راوی چین لکھتا ہے
میں شاید ایسا نہ کرتا لیکن گزشتہ ہفتے کے بلاگ پر دوستوں نے اتنے تبصرے بھیجے کہ مجبوراً یہ کرنا پڑا۔ آخر بات کرنے سے ہی تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
تبصرے بے بہا تھے، اکثر نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ ان کے تبصرے چھاپے نہیں جائیں گے، سو وہ چھپے بھی۔ اگر نہیں چھپے تو وہ کہ جو یا تو انگریزی میں تھے، رومن میں یا جو نہایت ’شائستہ‘ زبان میں لکھے گئے تھے۔ ہاں اب صرف ویب سائٹ پر اردو میں لکھے ہوئے تبصرے چھاپے جا رہے ہیں۔
خیر جواب کی ضرورت اس لیئے پیش آئی کہ میں نے جو معصوم سے لطیفے سنائے تھے ان سے لوگ خفا تھے۔ میرا مطلب کسی کو آزار پہنچانا نہیں تھا اور اگر ایسا ہوا ہے تو مجھے دکھ ہے۔ خیر دکھ تو مجھے اس بات کا بھی ہے اکثر دوستوں نے اس معصوم سے بلاگ کا مطلب ہی الگ نکالا۔ کسی نے اسے انگریزوں کی سازش کہا تو کسی نے اسلام کے خلاف متعصب رویہ۔ کسی نیک شخص نے یہ بھی الزام لگایا کہ ’آپ سٹیج ڈرامے بہت دیکھتے ہیں یہ جگتیں وہاں سے ہی لی گئی ہیں‘۔ جن صاحب نے بھی یہ لکھا ہے میں ان کا بہت مشکور ہوں کیونکہ یہ سٹیج پر تو سنی جا سکتی ہیں بس دوسروں کو سنائی نہیں جا سکتیں۔
مقصد تو میرا یہ کہنا تھا کہ خوش رہا کریں اور ہنسا کریں۔ اور اگر کسی پٹھان، سردار، پنجابی یا سندھی کے متعلق لطیفہ بنایا جا سکتا ہے تو مولوی کا نام لینے میں کیا دشواری ہے۔ میں ایسے ہزاروں کیس سنا سکتا ہوں جن میں امام مسجد گھنوئنے فعل کر کے پکڑے گئے۔ بدکاری، زنا کاری اور دہشت گردی جیسے جرائم کی ایک طویل فہرست ہے۔ لیکن یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ صرف امام مسجد یا مولوی ہی ایسے فعل نہیں کرتے، یہ کوئی بھی کر سکتا ہے۔ ان میں ہزاروں ایسے بھی ہوں گے جو بہت نیک اور دین دار ہوں گے اور ہیں بھی۔ وہ بھی عام انسان ہیں، ہماری آپکی طرح۔ اسلیئے انہیں بھی ہنسنے کا پورا حق ہے چاہے کسی طرح بھی ہو۔
نماز کی صف یا آگے چلے جانے کے متعلق بات کسی کی دل آزاری کے لیئے نہیں تھی۔ بھائی وہ صرف ایک معصوم لطیفہ تھا اور کچھ نہیں۔ مقصد صرف نماز کا پڑھنا ہے۔ مجھے نہیں معلوم جتنے لوگوں نے اپنی ’محبت‘ کا اظہار کیا ان میں سے کتنے یہ فرض ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی اگر لطیفے سے ہٹ کر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کسی کی بگل میں گھس کر نماز نہیں پڑھنا چاہتا۔ میں نماز کو آرام سے، خوشی سے اور خدا کے حضور سجدہ کرتے ہوئے صرف اس سے رجوع کرنا چاہوں گا نا کہ نمازیوں کے دھکوں کی طرف۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سوچتا ہوں کہ اگر آج غالب، اقبال یا دیگر شعرا زندہ ہوتے تو ہمارے دوست ان کے کلام کا کیا مطلب نکالتے۔ ذرا پڑھیئے:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا! (غالب)
میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمہیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں (غالب)
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں (غالب)
طاعت میں تا، رہے نہ مے انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو (غالب)
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیئے
بھوں پاس آنکھ، قبلۂ حاجات چاہیئے (غالب)
خدا کو سونپے ہیں میں نے تمام کام مگر
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا (میر تقی میر)
اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی
تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی
کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی
منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی (اقبال)
مثالِ پر تو مے طوفِ جام کرتے ہیں
یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں (اقبال)
کیوں اے جنابِ شیخ! سنا آپ نے بھی کچھ
کہتے ہیں کعبے والوں سے کل اہلِ دیر کیا
ہم پوچھتے ہیں مسلم عاشق مزاج سے
الفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بیر کیا! (اقبال)
یہ آیۂ نو، جیل سے نازل ہوئی مجھ پر
گیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا
کیا خوب ہوئی آشتی شیخ و برہمن
اس جنگ میں آخر نہ یہ ہارا نہ وہ جیتا
مندر سے تو بیزار تھا پہلے سے ’بدری‘
مسجد سے نکلتا نہیں، ضدی یہ ’مسیتا‘ (اقبال)
بہت سے دوستوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور’ آپ‘ اپنے بلاگ میں کیا ’بکواس‘ لکھ رہے ہیں۔ تو بھئی آپ کی بات سچ ہے۔ مجھے وہ لکھنا چاہیئے۔ میں معافی چاہتا ہوں۔ لیجیئے اب صرف دنیا کی حقیقتوں کی بات ہو گی۔ اور وہ معاف کیجیئے گا کہ یہ کچھ اس طرح سے ہیں۔
۔ سن دو ہزار سے لے کر ابتک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چورانوے ہزار کے قریب لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور اس میں سے پچاس ہزار سے زائد صرف عراق میں ہلاک ہوئے ہیں۔ صرف ستمبر میں ہی ایک ہزار اور نوے کے قریب عام عراقی شہری ہلاک ہوئے۔
۔ دنیا میں ہر سال ایک کروڑ پچاس لاکھ بچے بھوک سے مر جاتے ہیں۔
۔ صرف ایک میزائل کی قیمت ایک بھرے سکول کے بھوکے بچوں کو پانچ سال کے لیئے خوراک دے سکتی ہے۔
۔ دنیا کے تین امیر آدمیوں کے اثاثے باقی تمام کم ترقی یافتہ ممالک کے مجموعی اثاثوں سے زیادہ ہیں۔
۔ ہر 3.6 سیکنڈ کے بعد کوئی نہ کوئی بھوک سے مر جاتا ہے۔
۔ گزشتہ پانچ سال میں دنیا میں سینکڑوں خود کش بمباروں نے اپنی اور ہزاروں دوسرے معصوم افراد کی جانیں لی ہیں۔
۔ اگر دنیا کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو سن 2042 میں یہ نو ارب ہو جائے گی۔ مطلب اگلے 43 سالوں میں یہ پچاس فیصد بڑھ سکتی ہے۔
۔ پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد افراد غیر تعلیم یافتہ ہیں۔
۔ دو ہزار چھ میں صرف پاکستان میں دو سو سے زائد افراد فرقہ وارانہ دہشتگردی کا شکار ہو چکے ہیں۔
۔ پاکستان میں ایک ’باغی‘ سیاستداں کو فوجی کارروائی میں مار دیا گیا اور لوگ اسے بھول بھی گئے۔
۔ آٹھ اکتوبر کو کشمیر اور صوبہ سرحد کے کئی علاقوں میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے ایک سال بعد بھی لوگ بے گھر ہیں اور سردی سے مر رہے ہیں۔ جو پہلے اسی ہزار کے قریب ہلاک ہوئے وہ الگ ہیں۔
۔ صدر مشرف کی کتاب بک رہی ہے اگرچہ وائٹ ہاؤس سے لے کر پاکستان کے ایوانوں تک لوگ اس جھوٹ اور لغو کہہ رہے ہیں۔
۔ ہر سال پاکستان میں ایک لاکھ بچوں کی پیدائش کے موقع پر پینتیس مائیں ہلاک ہو جاتی ہیں جبکہ ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے بہتر ہر سال ہلاک ہو جاتے ہیں۔
یہ فہرست لامحدود ہے۔ باقی پھر سہی۔ بس اتنا کہوں گا کہ اب اس فہرست کو تکیئے کے نیچے رکھیئے اور آرام سے سو جائیے۔ راوی چین لکھتا ہے۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
تبصرےتبصرہ کریں
جناب عارف شميم صاحب، سلام عرض
آپ کی تحرير پڑھی انتہائی مُفصّل بيان ديا ہے آپ نے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے ميری تجويز قبول فرمائی اور اب بلاگ ميں صرف اردو ميں لکھے گئے تبصرے آئيں گے اور آرہے ہيں ۔۔بہت شکريہ۔
آپ نے تمام افراد کو جواب انتہائی بہادری اور شائستگی سے ديا ہے اور يہی تقاضہ بھی تھا۔
خيالِ خاطرِ احباب چاہيۓ ہردم
انيس/ ٹھيس نہ لگ جائے آبگينوں کو۔
ہوسکتا ہے آپ کی باتوں سے ابھی بھی اختلاف ہو، تو کيا ہوا ، اختلاف ہی تو ايک مثبت سمت کی طرف لے کر جاتا ہے، نئی راہيں کھولتا ہے، نئی فکريں جنم ديتا ہے۔ مگر يہ ضرور ہے کہ اختلاف تعميری ہو، تو يہي اختلاف باعثِ ارتقاء ہے ۔۔بس
جناب شميم صاحب،
ان شعرا کے کلام سے يہ بات واضح ہو گئی کہ سو دو سال پہلے مسلمانوں کو سوچنے اور بولنے کی زيادہ آزادی ميسر تھي۔
اب صورتحال يوں ہے کہ ملاؤں کو بھی پيغمبروں اور صحابہ سے کم نھيں سمجھا جا رہا ـ بہتر ہو گا کہ ’توہين رسالت‘ کی طرح کا ايک ’توہين ملا‘ کا قانون بنا ديا جائے، تاکہ ہما شما
ہر قدم يوں پھونک پھونک کر رکھنے پر مجبور ہو جائے کہ بلاوجہ کسی کی مذہبی ُدم پر پڑ کر فساد نہ کروا ليں۔
لگتا ہے آپنے مولويوں کی باتوں کو بہت سنجيدگی سے لے ليا ہے۔
اقبال اورغالب کسی کے تبصروں پر رک تو نہيں گئے تھے کيونکہ وہ جانتے تھے کہ پھٹا ہوا ڈھول زور سے بجتا ہے اور جو لوگ مولوی کے لطيفے پر اتنی چوں چراں کر رہے ہيں اصل ميں يہی لوگ منافق اور مولوی والے کاموں کے شوقين ہيں اور صحيح بات ہے مولوی عام انسان جيسے نہيں ہوتے کيونکہ عام آدمی گناہ کے بعد اللہ سے ضرور معافی مانگتا ہے اپنے کيۓ پر شرمندہ ہوتا ہے ليکن يہ مولوی تو اپنا ہر برا عمل بھی گناہ سے پاک سمجھتے ہيں۔ غلطی گناہ کا تصور ہی نہيں ہے انکی زندگی ميں، ايسی حقيقتيں بتانے سے تو اچھا تھا کہ دو، چار لطيفے اور لکھ ديتے کيونکہ تنقيد تو ہونی ہی ہے آپ پر تبصروں ميں، کيونکہ ہم سب کا پسنديدہ اور ہردلعزيز مشغلہ تنقيد ہی تو ہے۔
عارف شميم صاحب آپ کے سارے بلاگز پڑھ کر ذہنی و قلبی سکون ملتا ہے(اگر الفاظ کے اس مجموعے پرکسی کو اعتراض نہ ہو) - يہ نہ سمجھيئے کہ صرف تبصرے کرنيوالے ہی آپ کے قاری ہيں۔ آپکے پچھلے بلاگ پر تبصروں سے متعلق غالب ہی فرما چکے ہيں
يا رب وہ نہ سمجھے ہيں نہ سمجھيں گے مري بات۔
آپ لوگوں کو خوش رکھتے ہيں اللہ آپکو خوش رکھے۔
برادر شميم۔ آپ بھی جذ باتی ہوگئے
چراغوں کو بھی جلنے دو ہواؤں کو بھی چلنے دو۔
شيخ جي آپ کے ارادوں پر خود مشيت کو شرم آتی ہے/ آپ سجدے ميں سر جھکاتے ہيں حور جنت ميں کانپ جاتی ہے۔ بدرادرم آپکو معاشرتی براياں دکھانے کا فن آتا ہے۔ ميں نے انسان کو کيا قتل خدا کي خاطر/ يہ عمل لے کے چلا روز جزا کی خاطر۔
محترم عارف شمیم صاحب آپ تو لوگوں کے تبصروں پہ ناراض ہوئے لگتے ہیں اور اب ہمیں نمکین نمکین باتیں سنانے لگ گے۔ نمکین چیزیں تو آجکل افطاری میں روز ہی کھا ئی جا رہی ہیں۔ عید کی آمد آمد ہے اب تو میٹھا ہی چلے گا۔ مزید لطیفہ بلاگ کب لکھیں گے۔
خوبصورت۔۔۔۔
اسی لیئے فیض نے كہا تھا
منتیں ایں وہاں تو چھوٹے گی
فكر سود و زیاں تو چھوتے گی
خیر دوزخ میں مے ملے نہ ملے
شیخ صاحب سےجاں تو چھوٹے گی۔
جناب عارف شميم صاحب بہت ہی خوب لکھا ہے آپ نے-
يہ جو آخر ميں ’چين ہی چين‘ والی کہانی ہے يہ بھی انہيں مولويوں کی وجہ سے ہے جو اپنے متعلق لطيفے نہيں سن سکتے۔
شميم بھائی آپ کے اس بلاگ کا خواتين وحضرات جو بھی مطلب نکاليں ميں تو سب سے پہلے شعروں کے انتخاب کی داد ديتی ہوں۔ اتنا مزہ آيا کہ بس بتا نہيں سکتی باقی داد بعد ميں دوں گی ايک دو اشعار مجھے بھی ياد آ گۓ ہیں۔
نا تھا کچھ تو ،خداتھا، کچھ نا ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبويا مجھ کو ہو نے نے نا ہوتا ميں تو کيا ہوتا
تيرے سرو قامت سے اک قدْآدم
قيامت کے فتنے کو کم ديکھتے ہيں
شاعر کو سبھی جانتے ہيں۔ پھر بھی ايک بات ضرور کہوں گی شميم بھائی کہ پوری دنيا کو خوش رکھنا بہت مشکل ہے اور دکھوں بھری اس زندگی ميں خوشی کے جو بھی پل مليں غنيمت جانيۓ کہ رُلانے کو آج بہت کچھ ہے سو کھينچ تان کر کہيں سے بھی اگر ہنسی کا ٹوٹا ملے دل کی کسی کھوئی ہوئی چيز کی طرح تو ضرور حاصل کيجيۓ کہ حديث مبارکہ يہ بھی ہے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانا بھی ايک نيکی ہے اور ہم نيکی کرنے والے کی نيکی کو کيسے ضائع کر سکتے ہيں ،يہ مبالغہ آرائی کی بات نہيں ہے آپ سب بھی جانتے ہيں کہ جو کچھ احترام کہ پردے ميں ہوتا ہے وہ بھی اکثر سے زيادہ لوگ جانتے ہيں اور باقی جو کچھ ہمارے محترم شميم بھائی نے لکھ کر اعدادو شمار بتائے کيا اُن سب سے ہم واقعتاْ پُر سکون ہو گۓ، نہيں نا،اور کيا وہ باتيں ہم پہلے سے نہيں جانتے تھے،اصل بات يہ بھی ہے کہ ہم لوگ اذيّت پسند ہو گۓ ہيں، ہونٹوں کے زاويے ہنسی کے رُخ پر مُڑ نا بھول گۓ ہيں۔ تو پھر زندگی کو صرف دُکھوں کے سہارے گزارنا بھی ايک بہت مشکل امر ہے۔ ہو سکے تو مُسکراہٹوں کے پھول کھلائيں اور چھوٹی سی اس نيکی کو چھوٹا نا سمجھيں،خوش رہيں خوشياں بانٹيں ،ہاں خيال رہے دل نا دُکھنے پائے ہماری کسی بھی بات سے۔ اُميد ہے ميري اس بات سے بھي کسي کي دل آزاري نہيں ہوئ ہو گي۔
برادرم شميم صاحب!
مولويوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے مگر آپ نے دل کي بات کہ دی ہے اس لیئے میں نہيں کہوں گا کہ ايک سرکاری ملازم ہوں۔ ایسا نہ ہو کل وارننگ مل جائے کيو نکہ ہمارے افسر موصوف بھی نام نہاد مولوی ہیں مگر رشوت بھی عبادت سمجہ کر لےتے ہیں۔
لگتا ہے ان دو بے ضرر سے لطيفوں پہ کچھ تبصرہ نگاروں کی ’ناراضگي‘ کا رخ آپ لاشعوری طور پر اقبال اور غالب کی طرف موڑنا چاہتے ہيں۔ يہ ٹھيک بات نہيں۔ اب اس ناراضگی کا کيا کيا جائے کہ
وہ بات سارے فسانے ميں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے۔
ويسے تو اس خفگی کا رخ اور بھی بہت سی تاريخی شخصيات کی جانب موڑا جاسکتا ہے اقبال، مير اور غالب آپ کے چہيتے معلوم ہوتے ہيں جو آپ کی نظر کرم ان پر پڑی ہے يا کوئي پراني دشمني ہے ان سے۔ چليے ان کا بوجھ ہلکا کرنے کے ليے درشن سنگھ آوارہ کے چند اشعار
ميں ايہہ وی سنی اے تيری اک روايت
کہ جس جس نے لينی اے جنت رعايت
ترے بھٹياں ايناں تو منگے عنايت
ايہہ خوش ہو کے ديندے دعا تے شفاعت
تيرے ناں تے ليندے چڑھاوے سلاماں
تو دتا ايہہ ايناں نوں مختار ناماں۔
مبارک ہو آپ نے پورا سائبر ڈائجسٹ شائع کر دکھايا۔ مزے کی بات عارف اور شميم کا ايک ہونا ہے جس کی وجہ سے آپکو خواتين و حضرات دونوں خوشی خوشی پڑھ سکتے ہيں البتہ اس بلاگ ميں گنگنائے گۓ اشعار چونکہ’ہاکس بے‘ برپا کر سکتے ہيں اس لیۓ حفظ ماتقدم کے طور يہ ياد دہانی کراني بے جا نہ ہوگی کہ ’خواتين وحضرات پر ملکر اس بلاگ کا مطالعہ لازم نہيں بصورت ديگرمصنف نتائج کے ذمہ دار نہيں‘۔ اب ذراغالب کا يہ شعر ملاحظہ ہو’ مزا ملے گا کہو خاک ساتھ سونے کا/ رکھے جو بيچ ميں وہ تن تکيہ‘۔
شميم بھيا ايک حقيقی لطيفہ سنیئے۔
ہمارے علاقے مں ايک مولوی صاحب ہوا کرتے تھے جن کو خدا نے بہت متاثرکن آواز عطا کی تھي- يوسف اور زليخا کی کہانی ان کی پسنديدہ داستان تھا جسے وہ ہر جمعے کے دن مرچ مصالحہ ڈال کر انڈين فلموں کی طرح دلچسپ بناتے اور مزے لے لے کر بيان کرتے- گاؤں کے لڑکے لڑکياں يہ داستان بہت شوق کے ساتھ سنا کرتے تھے- پھر ايسا ہوا کہ مولوی صاحب کی ايک نازک اندام جوان بيٹی گاؤں کے ايک ’يوسف‘ پر فدا ہوگئي- جب مولوی صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے رات ہی رات اپنی بيٹی کا گلا گھونٹ کر قتل کرديا اور گاؤں سے بھاگ گئے۔
شمیم صاحب آپ تو ایک دم جذباتی ہو گئے
جن لوگوں نے آپ کے جگت نما لطیفوں پر غیر لطیف جذبات کا اظہار کیا وہ لوگ بہت سطحی
سوچ کے حامل لوگ ہیں۔
ان کے لیئے ایک لطیفہ ہے۔
کہتے ہیں کے ایک مولوی صاحب کی اپنی بیگم سے لڑائی ہو جاتی ہے اور بیگم غصے میں
آکر مولوی صاحب کو خوب برا بھلا کہتی ہے اور مسجد کے نمازی یہ باتیں سن لیتے ہیں۔
مولوی صاحب اس واقعے کی بابت نمازیوں سے یوں مخاطب ہوتے ہیں ’یہ (میاں بیوی کی لڑائی)
میں جو کچھ ہو رہا ہے امریکہ کروا رہا ہے اور یہودیوں کی سازش ہے‘۔
خیر جن لوگوں نے ان لطیفوں کو مغرب کی سازش قرار دیا شاید انہوں نے کبھی پادریوں کے مطلق لطیفے نہیں پڑھے
جو مغرب والوں ہی نے تخلیق کیے ہیں۔
مولویوں کے جتنے لطیفے مجھے آتے ہیں اتنے کم لوگوں کو آتے ہوں گے ایسے نہیں ہے کہ میں کسی مغربی این جی او کا رکن ہوں
بلکہ میں ایک مولوی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور یقین جانیئے مولوی لوگ ایسے لطیفوں کا بالکل برا نہیں مناتے بلکہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہنسی مزاق کو ہنسی مزاق تک ہی رہنے دیا کریں مغرب کی سازش نہ بنایا کریں۔
شمیم صاحب آپ ایسے ہلکے پھلکے بلاگ بے لاگ لکھتے رہا کریں۔
محترمی و مکرمی عارف شميم صاحب
اسلام عليکم ! چليں آپ کو يہ تو اندازہ ہو گيا ہو گا کہ آپ کے پڑھنے والوں کو آپ کا وہ بلاگ بہت برا لگا ، اور يقينا اگر آپ نے تسليم کر ليا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ شميم صاحب مولوی اور اسلام دو الگ الگ چيزيں ہيں۔ مو لوی تو نکاح پر نکاح بھی پيسوں کی خاطر پڑھا ديتا ہے، مگر اسلام تو اسکی اجازت نہيں ديتا، آپ مولويوں پر خوب لکھيں ، شايد آپ کی تحريروں کا ہی اثر ہو کہ ان ميں کو ئی تبد يلی آ جا ئے ، مگر اسلام پر آپ کو زيب نہيں ديتا کہ آپ اس طنزيہ انداز ميں لکھيں - آپ کو معلوم ہی ہے اس وقت ويسے ہی ايک يہودی لابی اسلام کے خلاف کام کر رہی ہے۔ آپ تو ماشاء اللہ مسلمان ہيں اور پھر لکھاری بھی ہيں۔
نماز کی صف یا آگے چلے جانے کے متعلق بات کسی کی دل آزاری کے لیئے نہیں تھی۔ بھائی وہ صرف ایک معصوم لطیفہ تھا اور کچھ نہیں۔
عارف صاحب برا نہ منایئے گا آپ کا یہ فقرہ سن کر پتہ نہیں کیوں شوکت عزیر صاحب کی یاد آ رہی ہے۔
تبصرے شائع کرنا ہيں تو غير ضروری کانٹ چھانٹ جانچ پڑ تال کے نام پر بند کريں- کہاں گئی اظہار رائے کی آزادی ۔ آپ نے بھی سنسرشپ عائد کر رکھی ہے۔ مولويوں کے لطيفوں کے ساتھ ساتھ خوش ذوق قارئين کی ضيافت طبع کيلیئے اگر بی بی سی والے يہوديوں کے مذہبی پيشواؤں کے لطيفے بھی شائع کريں تو عارف شميم کی جرات کےہم مزيد قائل ہو جائيں۔
جناب عارف شميم صاحب!
ُراوی چین لکھتا ہے، حضور، راوي (عارف شميم) کو قطعنا چين نہيں لکھنا چاھيے کہ اہلِ صحافت اور اہلِ علم کسی بھی معاشرے کی آنکھيں، کان، زبان اور دل ہوتے ہيں، اہلِ صحافت روز وہ کچھ سنتے اور ديکھتے ہيں جو عام آنکھ کو نظر نہيں آتا اور پھر انکے اندر تڑپتا ہوا دل، انکے اندر کی بے چين روح معاشرے کے مفاد ميں بے بس اور کمزور مخلوق کی آواز بن جاتی ہے اور عموما وہ سودو زياں سے بے نياز ہو کر با آوازِ بلند نقارہِ خدا پہ چوٹ لگاتے ہيں اور معاشرے کے ظالم اور کمزور پہلوؤں کی نشاندھی ہوتی ہے اور يہ بڑے دل گردے کا کام ہے جس کی ايک عام انسان سے توقع نہيں کی جاسکتی۔ اور يہ کام وہی لوگ کرسکتے ہيں جن کے سروں ميں سودا اور روح ميں بے چينی ہو کہ يہ ہما شما کے بس کا روگ نہيں۔ لہذا محترم راوی (عارف شميم) کو ُچين، نہيں بلکہ ُبے چين، لکھتے رہنا چاہئيے کہ کوئی تو ہو جو معاشرے کی کج روئيوں، اور خاميوں کی نشاندہی کرتا رہے اور اللہ آپکو اسکا اجر دے گگ۔
جناب عارف شميم صاحب! مجھے دلی افسوس ہے کہ ہم ميں سے کسی کے تبصرے يا تبصروں سے آپکو دکھ پہنچا ہر آدمی اپنی بساط اور عقل و فہم کے مطابق بات کہتا ہے اور ضروری نہيں کہ وہ آپکے اخلاق ( کہ اس موجودہ بلاگ سے آپکے اعلی اخلاق کا اظہار ہوتا ہے) ، معيار اور سوجھ بوجھ پہ پورا اترے اسليئے گذارش ہے کہ آپ ناگوار باتوں کو نظرانداز کر ديں۔
بہت ممکن ہے کہ کچھ مولوی حضرات غير اسلامی، غير شرعی اور غير اخلاقی اور گھناؤنے جرائم و اقدام ميں ملوث ہو نگے مگر ديکھنا يہ چاہيئے کہ مولوی بھی ہميں وہی کچھ لوٹا رہا ہے جو ہم نے مولوی کو ديا ہے۔ مولوی کسی زمانے ميں باعزت اور مقدس پيشہ ہوا کرتا تھا عالم، منصف ، باکردار ، با عمل ، با اخلاق اور جراتمند اور مستند مدارس ( اُس دور کي يونيورسٹيز) سے فارغ التحصيل اور دينی و دنياوی رہنما ہوا کرتا تھا۔ مزيد ان پہ خلقِ خدا اور حکمرانوں کا چيک ہوتا تھا تب احتساب کڑا اور نگرانی سخت تھی مگر مسلمان کمزور ہوئے اور رفتہ رفتہ پورا ہندوستان ہمارے ہاتھ سے نکل گيا اور انگريزوں نے چونکہ ہندوستان مسلمانوں سے چھينا تھا اسليئے مسلمانوں کو ہر جگہ احساسِ کمتری کا احساس دلايا گيا انکے شعائر کو کمتر جانا گيا کہ مبادا مسلمان پھر سے اپنے قد سے کھڑے ہو کر ہندوستان کی واپسی کا مطالبہ کرسکيں اور جہاں مسلمانوں کے خلاف کئی دوسرے اقدام کئيے گئيے وہيں ايک بڑا قدم مولوی کی اوقات کم اور ختم کرنا تھا تا کہ وہ انگريزوں کے خلاف مسلمانوں کی دينی رہنمائی نا کرسکے اور يوں مولوی گلي، محلے اور موضع کے باقی اہل ِحرفت (موچي، نائي، نانبائی مصلي، ميراثی وغيرہ) کيساتھ کم تر ترين کردار بنا ديا گيا جوگلي ، محلے اور موضع کے چوہدری اور انگريزوں کے نمبردار کا محکوم و محتاج ہوتا، شام کو گھروں سے مانگے کھانے سے پيٹ بھرتا۔ قانونِ فطرت ہے کہ بھکاری کبھی قوموں کے امام نہيں ہوتے اور انگريز يہ نقطہ جانتے تھے اور انگريز نےمسلمانوں کو قابو رکھنے کے ليئے مولوی جو کبھی امام تھا اُسے بھکاری بنا ديا - اور جب مستند مدرسےسے سند يافتہ يا کالج، يونيورسٹي سے ڈگری يافتہ کی بجائے بغير کسی تعليم کے ان پڑھ ، جاہل اور محض پيٹ کی آگ بجھانے والے کسی انسان کو ہم اپنی مساجد کی امامت اور اپنے بچوں کی دينی و اخلاقی تعليم کے ليئے معمولی معاوضے اور عزتِ نفس سے عاری کر کے انگريزوں کی دی اوقات اور شرائط پہ اتنے ذمہ دار عہدے پہ اپنا مذہبی پيشوا بنا ليتے ہيں تو بدلے ميں مولوی ( يا ان پڑھ آدمي) ہميں وہی کچھ واپس کرے گا جو کچہ ہم نے اتنے اہم ذمہ دار عہدے پہ تفويض کرتے ہوئے اُسے ديا۔ اور پاکستان بننے کے بعد بھی اس ضمن ميں کوئی پيش رفت نہيں ہوئی۔ قوم کی بد نصيبی ہے کہ نا اسے استحکام نصيب ہوا اور نا ہی ابن الوقت ، غير جمہوری اور غير نمائندہ حکومتوں نے باقی کارِ ديگر اور اہم مسائل کے ساتہ اس اہم مسئلے پہ کوئی توجہ دی اور نتيجہ سب کے سامنے ہے بہرصورت مطلب آپکا دل دکھانا نہيں بلکہ معاملے کی اپنی سی وضاحت کرنا ہےآ مراسلے کی طوالت کے پيشِ نظر صرف ايک بات کہوں گا کہ راوي( عارف شميم) ُچين، کی بجائے ُ بےچينُ لکھتا اچھا لگتا ہے ، لکھتے رھئيے کہ مباحثہ بہت ضروری ہے اللہ اجر دے گا
خير انديش
جاويد گوندل ، بآرسيلونا سپين
عارف شميم صاحب ليجيے اب ميں بھی اردو لکھنے لگا۔
ہاں تو آپ نے منہ توڑ جواب ديا کس کا؟ ان لوگوں کا جنہوں نے آپ کے لطيفوں پر ناراضگی دکھائی تھی۔ شايد جاويد گوندل صاحب کی باتوں کا برا مان گئےتھے مگر جتنے دلچسپ اشعار آپ نے منتخب کيے ہيں اس سے کہيں زيادہ روح فرسا وہ معلومات ہيں جو آپ نے اکٹھا کی ہيں۔ اس حقيقت کو ہميں نہ صرف تسليم کرنا ہے بلکہ دنيا کو ان حالات سے پاک کرنے کيلیئے ايک اور انقلاب کيلیئے کمربستہ ہوجانا چاہيے ۔ مگر ہوسکتا ہے انہيں دہشت گرد قرار دے ديا جائے۔
ويسے شميم بھائی لگے رہو
سجادالحسنين۔ حيدرآباد دکن، ہندوستان
بڑی حيران کن بات ہے کہ وہ لوگ جو آپ کے دو معصوم لطيفوں کو مولوی کی تضحيک قرار دے رہے تھے اب خود مولوی کو بھکاری اور انگريز کا مسلط کردہ ايجنٹ قرار دے رہے ہيں۔ سبحان اللہ۔ آپ کی کاريگری کا ميں قائل ہوگيا ہوں۔ خير مبارک ہو آپ کی کوشش رائيگاں نہيں گئي۔