وہ اس کی آخری شام تھی
’کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تم اتنی جلدی ہم سے بچھڑ جاؤ گی‘۔ یہ پیغام لندن میں ہولبرن سٹیشن کے بالکل سامنے ایک ٹریفک لائٹ کے کھمبے کے نیچے پڑے ہوئے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ پڑا ہوا تھا۔
گلدستے کے ساتھ نوجوان لڑکیوں کا ایک گروپ فوٹو بھی چسپاں تھا۔ یہ پیغام ان میں سے کسی ایک کے بارے میں تھا جو اس مقام پر غالباً کسی حادثے کا شکار ہوئی تھی۔
پیغام کے دوسرے حصے میں افسوس کا اظہار کیا گیا تھا کہ اکثر ملاقات کے باوجود انہوں نے کبھی گپ شپ کا وقت نہیں نکالا اور ایک دوسرے کو زیادہ جان نہیں سکے۔
یہ پیغام پڑھ کر مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا جو بالکل اس سے ملتا جلتا تو نہیں لیکن اس موقع پر اس کا ذکر ہو سکتا ہے۔
اُس روز میں لاہور کی سِول عدالتوں کے بار روم میں بیٹھا ایک اردو اخبار کے رپورٹر کے ساتھ دن بھر اکٹھی ہونے والی خبروں کا تبادلہ کر رہا تھا کہ ریحان بھی وہاں آ گیا۔ ریحان کی چند روز پہلے شادی ہوئی تھی اور اس نے نیا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اس کے پاس کوئی خبر نہیں تھی اور اس نے ہماری مدد چاہی۔
میرے ساتھ بیٹھے ہوئے رپورٹر نے منع کیا کہ اسے کوئی خبر نہیں دینی۔ بہرحال میں نے اسے وہ خبریں بتا دیں جو میں نے خود جمع کی تھیں اور اپنے ساتھی رپورٹر کی خبروں کے بارے میں خاموش رہا۔ ریحان کو میری خبروں کی زیادہ ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کا مقابلہ اردو اخبار سے تھا۔ کسی رپورٹر سے دن کی کوئی خبر رہ جانے کا مطلب کیا ہوتا ہے وہ وہی سمجھ سکتا ہے جس نے کی ہو۔ ریحان خالی ہاتھ پریشانی میں وہاں سے چلا گیا۔ میرے دوست نے کہا کہ کام چور لوگوں کی مدد نہیں ہو سکتی اور ویسے بھی اگر وہ ساری خبریں اسے بتا دیتا تو وہ اپنے دفتر میں کارکردگی کیسے ثابت کرتا۔
میرا خیال تھا کہ ریحان کی نئی نئی شادی ہوئی ہے اگر کچھ روز سُستی کر بھی لے تو کیا ہے، لیکن میرے دوست کی ریحان سے کوئی پرانی رنجش تھی۔ رپورٹنگ میں اس طرح کی باتیں معمول ہیں اور ہم چائے پی کر اپنے اپنے دفتر چلے گئے۔
اگلے دِن سِول کورٹ پہنچ کر پہلی خبر مجھے ریحان کی کی ملی۔ اُس کی عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی۔ شام جب ہم نے اس سے تعاون نہیں کیا اور وہ خالی ہاتھ دفتر جانے کی وجہ سے پریشان تھا وہ اس کی زندگی کی آخری شام تھی۔
مجھے اب بھی کبھی کبھار خیال آتا ہے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ریحان کے پاس کتنا وقت ہے تو اس کی مدد ضرور کرتے۔ اسے خوش خوش دنیا سے رخصت کرتے۔
تبصرےتبصرہ کریں
اسد اپ نے تو اس کی مدد کردی ليکن يہ ہمارے معاشرے کا الميہ ہے کے ہم بغير مطلب کے کسی سے بات نہيں کرتے تو مدد تو دور کی بات ہے کالج ميں ہوں تو نوٹس چھپا کر رکھو رپورٹر ہو تو خبريں اور کسی دوسرے کو آپ سے پہلے نا پتہ چل جائں دولت مند ہوں تو دولت چھپا لو کے کوئی غريب رشتہ دار مانگ نا لے بس يہ ہی آج کل معاشرے کا دستور ہے جب کوئی شخص زندہ ہوتا ہے تو معاشرہ اس کو خوار کرتا ہے رسوا کرنے سے نہيں چوکتا طنزو طعنوں کے نشتر ُچھبوتا ہے نيجا ديکھتا ہے يہاں تک کے وہ شخص اپنی آخری سانسيں گن رہا ہو تب بھی اس کی اخلاقی يا مالی مدد يہيں کی جاتی ہاں جب وہ شخص مر جاءے تو سب کہنے آجاتے ہيں مرحوم بہت اچھا شخص تھا اگر مرنے والا اگربڑا آدمی ہو تو اس کی ياد مہں ايک عدد پروگرام کروا ديا جاتا ہے اور بات ختم آخر اسد ہم اس بات کو کب سمجھيں گے allah کے بناے ہوے ہر بندے کے پاس دل ہے جس طرح ہميں تکليف ہوتی ہے بلکل اسی طرح دوسروں کو بھی تکليف ہوتی ہے allah حقوق العباد ميں کوتاہی برتنے والے کو کھبی معاف نہيں کرے گاکاش ہم لوگوں کو دنيا ميں ہي خوش رکھيںناکہ انکو مرتے وقت خژوش کريںallah ہم سب کو راہ راست پر لاے آمين
اللہ ريحان کو جنت نصيب کرے، آمين۔
صحافت کے شعبے ميں سب سے زيادہ مفاد پرست لوگ رپورٹرز ہيں-يہ رنجش بھی اسی سے بناتے ھيں جن سے انھيں کوئی مطلب نھيں ھوتا ريحان کواگر معلوم ہوتا کہ اس کے پاس وقت کم ھے تو شائد وہ آپ يا آپ کے دوست کي منتيں نہ کرتااور خوش خوش دنیا سے رخصت ھو جاتا-
خدا کسي کو نہ دے يادِ رفتگاں کا جنوں ۔۔
اسد بھائ ، آپ کی دل گداز تحرير نے ميرے دو بہت ہی پيارے دوستوں کی ياد دلا دی ۔۔
ايک کو کراچی کی سڑکيں کھا گئيں اور ايک کو کراچی کا سمندر نگل گيا ۔۔۔۔ ايک ڈاؤ ميڈيکل کے پہلے سال ہي ميں جدا ہوگيااور ايک تعليم مکمل کرنے اور ہاؤس جاب کے شروع ہوتے ہي ہميں چھوڑ گئ ۔۔۔۔ بلال اور فضّہ !
بلال تو ڈی جے کالج سے ہی ميرا دوست تھا ، انتہائ ملنسار اور پيارا ۔ رمضان تھے اور وہ روزے سے تھا ، کرکٹ کا شوقين ميچ کھيل کر دوستوں کے لوٹ رہا تھا کہ ٹريفک کے خوفناک حادثے ميں عين عالمِ نوجوانی ميں سب کو روتا چھوڑ گيا ۔۔۔
فضہ سے ملاقات ڈی ايم سی ميں ہوئ ، زندگی سی بھرپور، سب کی مدد ميں آگے آگے ۔۔ ہاؤس جاب ميں ہم دونوں ساتھ ايک ہی وارڈ ميں تھے ۔ اپنی قريبی دوست ، جوکہ نوجوان صحافی تھی ، کے ساتھ کچھ ڈوبتے بچوں کو بچاتے ہوۓ سمندر کی ہولناک موجوں کی نذر ہوگئ ۔ حکومتِ پاکستان نے اسے اعزاز بھی ديا ۔۔
بس دونوں ساتھی ہم سب سے جدا ہوگۓ ۔۔ان کی يادوں کے چراغ ہميشہ روشن رہيں گے ۔۔ دعا ہے کہ خدا انہيں اپنے جوارِ رحمت ميں جگہ دے ۔۔ تمام چاہنے والوں کو صبرِ جميل دے ، خاص طور سے والدين کو ۔۔۔
سب کہاں ! کچھ لالہ و گل ميں نماياں ہوگئيں
خاک ميں کيا صورتيں ہوں گی ، پنہاں ہوگئيں
دعا گو
سيد رضا
برطانيہ
اسد صاحب آپ کی لکھی ہوئی دونوں ہي( کہانياں نہيں کہوں گي) حقائق دل دکھانے والی ہيں اور زندگی کی ايک انتہائی ظالم حقيقت بھی کہ ہم وقت کے بعد پچھتاتے ہيں اور يہ فريضہ بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہيں، اور بڑے فخر سے اس کا اظہار بھی کرتے ہيں۔ صاحبان چھوٹی سی زندگی ہے۔ کسی بھی وقت اس کا خاتمہ کہيں بھی ہو سکتا ہے۔ کيوں نہ کچھ ايسا کريں کہ ہميں بعد کو پچھتانا نہ پڑے کہ اے کاش ايسا کيا ہوتا۔ بعض اوقات ہم اپنی انا کے ہاتھوں کچھ اس طرح کھلونا بن جاتے ہيں کہ ہميں خود بھی اس کا علم نہيں ہونے پاتا کہ ہم کيا کر رہے ہيں۔ ليکن جب علم ہوتا ہے ہم غلطی پر تھے تو سوائے پچھتانے کے اور کچھ حاصل نہيں ہوتا۔ سو جب جب جو کچھ بھی کريں اپنے اندر کی آواز سنيں اور بس يہی سچ اور يہی حقيقت ہے۔ کيونکہ اندر کی آواز کبھی غلط نہيں ہوتي، اور ويسے بھی کسی کی بھی مدد کسی بھی طرح کے حالات ميں کرنے کے بعد جو خوشی دل کو محسوس ہوتی ہے اُس کا کوئی بدل نہيں ہوتا۔ وہ محسوسات نہ آپ کسی کو بتا سکتے ہيں نہ ہی کسی سے شيئر کر سکتے ہيں کيونکہ ايسے انوکھے جذبات کا نہ کوئی مول ہوتا ہے اور نہ ہی ہم ان کو کوئی نام دے سکتے ہيں سو نيکی کرنے ميں نہ ہی دير کرنی چاہيے اور نہ ہی کسی چھوٹی سی بھی نيکی کو چھوٹا سمجھنا چاہيے کيونکہ نيکی کبھی بھی چھوٹی نہيں ہُوا کرتی اور کسی مشکل ميں کسی کی مدد کرنا تو کافی بڑی بات ہے۔ راستے سے ہٹايا گيا پتھر بھی ايک ايسی نيکی ہے جو اس نيّت سے اگر کی گئی ہو کہ کسی کو ٹھوکر لگنے سے بچائے گی۔ مسکراہٹ کے پھول بھی نيکی ہی ہيں ليکن پليز مسکراہٹ والی نيکی ذرا سوچ سمجھ کر کيجيے گا، کہيں لينے کے دينے نا پڑ جائيں۔ دعائيں سب کی خوشيوں کے لیے
چوہدري صاحب ہمارےہاں کی وادی صحافت بھي عجيب ہے۔ برنا جی اور ديگروں کی کوششيں بھی پيشہ ورانہ آداب لاگونہيں کرپائيں۔ خبر کے متلاشی طرح طرح سے کرتب دکھاتے پھرتے ہيں۔ ہر ايک کے ہاں درون دل مافيا جيسی دنيا بسی رہتی ہے ۔ کسی نےفلاں کے قد کو بس ذرا ترشنا ہوتاہے تو کسی کوکسی کے ساے بڑھانامقصود ہوتے ہيں۔ آخر پيٹ کا دوزخ جو بھرنا ہوا۔ ميں نے کئی رپورٹروں کے ساتھ الميات ہوتے ديکھا ہے۔ ہمارے ساتھي زبير مير فوٹوگرافر انتہائي اچھي صحت اور جواني کے عالم ميں ايک صبح کاپي پريس جانے کے وقت گاڑي کي اسٹرينگ پر سر رکھےاچانک چل بسے تھے۔ کسي کويقين نہيں آيا۔ بہت سوں کو خبر بھي تدفين کے بعد ہوئي جو بے اختيار ’ہم تجھے آخری کندھا بھی نہ دينے پا‘ ہي کہتے رہ گۓ تھے۔ ان سے پہلے ايک نوجوان بيوروچيف کو کريمنلرز نے تيزاب پھينک کر مار ديا تھا۔ تب پشاورڈيڑھ ملين تک افغان مہاجروں کی آماجگاہ اور گزرگاہ ہوا کرتا تھا جس وجوہ يہاں مجرمان اورخبروں کی بہتات رہتی تھي۔ ہاں افسوس تو ہوتاہے مگر جس رپورٹرکو ضابطہ اخلاق اور قانون کا پاس ہو، رزق حلال کی قدر کرتا ہے اور سرکار کے فرائض کی انجام دہی ميں حائل نہيں ہوتا، وہ ہميشہ کامياب رہتا ہے۔_
محترم!
لوگ ملتے ہيں تو يوں لگتا ہے کہ عمر بھر کے ساتھی ہوں مگر اگلے لمحے کی اگلے پل کی بھي خبر کسی کو نہيں ہوتی ، بس جو ہو سکے تو انہيں گھڑيوں کو جو ہمارے ساتھ ہيں جو ہمارے بس ميں ہيں، ان گھڑيوں کو ان لمحات کو غنيمت جانتے ہوئے، سرمايہ مانتے ہوئے ان ميں چھُپی چھوٹی چھوٹی مسرتوں کو کشيد کرتے رہنا چاہيے کہ اسی کا نام ہی خوشی ہے کہ کل کيا ہو گا کسی نہيں ديکھا بس آج ہی غنيمت ہے۔
يہ دنيا ہے يہاں ہر پل ہر لمحے کی گود ميں ھزاروں لاکھوں حادثات پلتے ہيں، واقعات رونما ہوتے ہيں مگر چونکہ انکا تعلق ہم سے نہيں ہوتا اسليے ہميں خبر تک نہيں ہوتی کہ ہم اپنے اپنے بلبلے، ميں بند دنيا کے سفر ميں شريک رہتے ہيں اور ’بلبلے‘ کا مخصوص ماحول ہی ہماری دنيا ہوتی ہے مگر حادثات تو رونما ہوتے رہتے ہيں اور ہم اس وقت حيران و پريشان رہ جاتے ہيں جب کوئی واقعہ کوئی حادثہ خود ہماری زندگياں تہہ و بالا کرديتا ہے تب ہم سوچتے ہيں کاش يوں نا ہوا ہوتا اور کفِ افسوس ملتے ہيں۔ وقت تو متواتر آگے ہی آگے دبے پاؤں کھسکتا چلا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ دور کہيں آگے بہت ہی آگے چلے جانے والے بيش قيمت اثاثے پھر کبھی لوٹ کر دوبارہ ہماری زندگی ميں واپس نہيں آتے-
کچھ ايسی صورتحال کے لئے مير انيس نے کہا تھا۔۔۔۔
يہ دنيا عجب سرائے فانی ديکھی
ہر شے يہاں پہ آنی جانی ديکھی
جو آ کے نہ جا ئے وہ بڑھاپا ديکھا
جو جا کے نا آئے وہ جوانی ديکھی
اور اب توگزرتے سالوں کی رفتار بھی معمول سے کچھ زيادہ تيز ثابت ہو رہي ہے اسليے اب زياں کا احساس بھی ہوتا ہے۔ بہرحال آپکے جاننے والے ريحان نامی صاحب کو اللہ تعالی جوارِ رحمت ميں جگہ عطا فرمائے اور آپکو سکونِ قلب نصيب کرے جو ہوا اسميں آپکا کوئي دوش نہيں اسليے پريشان مت ہوں ، ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔
خير انديش
Once a person came to my friends office and asked for job. He said that his family has not eaten for last 2 days. My friend told him that at the moment there is no vacancy in his office therefore he should come after few days. That person insisted for job immediately which was refused by my friend. While going out of office, that person fell on the ground and died. Till today my friend repents that he should have helped him. Therfore, our effort should be to help people if possible.
اب کيا کر سکتے ھيں جو الللہ کو منظور ليکن افسوس ہوتا ہے ايسی اچانک اور جوان موت پر، اس اچانک مرنے پر سب سے بڑا نقصان صرف ماں باپ اور بيوی بچوں کا ہی ھوتا ہے خير اسد بھاءی آپ نےن ريحان کی ويسی مدد تو نہيں کی جيسی کرنی چاہيے تھی آئندہ خيال رکھۓ گا سارے دوستوں کا، کل ہو نا ہو!
We often think if we do this, this will not happen or if we do that then the result will be this, but we forget that there is nothing in our hand. We are just playing our role in this world and everything is wriiten in Loh-e-Mahfooz before the creation of world. We forget God who have everthing in HIS hand. I often desire that there should also be UNDO Command in our life like in Computer, and we undo bad happenings, but It Couldn't Be.....................
محترمی اسد بھائی
زندگی ميں اگر کسی جگہ کچھ کمی رہ جائے تو اس کو زندگی بھر فرا مو ش کر نا مشکل ہو جا تا ہے - مگر ميں سمجھتا ہوں کہ يہ بھی آپ کا بڑا پن ہے کہ آپ نے اپنے دل ميں محسوس تو کيا - ورنہ اس دور ميں ہر شخص دوڑ ميں لگا ہوا ہے - ويسے ميں خود ايک صحا فی ہوں ، مگر صح فی برادری کے لوگ ايک دوسرے سے اس قدر جيلس کيوں ہوتے ہيں ، حا لا نکہ ہم اہل قلم ہيں ہما را دل تو بڑا ہو نا چا ہيے مگر ہم لوگ کسی کو برداشت نہيں کرتے صرف اپنا مفاد ديکھتے ہيں -
اسےگنوا کے پھراس کو پانے کا شوق دل ميں تو يوں ہے محسن
کہ جيسے پانی پہ دا يرہ سا کويء بناےء تو کچھ نہ پاےء
صحافی کا دشمن صحافي پہلی بار سنا تو افسوس ہوا۔
چوہدری صاحب بات چل نکلی ہے چلنے ديجئے کہ کہاں تک پہنچتی ہے۔ لکھنے والوں نے تو صحافی کا دشمن صحافی لکھ ديا مگر ميرے نزديک جس طرح وکيل کلائنٹ کا کيس لے کر اس کو راز ميں رکھنے کا پابند ہوتا ہے اور ڈاکٹر مريض کی ہسٹری صيغہ راز ميں رکھتا ہے، اسی طرح صحافی بھی خبر کے سورس کا نہيں بتاتے۔ پھر يہ کہ ضابطہ اخلاق کا بھی تقاضہ ہوتا ہے کہ خبر کي اشاعت سے پہلے کسی ساتھی يا دوسرے ادارے کوايسی خبر نہ دے کہ اس کے جملہ حقوق صحافي کے اپنے اخبار تک محدود ہوتے ہيں۔ اس وجہ سے آپ کے ضمير کو مطمئن ہونا چاہيے کہ ريحان کا واقعہ آپ سے متعلق نہيں ہوسکتا۔ ہاں يہ اور بات ہے کہ آپ تحقيق کريں کہ ايسا کيوں ہوا؟ کيا ريحان کے لئے علاج معالجہ ناپيد تھا؟ مسائل کا شکار تھا؟ مافيا جال ميں پھنس گيا تھا؟ اور سب سے بڑھ کر يہ کہ اپنے اخبار کا باقاعدہ تنخوہ دار تھا؟ کچھ دوست اپنی آسانی واسطے غير متعلقہ افراد کو نوکری کا جھانسہ دے کر مدتوں استعمال کرتے رہتے ہيں۔ يہ غلامی کی نئی مہذب شکل ہے۔ يہاں بہت سے ايسے بھی ديکھے جاتے ہيں جو مخصوص مفادات کو آگے بڑھانے واسطے اس فيلڈ ميں چلے آتے ہيں۔ ميں نے لاکھوں کی سرکوليشن والے روزناموں کے ارباب اختيار کو علاقائی دفاتر کيلئے اسٹاف بھرتی کرتے ديکھا اور سنا ہے۔