پھس گئی جان شِِکنجے اندر۔۔۔
پاکستان کا نقشہ دیکھ کر قیدی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یورپ والوں کو آزادی سے ایک دوسرے کے ملک میں آتا جاتا دیکھ کر یہ احساس اور بھی شدید ہو جاتا ہے۔
یہ وہی ہے جس نے ایک صدی میں دو بڑی جنگیں دیکھی ہیں اور ایک دوسرے کے لاکھوں لوگ ہلاک کیئے ہیں ۔ اب وہاں پتہ بھی نہیں چلتا کہ آپ کب بلجیم سےہالینڈ اور ہالینڈ سے فرانس اور فرانس سے جرمنی داخل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے خطے میں ایسا کب ہوگا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
پاکستان کے مشرق میں بھارت ہے جہاں جانے کے لیئے اتنی شرائط ہیں کہ اوّل تو ہر کوئی ان کو پورا نہیں کر سکتا اور اگر کر بھی سکتا ہو تو اِس عمل سے گزرنے کا وقت اور سٹیمنا نہیں۔ یہی صورتحال بھارت سے پاکستان آنے والوں کے لیئے ہے۔ بھارت میں تاریخی عمارات، پرانی تہذیبوں کے آثار، گھنے جنگل، وسیع صحرا، ہمالیہ کی چوٹیاں تو ہیں ہی اس کے علاوہ مختلف بولیاں بولتے رنگ رنگ کے لوگ اور ایسے قبائل ہیں جنہیں جدیدیت چھُو کر نہیں گزری۔
پاکستان کے مغرب میں افغانستان ہے جہاں حالات کسی سخت جان مہم جو کے لیئے ہی موزوں دکھائی دیتے ہیں۔ ایران جانے میں بھی سفری مشکلات درپیش ہیں۔ شمال میں ہمالیہ اور جنوب میں سمندر۔
ہوائی جہاز سے پاک بھارت سرحد پر لگی باڑ اور اس پر لگی روشنیاں دیکھ کر تو سنٹرل جیل کا منظر یاد آ جاتا ہے۔ اگر افغانستان کے ساتھ ’طالبان‘ کے سرحد پار آنے جانے کے معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو معلوم نہیں وہاں بھی بات آہنی باڑ تک نہ پہنچ جائے۔
ہوائی جہاز کے ذریعے کہیں دور جانے کا سوچیں تو عالمی حالات کی وجہ سے پھر وہی ویزے کے مسائل۔ اس کے علاوہ ہوائی سفر اتنا مہنگا کہ معاشرے کا محدود طبقہ ہی اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
چلتے چلتے آپ کو چولستان میں جانوروں کے ایک ریوڑ کے مالک کی بات بتاتا چلوں۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ جانور خشک سالی کےدوران پانی کی تلاش میں صحرا میں چلتے چلتے بھارت بھی چلے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب ایسا نہیں ہوتا۔ ’ کئی بار جب انہیں خشک سالی کے دوران سرحد پر لگی باڑ کے پار سے پانی کی مہک آتی ہے تو وہ باڑ سے سر ٹکرا ٹکرا کر مر جاتے ہیں‘۔ یقیناً سرحد بھی جانوروں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ اب جانوروں کو تو سمجھایا نہیں جا سکتا انسانوں کو ہی ہوش کے ناخن لینے پڑیں گے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب اسد چودھری صاحب ، آداب
آپ نے درست کہا کہ يورپ والے آرام سے ايک دوسرے کے ملکوں ميں آتے جاتے رہتے ہيں ۔ ميں خود برطانوی شہری ہونے کے ناطے کتنے ہی ممالک بغير ويزے کے گھوم پھر آيا مگر کتنا عجب ہے کہ جب ميں پاکستان جاتا ہوں تو مجھے اپني جائے پيدائش کا ويزہ درکار ہوتا ہے اور رستے ميں دبئی بناء ويزے ہی کے گھوم پھر آتے ہيں ۔۔۔
کاش کے کہيں بھی آنے جانے کے لیۓ ويزے کی پابندياں نہ ہوتيں اور دنيا کی کوئی سرحد نہ ہوتی ۔۔ سب لوگ ملتے جلتے ، ہنستے بولتے اور بس ۔۔ ارے ميں بھی کس تصوراتی دنيا کی بات لے کر بيٹھ گيا ، چليں چھوڑيں اس بات کو ہم صرف يہ دعا کرتے ہيں کہ ملکوں کی سرحديں لوگوں کو نہ بانٹيں اور وہ سب سرحدوں کے ہوتے ہوئے بھی مل جل کر رہيں اور ايک دوسرے کا خيال رکھيں اور دنيا لوگوں کی بنياد پر تقسيم نہ ہو بلکہ صرف جغرافيائی طور پر ہو ۔۔۔
خوشيوں کی رت پر بھی ان کے پہرے ہيں
بے موسم کے پھول کھليں تو کھلنے دو
نيک تمناؤں کے ساتھ
سيد رضا
برطانيہ
اسدصاحب کيا کريں کچھ ملکوں کے حدود اربعہ ميں ہی کوئی پرابلم ہوتی ہے جو ايسے مسائل اُٹھ کھڑے ہوا کرتے ہيں پھرجيسا کے آپ کو علم ہوگا ہم نے آزادی بہت مشکلوں سے حاصل کی تھی تواُس کی حفاظت بھی کرنا ہمارا فرض رہا نا ،اور ديکھيں کے ہم اپنے ملک اور اُس کی حفاظت کا کو ئی تو طريقہ روا رکھيں گے زيادہ تو ہم کچھ نا کر پا ئے بس باڑ لگا کر ہی جُملہ حقوق ادا کۓ گئے سمجھ رہے ہيں ، اور جہاں تک بات بيلجيئم،لندن ،ہالينڈ ،فرانس ،ميں کھُلے عام آمد و رفت کی ہے تو ميرے خيال ميں کچھ پا نے کے لیئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے وہاں کے حالات کے ساتھ ہم کيا مُقابلہ کريں کہ ميرے بھائی ہم ہر معاملے ميں دست نگر ہيں سرکار کے اور سرکار ہماری ايک اعلٰی درجے کی سرکار ہے اور صرف عوام کی بھلائی ہی اُن کے پيش نظر نہيں ہے شايد ،اور بہت سے کام ہيں جو اُن کے نز ديک زيا دہ اہم اور ضروری رہے ہوں گے ورنہ آج چند گھنٹوں کا سفر اتنا دشوار نا ہوتا کہ خون کے رشتوں کو ايک دوسرے سے ملنے کے لیئے ايک عُمر نا درکا ر ہوتی جن ميں سے اکثر اپنے پياروں کو ديکھنے کی حسرت دل ميں لیئے دُنيا سے گزر گۓ ،کاش کہ پر ہوتے اور انسان اشرف المخلوقات ہونے کی بجائے پرندوں کی صنف سے تعلق رکھتے تو کسی باڑ اور کسی دربان کی ضرورت ہی نا ہوتی ،اے کاش کہ ہم انسان ہی نا ہوتے کہ انسان ہونے کی کچھ تو سزا بھُگتنی ہی ہو گی نا اور ويسے بھی آپ تو ہوائی جہاز کے سفر کے خلاف ہيں تو آپ کے لیئے تو يہ سچوئشن آئيڈ ئيل ہونی چاہيۓ تھی ليکن ديکھ ليں ہر صورت حال کے مختلف دُکھ اور تکاليف ہيں سو اس سے بہتر کيا يہی نہيں کہ بالا ہی بالا سفر کی اُڑان بھر لی جائے اور ہنسی خوشی جو بھی حالات ہوں اُن کو قبول کيا جائے ،کيوں دنيا کے غم ميں دُبلے ہوئے جا رہے ہيں کيونکہ بعض اوقات چشم پوشی کر کے بھی گزارہ کرنا پڑتا ہے
دعاگو
شاہدہ اکرم
آپ کی رائے پڑھی۔ صحرا کے جانوروں کے بارے میں پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ آپ نے صحیح کہا انسان کو ہی ہوش کے ناخن لینے پڑیں گے۔
محترم اسد علی چودھری صاحب
سلام و دُعا کے بعد عرض ہے کہ وسطي يورپي مُمالک کےمابين زميني سفر کی تجويز آپ کے دل کو لگي لگتی ہے جو اُس آزادانہ سفرکا موازنہ پاک و ہند اور افغانستان سےکررہے ہيں- ہمارے ہاں ايسا کب مُمکن ہو سکے گا ، اس کے بارے ميں عرض کروں کہ ... شائد کبھي بھي نہيں-
يورپی مُمالک اپني قسمت کے خُود مالک ہيں- اپنی پاليسياں خُود بناتے ہيں جبکہ ہم پر اس ضمن ميں کبھي اعتبار ہي نہيں کيا گيا- ہماري آزادي صرف 14 اگست منانےتک محدُود ہے- تفصيلات کيليۓ، حُسن اتفاق سے آج اسي ويب سائٹ پر آصف جيلاني صاحب کانيا کالم دستياب ہے-
ان حوصلہ شکن حالات ميں، ميری محدُود فہم کے مُطابق، مغربی مالک ميں سکونت پذير پاکستاني اپنے مثبت رويے سے ايک اہم کردار ادا کرنےکي پوزيشن ميں ہيں- چين کی جاری و ساری تعميروترقی ميں مغربي مُمالک ميں آباد چينی سرمايہ کاروں کا بڑا ہاتھ ہے- بھارت اور اسرائيلي نژاد مغربي مُمالک کے باشندوں کي طاقتور لابياں بھارت اور اسرائيل کااثرورسُوخ بڑھانے ميں اہم کردار ادا کررہي ہيں-
انہی خطوط پر کام کرتے ہُوئے يہ پاکستاني حضرات بھي اپنے اپنے مُلک ميں، حکومت اور مُقامي مُعاشرےسےتصادم کی پاليسی اختيارکرنےکي بجائے ، سمجھداری سے کوئی درميانی رستہ اختيارکرتےہُوئے ، خود اپني ذات کے علاوہ پاکستان کيليۓ بھي بُہت کُچھ کر سکتے ہيں-
باقی ، اُن کی ذاتي و اجتماعي ترجيحات اور قائدين کے انتخاب پر مُنحصر ہے-
دعاگو
اے رضا
ابوظبی
اسد بھائی آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ اللہ ہمارے سیاستدانوں کو عقل دے اور وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں۔
صحیح فرمایا چودھری صاحب آپ نے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کب اچھے ہوں گے اللہ جانتا ہے۔ میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں جن ممالک نے عالمی جنگیں لڑی ہیں وہ بھی پیار و محبت سے رہ رہے ہیں لیکن پتہ نہیں بھارت اور پاکستان میں کب بھائی چارے کی فضا قائم ہو گی۔
ہم تو یہ سب سوچ کر دِل تھام کر رہ جاتے ہیں کریں تو کیا کریں۔
میرےخیال میں پاکستانیوں کو اسلامی ممالک سے روابط بڑھانے چاہیں۔ قیامِ پاکستان سے اب تک بھارت نے بدترین دشمنوں والا رویہ رکھا ہے۔
ڈیئر اسد بھائی آپ کا بلاگ بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔ آپ نے لکھا تو بہت صحیح مگر وہ تو یورپ ہے۔ مگر ہمارے تو حالات ایسے ہیں کہ اگر ویزہ اور ٹکٹ مِل بھی جائے تو کوئی مرنے کو بھارت نہیں جاتا ناں۔ افغانستان میں بھوک ہی بھوک ہے۔ مگر سرحدوں پر کشیدگی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم لوگ کسی انسان اس طرح مار دیتے ہیں جیسے وہ جانور ہو۔
انڈيا پاکستان کے سفری حالات تو قيامت کے دن ہی ٹھيک ہونگے۔ پتہ نہيں کيوں دونوں ملکوں کے سياستدان آپس ميں سياست کرتے ہيں جس کا اثر صرف عام لوگوں پر ہی ہوتا ہے۔ انسان تو انسان جانور بھی حسرت ليئے مر جاتے ہيں۔ يورپ ميں انسانيت زندہ ہے تبھی تو اپنے ہی لوگوں کو نہ تکليف ديتے ہيں اور نہ ڈالتے ہيں تکليف ميں۔
ڈیئر اسد یہ سب لکھنے کا شکریہ۔
درست فرمايا پاکستان پاک فوج کے ہاتھوں يرغمال بنا ہوا ايک قيد خانہ ہی ہے۔
زبردست چوھدری صاحب۔ ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ سارک ممالک کی سرحدیں بھی یورپ کی طرح کھل جائیں۔
اسد علی چودھری صاحب؛ اسلام وعليکم؛ آپ کی تحرير پڑھ کر آپ کے دل کی کيفيت کا اندازاہ ہوتا ہے کہ انداز بيان گر کہ ميرا شوخ نہں ہے شايد کے تيرے دل ميں اتر جائے ميری بات والامعاملہ ہے۔.ویسے جو قوميں آج تک صرف الحامی قصوں ميں ہی زندہ رہ گئی ہيں انکاحال بھی شايد کچھ ہم سے بہتر ہی ہو کہ اب تو ہمارے حالات کے واسطے کوئی الحامی کتاب توآنی نہیں۔ آپ کی تحريں پڑھ کر ہی لوگ ہمارے حالات کا اندازہ لگائيں گے۔اب تو چاروں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی اور رہو نوں ہن رہو محمد حن روے تے منّاں. مگر رہے گی کيسے.
کيا بات ہے آج کل آپ جہازوں کے پيچھے پڑے ہوئے ہيں۔ کل تو آپ زمينی سفر کرنا چاہتے تھے اور آج زمينی حقيقتيں ديکھنے کے ليے پھر سے جہاز ميں جا بيٹھے ہيں۔ خير کچھ بھی ہو بات ہے اہم۔ آپ کا بلاگ پڑھ کر مجھے يہ لطيفہ ياد آگيا، شايد آپ کی بات کا اس ميں جواب ہو۔ ايک فلسفی ايک گاؤں ميں چلا گيا۔ کسان کھيتوں ميں کام کر رہا تھا جبکہ پاس ہی بيلوں کی جوڑی کنويں پہ کام کر رہی تھی جن کے گلے ميں ٹلياں بندھی تھيں۔ بہت سوچنے کے بعد جب فلسفی کو ٹليوں کا مقصد سمجھ ميں نہ آيا تو کسان سے پوچھا کہ ٹليوں کا مقصد کيا ہے؟ کسان نے کہا کہ جناب ميں کام ميں مصروف ہوتا ہوں تو ٹليوں کی آواز سے ميں سمجھ جاتا ہوں کہ بيل چل رہے ہيں اور کام کر رہے ہيں۔ فلسفی نے حيرانگی سے کہا کہ اگر بيل ايک ہی جگہ کھڑے ہو کر سر ہلاتے رہيں تو؟ کسان نے معصوميت سے کہا ’جناب يہ ٹگے ہيں، کوئی فلسفی نہيں‘۔
جنوبی ايشيا کا حکمران طبقہ بھی ان فلسفيوں جيسا ہے جو 60 سال سے ٹلياں گلے ميں باندھ کر ايک ہی جگہ کھڑے گردن ہلا رہے ہيں۔
محترمی برادر اسد صاحب
اسلام عليکم! آپ يورپ ميں رہ کر يو رپی ہو گئے ہيں۔ بھائی وہ يورپ ہے، ترقی يافتہ ہے۔ آج اس نے ڈالر کو بھی مات دے دی ہے۔ يہ جو بھوک و افلاس ہوتی ہے يہ سب کچھ چھين ليتی ہے يہاں تک کہ انسان اپنا ايمان بھی بھول جاتا ہے۔ بھئی ہماری سرحديں کن کن سے ملتی ہيں۔ بد قسمتی سے انسانوں کا ايک بہت بڑا سیلاب اور غربت و افلاس، تنگدستی، لاقانونيت ايک ہی خطے ميں اکھٹے ہو گئے ہيں۔ پا کستان ،انڈيا، بنگلہ ديش، سری لنکا، نيپال ارے کہيں بھی امن ہے۔ جب اپنو ں کو نہيں بخشتے تو کيا کسی غير کو برداشت کريں گے۔ يار نہ دل دکھايا کرو، اللہ کا شکر کرو بش ہاؤس ميں نوکری مل گئی ورنہ يہاں سی وی ہی جمع کراتے رہتے۔
عنوان تو بڑا ظرفانہ چنا ہے آپ نے مگر بلاگ پڑھ کے روح کانپ جاتی ہے۔ جو جانوروں کو بخش نہیں سکتے ان سے انسانوں کے ساتھ ہمدردی کی کیا توقع۔ کیا اس سلسلے ميں وسيع الذہنی کے ساتھ کوئی روڈ ميپ نہيں بنایا جاسکتا؟ کیا باہم مل کر انسانيت کی کوئی ايسی راہ نہيں چنی جاسکتي؟ آخر کب تک ہم ان قربانیوں کو برداشت کرتے رہیں گے ؟ آخر کب تک ہند و پاک کے مابين جاری رہنے والی بلا جواز سرد جنگ کی چکی ميں ايک عام آدمی پستا رہے گا۔ یہ سوچنا کيا میرا اور آپ کا کام نہیں ہے؟
سجادالحسنين، حيدرآباد دکن ہندوستان
ُُُ ُ ُعنوان تو بڑا ظرفانہ چنا ہے آپ نے- - - - - - - - ،، سجادالحسنين، حيدرآباد دکن ہندوستان -
محترمی سجادالحسنين صاحب!- عنوان نا تو ظرفانہ ہے اور نا ہی ظريفانہ بلکہ يہ پنجابی کے مشہور صوفی شاعر مياں محمد صاحب کے عارفانہ کلام ُسيف الملوک، کے ايک بند سے مستعار ليا گيا ہے اور مياں محمد بخش کے کلام کا پنجابي لوک گائيکي ميں بھي اپنا ايک مقام ہے اوربہت سے لوک گلوکاروں نے اکثروبيشتر اسے گايا ہے اور شعر يوں ہے- - - - -
آئی جان شکنجے اندر تے جوں ويلنے دے وچ گنا
تے رؤ نوں آکھے رہو ُمحمد، جے اج رہوے تے منّآ
ترجمہ: جان شکنجے ميں اس طرح پھنس گئی ہے جيسے بيلن ميں گنا پھنسا ہوتا ہے اور رس سے کہو کہ آج (گنے سے )نا نکلے تو ميں (محمد بخش) مانوں: ياد رہے شکنجے سے مراد وہ بيلن ہے جس سے کسان لوگ گنے سے گُڑ بنانے کے ليئےگنے کا رس نکالنے کے ليئے استعمال کرتے ہيں اور يہ عموماً گنے کے کھيتوں ميں لگايا جاتا ہے اور بيلوں کی مدد سے چلتا ہے اور ساتھ ہی ايک طرف ايک بہت بڑے کڑاہ کے نيچے آگ جلائی جاتی ہے جسميں گنے کا رس گرم ہو کر ساتھ ساتھ گرم گرم گُڑ ميں تبديل ہوتا رہتا ہے - اس سارے عمل کو پنجابی ميں ويلنا لگانا کہتے ہيں
جباب اسد علی چودھری صاحب حقيقتیں آشکار ہوئیں شکر۔ نفرتوں کی يہ ديواريں نہ جانے کب تک رہيں انسانوں کو تنگ کرنے والوں کو تاريخ کبھی معاف نہیں کرتي۔ ابھی جيلوں ميں مقيد لوگ عام پاکستانی شہریوں سے زيادہ اچھی سہولتوں کے مالک ہيں۔