کی بات ہے تو چاہے اپ آفس سے آئيں دوسرے شہر سے آئيں يا ساتھ سمندر پار رہ کر آئيں ليکن جو سکون گھر ميں ہے وہ کہيں نہيں میں کالج سے پڑھ کر آتی ہوں تو گھر آکر ايسے لگتا ہے جيسے پتہ نہيں کتنی دير گھر سے دور رہی ہو اوربلال تو پورا ایک مہینہ گھر سے دور رہا ہے تنگ تو پڑ نا ہی تھا ميری طرف سے بلال اور عدن کو پیار۔
عارف بھائی بہت دنوں کے بعد کوئی ہلکا پھلکا بلاگ پڑھنے کو ملااور شايد يہ کہنے کی ضرورت نہيں کہ بہت مزہ آيا۔ وجہ يہ نہيں کہ پہلے کے بلاگز ميں کوئی کمی رہی ہو گی۔ بلکہ وجہ صرف يہ ہے کے انسان فطری طور پر نارمل روّيوں کا ہی عادی ہوتا ہے نارمل باتيں ہی خود ميں کشش رکھتی ہيں۔ ذہن ہر وقت کے بوجھ سے ہٹ کر عام ہلکی پھلکی باتوں سے ہی محظوظ ہوتا ہے، اور يہی وجہ ہے کہ بچوں کی معصوم بھولی بھالی باتوں اور زندگی کی حقيقتوں سے روشناس کرواتی آپ کی يہ تحرير، زندگی کی خوبصورتيوں کو ساتھ لے کر چلتی يہ تحرير بہت ہی حسين لگی ، کيونکہ يہی سچ ہے ہم اپنے گھر سے دور خواہ اپنے وطن ہی گئے ہوں روٹين سے ہٹ کر دن گزارنے میں مزہ تو بہت آتا ہے، اپنوں سے مل کر پرانی ياديں باتيں تازہ کرنے سے ليکن انسان اپنی روٹين لائف ميں اُسی محور ميں چکراتے ہوئے بوريت محسوس کرتا ہے۔ مگر جب اُسی مدار سے ہٹنا پڑے تو دوبارہ گھوم کر آنا چاہتا ہے، شايد انسان فطرتاْ تبديلی پسند ہے ايک ہی چيز سے اُکتا جاتا ہے ليکن سکون اپنے ہی گھر ميں ملتا ہے۔ اس کا چھوٹا سا مشاہدہ آپ نے بلال بچے کی باتوں سے کر ليا ہو گا کہ بے چارہ بچہ روزانہ کی بدلتی ہو ئی روٹين سے تھک گيا۔ يہ بات صرف گھر تک ہی محدود نہيں اگر آ پ غور کريں تو ہميں اپنی بستر اپنے تکيے بلکہ جس سائيڈ پر آ پ سوتے ہوں اُس کی بھی عادت ہو جاتی ہے اور گھر تو پھر گھر ہے کُٹيا يا کھولی ہی کيوں نا ہو جو سکون اپنے گھر ميں ہے وہ کہيں نہيں۔ ليکن مجھے معصوميت سے پُر بلال کی بات بہت اچھی لگی کے مجھے آپ گھر ہی چھوڑ جايا کريں اور اُ س بے چارے نے تو آپ کو انگلينڈ واپسی کی بھی اجازت دے دی کہ بس مجھے بار بار روزانہ نا چکر ديں اور جو خوشی اُس کو واپس اپنے گھر اپنی پرانی روٹين ميں آ کر ملی ہو گی اُ س کا تو آ پ نے ذکر ہی نہيں کيا۔ ارے ليکن ايک اور تبديلی بھی تو آئی نا زندگی ميں کہ عدن بيٹا تھوڑا اور لمبا ہو گيا جس کا اندازہ آپ کو پاکستان ميں رہتے ہوئے دوڑ بھاگ سے بھر پُور ٹرپ ميں ہوا ہی نہيں اور اب يہ اچانک تبديلی کتنی اچھی لگ رہی ہے نا کہ ڈائننگ ٹيبل چھوٹی ہو گئی عدن سے، واؤ
خوش رہيں۔ خوشياں بانٹنے کے عمل کے حصے دار رہيں۔
ہاے ہاے کيسا زمانہ آيا بيگم کا بتاتے نہيں اور بچوں کی رٹ لگا رکھی ہے۔ لگتاہے سنگل پيرنٹ ہيں۔ لوگ بيگمات کا چرچا کیۓ اپنی خوشگوار ازدواجی گزر بسر پر پھولے نہيں سماتے اوريہاں عالم وہی پرانا ہے اور اوپر سے يہ بھی کہيں گےاپنے ہاں مياں بيوی کے برابر کے حقوق رہے ہيں۔ چلو مال اللہ کا ہے نيک پروان دے شميم جی کے بچوں کو۔
From your Blog it seems that really you do not want to work after one month leave.
شميم بھائی صحيح سلامت واپس آنے پر مبارکباد اور بہت اچھا لگا آپ کا بلاگ۔ ميرا تو مشورہ ہے کے اب آپ چھٹيوں پر پاکستان سے بچوں کو اپنے پاس بلا لينا فار آگڈ چينج۔ ٹاٹا