’کیریئر ومن سے بچ کر رہیں‘
فوربز میگیزین میں مائکل نویئر نامی صحافی نے ایک حالیہ آرٹیکل میں مردوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی نوعیت کی خاتوں سے شادی کرلیں، بس یہ خیال کریں کہ وہ کیرئیر والی خاتون نہ ہو۔‘
اس کی اشاعت پر میڈیا میںلیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر مرد اس رائے سے متفق ہونگے کیونکہ جب جوڑے کے دونوں فرد ملازمت کریں تو پھر دونوں کو گھریلو زندگی قائم رکھنے کے لیئے مل جُل کر کام کرنا پڑے گا۔
گھر بار قائم رکھنا آسان کام نہیں بلکہ فُل ٹائم ملازمت ہے۔ روایتی نظام یہ رہا کہ مرد گھر سے باہر نکل کر روزگار کمائے اور عورت گھر میں رہ کر گھر کے تمام کام کرے اور بچے پالے۔ لیکن اب کچھ مالی وجوہات کی وجہ سے یہ بدلتا جا رہا ہے اور یہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ جوڑے کے دونوں فرد ملازمت کریں اور دونوں گھر چلانے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔
لیکن یہ صرف تب ممکن ہو سکتا ہے جب مردوں کے رویے کے علاوہ ملازمت کے ماحول میں بھی تبدیلی آئے۔ جب تک مردوں کو یہ احساس ہو کہ گھر اور بچے صرف ایک فرد (یعنی بیوی) کی ذمہ داری نہیں اور جب تک ملازمت دینے والوں یا پروفیشنل تنظیموں کے ضوابط میں کوئی لچک آئے۔
بہت سی خواتین اپنی تعلیم مکمل کر کے ملازمت شروع کرتی ہیں، لیکن پھر شادی اور بچوں کا مرحلہ آتا ہے تو اس کیرئیر میں وقفہ آتا ہے۔ جب بچے کچھ بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے لیئے واپس کام شروع کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے چاہے وہ اپنی ملازمت میں کتنی قابل ہوں۔
یہ صورتحال مغربی ممالک میں بدل رہی ہے لیکن یہ خود بخود نہیں بدل رہی بلکہ اسے قانونی تقاضوں کے ذریعے بدلا جا رہا ہے۔ کئی ممالک میں مرد اور خواتین دونوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ دیگر وجوہات کی بنا پر دفتر کی بجائے گھر سے کام کرسکیں یا ان کے اوقات ملازمت میں کچھ لچک دکھائی جائے۔ یہ خاص ان افراد کے لیئے ہے جن کے بچے چھوٹے ہوں۔ اسی طرح بچے کی پیدائش کے بعد نہ صرف ماں کو بلکہ باپ کو بھی کئی ماہ کی چھٹی لینے کا حق ہے۔
اس طرح کے قوانین سے نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کو بھی فائدہ ہے کیونکہ یہ ’فلیکسیبلٹی‘ آپ کی خاندانی ذمہ داریوں کا اعتراف کرتی ہے۔ فرض کریں آپ کے بوڑھے والدین کو آپ کی موجودگی کی ضرورت ہو یا آپ کے گھر میں کوئی بیمار ہو۔ اگر کام میں یہ لچک ہو تو آپ اپنا کام تو گھر سے جاری رکھ سکتے ہیں۔ آخر ٹیکنولاجی نے اتنی ترقی کر لی ہے تو ہمیں اس سے کچھ فائدہ بھی تو آئے! انٹرنیٹ، فیکس وغیرہ سے رابطے بہت آسان ہو چکے ہیں، ہر شخص کی دفتر میں حاضری اور باس کو سلام کرنے کی ضرورت تو نہیں۔۔۔
‘ قائم کرنے کا موضوع بہت اہم ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ بچوں کو زندگی کے پہلے کم از کم تین سال میں والدین کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور وہ وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ آج کل کی خواتین کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر شادی کا ارادہ ہے تو کیرئیر پلان اس کے لحاظ سے بنانا ضروری ہے۔ اور یہ سب ممکن بنانے کے لیئے ہماری اپنی کوشش اور جد وجہد ضروری ہے۔ معزرت کی بجائے ہمیں مطالبات کرنے چاہیں ورنہ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
ایک مثال: بارہ سال پہلے کراچی کے ایک بین الاقوامی بینک میں کام کرنے والی انتہائی قابل خواتین سے بینک کے ایک اعلی غیر ملکی اہلکار نے آکر بات کی۔ بینک بہت خوش تھا کہ خواتین بھی افسروں میں شامل ہیں اور بینک کے لیئے اتنا اچھا کام کر رہی ہیں۔ افسر نے ان کے کام کو سراحا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے کیا مسائل ہیں، کیا آپ کو بینک سے کچھ چاہیے؟ ساری خواتین شادی شدہ تھیں، سب کے بچے تھے یا ہونے والے تھے اور سب کے لیئے لیکن کسی نے پلٹ کر کوئی مطالبہ نہیں کیا نہ کہا کہ ہم اتنے گھنٹے گھر سے کام کریں گے اور بینک کا اس سے فائدہ ہو گا۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ عنبر خيری صاحبہ، بہت حقيقت پسندانہ باتيں تحرير کی ہيں آپ نے ۔۔۔
ميری اہليہ تو کيرئير والی ہيں اور انتہائی مصروف پروفيشن سے وابستہ ہيں، شعبۂ وکالت ۔۔۔ لندن کی ايک مشہور لا فرم ميں بحثيتِ فرم پارٹنر کام کرتی ہيں۔ اور ہماری ايک چھوٹی سی بيٹی بھی ہے اور ميں خود ايک ڈاکٹر ہوں۔ آپ سمجھ سکتی ہيں کہ دونوں ہی پروفيشنلز ۔۔ کس قدر مصروف زندگی ہوگی ۔۔ مگر ميری اہليہ بہت ہی کاميابی سے دفتر اور گھر سنبھالتي ہيں۔ يہ ضرور ہے کہ جتنا ممکن ہوسکتا ہے ميں ان کی مدد کرتا ہوں مگر وہ انتہائی خوش اسلوبی سے سب کام نمٹاتي ہيں ايک ذمہ دار ماں اور ايک خيال رکھنی والی بيوی کی حيثيت سے۔ ۔۔۔۔ يہ ضرور ہے کہ دشوارياں ہوتی ہيں مگر ايسی بھی نہیں کہ ان سے عہدہ برا نہ ہوا جاسکے ۔۔بس لگن ہو، ہمت ہو اور ايک دوسرے کا بھرپور ساتھ ہو تو ہر کام آسان ہوجاتا ہے ۔۔
بس ہميں اپنی دعاؤں ميں ياد رکھيۓ گا۔
مجھے تو کچھ سمجھ نہيں آئی اس بلاگ کی۔ جب مياں بيوی دونوں کو ملازمت کرنی پڑتی ہے گھر کے حالات کی وجہ سے تو پھر شادی ہی کيوں کرتے ہيں اور جو فيشن مغرب چھوڑ رہا ہوتا ہے اس پر ہم لوگ چلنا شروع کر ديتے ہيں۔ ،کيرئر جس طرح لڑکے بناتے ہيں اسی طرح لڑکيوں کو بھی کيرئر بنانے دينا چاہیے۔ شادی سے پہلے ہی اگر شوق ہو تو يہاں تو ميٹرک، انٹر کے بعد سے ہی گھر والے مسٹر رائٹ کی تلاش شروع کر ديتے ہيں۔ خير مرنے سے پہلے ہر شوق پورا کرنا چاہیے۔
عنبر جی بلاگ تو آپ نے اور بھی بہت سے لکھے ليکن اس بلاگ کی خاص بات يہ ہے کہ آپ نے روايتی انداز کا بلاگ لکھنے کی ٹھان لی ہے اب شايد۔ پچھلا بلاگ نہاری پر لکھ کر پرانی روايات کو زندہ کر ديا ليکن اس دفعہ کے بلاگ نے ميرے اندر کي سوئی ہوئی عورت کو پھر سے جگا ديا۔ ليکن يہ جو باتيں آپ نے لکھی ہيں پليز ميری پياری بہنا يہ ضرور بتانا کہ ان ميں سے کونسی باتيں ہمارے ملک ميں ہوتی ہيں يا ہمارے ملک کی خواتين کے لیے ہوتی ہيں؟ ہم تو ابھی تک اس بات سے آگے ہی نہيں نکل سکے کہ اسمبلی ميں خواتين کتنی نشستوں کی حقدار ہيں؟ ہيں بھی يا نہيں؟ بسوں ميں مردانہ ڈبے ميں سيٹيں زيادہ کيوں ہيں اور مرد عورتوں والی سائيڈ سے کيوں داخل ہوتے ہيں؟ گھر سے باہر جانے والی عورتوں کو کيسے ہراساں کرنا ہے خواہ وہ کام کے لیے نکليں يا سکول، کالج، يونيورسٹی جانے کے لیے نکليں۔۔۔ باقی کی باتيں تو بہت دور کی ہيں کہ کيا سہولتيں ملنی چاہيئں يا کيا نہيں۔ رہی بات يہ کہ اصل ميں عورت کا کيا مقام ہے وہ ہم سب جانتے ہيں۔ حالات کے تحت يا مجبوری سے نکلنے پر اگر سہولتيں مليں تو کيا برا ہے؟ ليکن جس معاشرے کے ہم باسی ہيں وہاں کے عمومی اور خصوصی رويے کچھ اس قدر دل برداشتہ کر دينے والے ہيں کہ ہماری عورت کہيں بھی خود کو محفوظ نہيں سمجھتی۔ آپ نے اگر مختاراں مائی کا لکھا ہوا بلاگ پڑھا ہے تو آپ نے قبر ميں سے نکال کر مردہ عورت کی بے حرمتی کا قصہ بھی ضرور پڑھا ہوگا۔ پھر بتائيں جہاں کی عورت کو مر کر بھی حُرمت نصيب نہيں وہ اور کيا کرے گي؟ کہاں کی عورت؟ کہاں کی سہولتيں اور کون بولے گا؟ کون سامنے آئے گا ان حالات ميں؟ ہاں اگر ہمارے ملک ميں بھی قانونی طريقوں سے تبديلی کا عمل لايا جائے تو کچھ اُميد بھی کی جا سکتی ہے ورنہ آپ نے جو ايک مثال دی ہے وہ ايک سے لے کر ہزار تک سبھی جگہ ايک ہی جيسی صورت حال سے پُر ہے۔ ماں کو ہی ميٹرنٹی ليو مل جائے آپ باپ کی بات کر رہی ہيں۔ ہاں يہ سب ہو جائے تو کون نہيں چاہے گا ان باتوں کو خوش آمديد کہنا؟ ليکن بارش کا پہلا قطرہ بن کر کون حکومت کے سامنے جائے گا اور کون ان سب باتوں پر صاد کرے گا؟ سننے ميں کہنے ميں اور پڑھنے ميں تو يہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا ہے ليکن پہلے کون، پہلے کون، اس سب ميں کہيں گاڑی ہی نہ نکل جائے۔۔۔ يہ بات ضرور غور طلب ہے
دلی دعائيں آپ کی نيک تمناؤں کے نام
دعا گو
عنبر یہ واقعی ایک اہم مسئلہ ہے جو آج کے دور کو اور باالخصوص مشرقی معاشرہ کو درپیش ہے۔ جیسا کہ آپ نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ گھر بار سنبھالنا بھی ایک کل وقتی کام ہے۔ میرے خیال میں معاشی مجبوریوں کی بات کچھ نامناسب سی ہے کیونکہ اگر ہم آج کے حالات کا موازنہ قریباً پچاس برس قبل کے حالات سے کریں تو اوسطاً ایک عام آدمی آج اس دور کے لحاظ سے کافی زیادہ خوشحال ہے۔ مسئلہ میرے خیال میں توازن کا ہے۔ نہ جانے کیسے مگر کسی طرح سے ماں بننا اور گھر گرہستی سے وابستہ تمام تر افعال کو ایک نیچ کام کے طور پر بیان کرنا شروع کر دیا گیا۔ کسی بھی معاشرہ کی اساس اس کا خاندانی نظام ہوتا ہے۔ محلہ، گاؤں، شہر، ملک سب کی بنیادی اکائی گھر ہی تو ہوتا ہے اور فرد کی تربیت کی پہلی اور سب سے مؤثر درسگاہ بھی۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس خوبصورت یونٹ کی تشکیل کرنا ہی بے مقصد و بے فائدہ قرار دے دیا گیا۔ آج کے دور میں کیریئر کی بات بہت سنائی دیتی ہے۔ کیریئر کی تعریف نہ جانے یہ کیوں سمجھ لی گئی کہ باہر نکل کر پیسہ کمانا ہی کیرئیر ہے۔ کیا اس دنیا اور معاشرہ کو ایک مہذب، بااخلاق، پراعتماد اور تعلیم یافتہ نسل دینا کیریئر نہیں؟ اگر اس دنیا میں تمام ماں باپ اپنے مادری و پدری فرائض کما حقہ سرانجام دے دیں تو میرے خیال میں اس دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کا اس سے اچھا نسخہ ہو ہی نہیں سکتا۔ افسوس کہ آج کا دور ’کاسمیٹک سرجری‘ کا ہے جس میں مسائل کی جڑ کو حل کرنے کی بجائے ڈنگ ٹپاؤ کام چلایا جاتا ہے۔ جہاں تک زن و مرد کی برابری کا سوال ہے تو ابھی تک میرے علم میں تو یہ چڑیا نہیں آئی۔ ملازمت پیشہ خواتین اپنے ’کیریئر‘ کے لئے سب سے پہلی قربانی تو اپنی مامتا کی دیتی ہیں۔ آج بھی امریکہ میں خواتین سے انٹرویو کے وقت ان کے ’فیملی پلان‘ کے بارے میں جانا جاتا ہے۔ مقصد صرف یہ جاننا ہوتا ہے کہ اگر خاتون کا بچہ پیدا کرنے کا ارادہ ہے تو کوئی اور امیدوار چنُ لیا جائے۔ باقی رہی جہاں تک بات مل جل کر گرہستی چلانے کی تو وہ انگریزی کا ہی ایک محاورہ ہے ناں کہ بہت سے باورچی مل کر کھانا خراب ہی کرتے ہیں۔ تو گھر سنبھالنا تو کھانا پکانے سے بہت زیادہ اہم اور مقدس کام ہے۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ ’کیریئر وومن‘ کا نظریہ ’ماں‘ کے رشتہ کو کمزور کرنے کے لئے استعماری مردوں کی چال ہے۔ گھر کے روایتی تصور میں تو اسے ایک کفیل کی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن اگر کسی طرح سے عورت کو بھی وہ اس ذمہ داری کا مکلف بنا دے تو یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اسی لئے پہلے ’کیریئر‘ وومن کا ڈرامہ کھڑا کیا اور اب اگلا وار ہو رہا ہے ’شادی‘ پر۔ انجامِ کار یہ کہ مرد آزاد کہ جس سے مرضی جتنی دیر مرضی تعلق رکھا اور جب جی بھر گیا تو ہاتھ جھاڑ کر آگے چل دیے۔ رہ گئی عورت تو وہ ’خودمختار‘ ہے، خود بھی کمائے اور اپنے بچوں کو بھی کما کر کھلائے۔ اس سب الٹ پھیر میں انسان اور انسانیت کہاں جائے گی خدا معلوم۔
عنبر جی ورک لاہف والی سائيٹ بڑی بھر پور نکلی۔ شکريہ۔ ويسے مسئلے بلکہ مسائل کی نشاندہی خوب کری اپ نے۔ جو اپنے لوگ ويسٹ ميں ہيں انکو ان مسائل کی سمجھ ہوسکتی ہے مگر بيک ہوم صورتحال يکدم 18 سنچری والی ہے۔ سياستدان ہيومن رائٹس کی بات کرتے ہيں مگر انفورسمنٹ کا کوئی طريقہ نہيں بنا پاتے کيونکہ انسانی حقوق کا نفاذ سارے ہی علوم کے حوالے سے ہوتا ہے۔ ہيومن سائکالوجی، سوشيالوجی پر کيپٹا انکم، ميڈيکل سائنس، ليبر مارکيٹ سب کے حوالے سے پريگنينسی اسٹڈی ہوگی تو قانون بنےگا جو مغربی مالک کی طرح 35 ہفتے پريگنینسی ليؤ اور باپ کو بے بی سٹنگ ليؤ جيسی سہوليات دے سکےگا۔ وہاں عورت برابری کی کب مستحق ٹھہرتی؟ بس مياں کي ہاؤس ہؤلڈ ہونے پر قناعت کرتی ہے۔ انگريزی دور کے جو قوانين لاگو تھے انکو لاًرڈ ميکالے کا غير اسلامی ورثہ کہہ کر جديد تقاضوں سے مطابق بنانے کی بجائے تاريخ کی گہراہيوں ميں دفن کر ديا گيا۔ سو مرد ڈومينيشن گہری ہوئی جس کی خبر داڑھی مونچھ کی بہتات کے ساتھ کلاشنکوف کلچر کی ترقی واجرا ہوا۔ اب اگر انسانی حقوق کا ذکر بھی کريں تو چاروں سمت مساجد کے لاؤڈ اسپئکرز آپ کے بيڈ روم ميں’سب کچھ ديتا ہے اسلام‘ چلانے لگے۔ آپ کی کاوش پاکستانيوں کی ابلاغ عامہ واسطے قابل تقليد وتحسين ہے۔
آپ کی اس تجويز سے 100 فيصد اتفاق کيا جا سکتا ہے۔ ميری منگيتر بينک ميں کام کرتی ہے ۔ صبح کو جاتی ہے اور شام کو گھر آتی ہے۔ ہماری شادی قريب ہے اور ہم فکر ميں مبتلا ہيں کہ شادی کے بعد يا بچے کی پيدايش کے بعد کيا ہوگا، گھر کو اور خاص طور پر بچے کو ٹائم کيسے ديں گے۔ ان کا جاب چھوڑنا بھی مشکل ہے کيونکہ آج کل اچھی جاب ملتی کہاں ہے اور اس کمر توڑ مہنگائی ميں ايک آدمی کی آمدنی سے گھر چلانا اور بچت کرنا نا ممکن ہے۔
کاش ايسا ممکن ہو کہ شادی شدہ عورتوں کو ورکنگ آورز ميں رعايت دی جائے۔ دن ميں ان سے زيادہ سے زيادہ پانچ گھنٹے کام ليا جائے۔
موضوع بھی اہم ہے اور ورک لائف بيلينس کا مشورہ بھی۔ کسی معقول آدمی کو اس سے اختلاف نہيں ہوگا۔ حضرت خديحہ ورکنگ ويمن بھی تھيں اور انہوں نے ورک لائف بيلنس بھی برقرار رکھا۔ مسلم سکالرز اگر ان کی زندگی کا بحيثيت ورکنگ ويمن جائزہ ليں تو يہ مسئلہ بند طالبان نما ذہنوں کے خشک حلقوں سے نيچے اتر سکے گا۔