مسلمانوں کے مسائل
ٹھیک ہے کہ مغرب میں پچاس فیصد شادیاں ٹوٹ رہی ہیں، ہزاروں بچوں کو معلوم نہیں کہ ان کا والد کون ہے یا ہم جنس شادیاں ہورہی ہیں مگر ان لوگوں کو اس بات کا شدید احساس ہے اور ان سے پیدا ہونے والے اخلاقی اور معاشرتی مسائل پر خاموشی سے تدبر اور تدبیر سے قابو پانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ مسلمان اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں کبھی مسلمانوں
نے اس پر سنجیدگی سے سوچا ہے؟
کیا مسلمانوں کے مسائل صرف طلاق، پردہ یا فتوی تک ہی محدود رہ گئے ہیں۔ چند ملاؤں نے اپنی سیاست چلانے کے چکر میں پوری قوم کو کیوں ہوسٹیج بنالیا ہے؟ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی آڑ میں کبھی پردہ تو کبھی طلاق کا مسئلہ بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کر رہے ہیں، جیسے اسلام دنیا کا سب سے برا اور دقیانوسی مذہب ہو۔
اسلام کے ان چند تاجروں کو اپنی پسماندگی کو دور کرنے کا کوئی غم نہیں، قوم کوجدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوئی فکر نہیں،
اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت کیسے پیدا کی جائے، اس پر جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی ہے،
سیاسی اور معاشرتی حالت کو کیسے بدلا جائے اس پر کوئی توجہ نہیں مگر ایک گھر کے ذاتی مسئلے کو دنیائے اسلام کا مسئلہ بناکر مذہب کی شبیہہ مسخ کرنا، یہ اپنی بڑی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
اگرایک فرد کو کوئی ذاتی مسئلہ درپیش ہے تو اسے پوری قوم کی موت و زندگی کامسئلہ کیوں قرار دیا جارہا ہے۔ پوری قوم کو جو شدید اور سنگین مسائل کا سامناہے کیا انہیں اس کااندازہ نہیں؟ اگر ایسے حالات رہے تو عنقریب ہم واپس دورِ جاہلیہ میں جارہے ہیں اور ہمیں بچانے والا شاید کوئی پیغمبر بھی نہیں آئے گا۔
تبصرےتبصرہ کریں
آج کے دور ميں جب تحقيقات کے مواقع کثير ہیں تو اللہ کا نام لے کر ہر بندہ يا بندی اپنے علم کو وسيع کر سکتا يا سکتی ہے۔ جس کی بات پہلی بار آپ کے دل کو لگے اس کو مان لو۔ کسی کے نام يا گروپ کو اپنی انا کے لئے بدنام نہ کرو۔ اللہ کے لیے جيو۔ اگر آپ نے ڈاکٹری کر رکھی ہے تو کيا ہوا اور بہت مال خرچ کيا ہے اور دوسرے نے بھوک کاٹ کر علم حاصل کيا تو اس کو حقير نہ سمجھو۔
ايسا نہيں ہے، مولوی ترقی کا مخالف نہيں ہے۔ اس نے کبھی کسی کو اديب یا انجينيئر بننے سے نہيں روکا۔ نہ ہی کسی کو دفاع سے منع کيا۔ وہ تو سچائی کی بات کرنے سے بھی ڈرتا ہے۔ مشرف کے ملک ميں تو ويسے بھی مولوی نفرت کی علامت بن گيا ہے۔ طلاق و پردہ جيسے مسائل سے کيا جرنيل لوگوں کو آگاہ کريں گے۔
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ، آداب
بھارت ياترا اور بنجاروں کے حالات زندگی اور تصاوير ميں ہی محو تھے کہ يکا يک آپ نے پورا منظر ہی بدل ڈالا۔ مسلمانوں کے مسائل ہيں مگر توضيح المسائل بھی موجود ہیں۔ بس اسے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس بات کے ذمہ دار صرف علماء ہی نہيں ہم سب بھی ہيں۔ ہم نے بھی تو نکاح، طلاق سے آگے ان سے رجوع ہی نہيں کيا، جب کہ ايک حقيقی عالم کی نظر کئی علوم پر ہوتی ہے، مگر شرط يہی ہے کہ ہم علمائے حقيقی کو تلاش کريں اور انہيں پہچانيں اور ان سے استفادہ کريں اور يقيناً ان کے پاس جديد ديني اور دنياوي مسائل کا حل موجود ہے جو ہميں دورِ جاہليہ جانے سے روک سکتا ہے۔
اپنا خيال رکھيۓ گا۔
خير انديش
سيد رضا
برطانيہ
مسلمانوں كو سب سے پہلے چاہئے كے وہ دوسرے مذاہب پر تنقید كرنا چھوڑ دیں۔ آج دنیا میں جہاں مسلمان ہیں وہاں جنگ ہے۔ ہر روز سب سے زیادہ مسلمان ہی مر رہے ہیں۔ اس كی وجہ یہی ہے كہ مسلمانوں نے ظلم کیا ہے جس كی سزا آج ان كو مل رہی ہے۔
مسلمانون کا سب سے بڑا مسئلہ عدل و انصاف کی کمی ہے۔ وی آئی پی کلچر نے پوری امہ کو بدنام کر کے رکھ ديا ہے۔
آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ لیکن ہمیں صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ اسلامی اُمہ کے لیے ایک لیڈر کی ضرورت ہے۔
کاش کوئی ان کو سمجھاتا ميری سمجھ ميں کچھ نہیں آتا۔ انسان کی جسماني، نفسياتی اور مادی ضروريات بھی يوتی ہيں۔
اور بھی دکھ ہيں زمانے ميں محبت کے سوا
راحتيں اور بھی وصل کی راحت کے سوا
اسلامی رياست سيکولر رياست ہونی چاہيئے۔
يہ ٹھيک ہے کہ مسلم قوم کو ملاؤں نے اپنی سڑکوں کی دہشت گردی کی طاقت کی بدولت ہائی جیک کر ليا ہے۔ ان ميں اکثر اسلام سے زيادہ اپنے مالی اور سياسی فائدے کے بارے ميں سوچتے ہیں۔ ان کا علاج صرف کمال عطا ترک کی سمجھ ميں آيا تھا۔ مصر کا طريقہ بھی برا نہيں۔ لوگوں کی اکثريت ان سے بیزار ہے اس ليے تو ان کا ووٹ بينک محدود ہے۔ ان لوگوں کو محدود کيے بغير ترقی نہيں کی جا سکتي۔
آپ کا خوبصورت بلاگ پڑھا، بہت پسند آيا۔ حقيقت يہ ہے کہ ہم مسلمانوں ميں بنيادی طور پر اتحاد کی انتہائی کمی ہے اور پھر ہم نے سيدھے سادھے آسان ترين مذہب اسلام کو مشکل بنا ديا ہے۔ اسلام ميں ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے گنجائش موجود ہے ليکن ہمارے اسلام کے علمبرداروں نے اس کو مشکل بنا کر پيش کر ديا ہے۔ آپ کسی بھی ملا کو بغير کسی لقب يا ٹائٹل کے نہيں ديکھيں گی۔ ہر کوئی حضرت، علامہ، پير شريعت، پير طريقت، مفتی اعظم، مناظر اسلام اور نہ جانے کيا کچھ لکھا ہوتا ہے۔ اگر ان کا يہی نام جو کہ اشتہارات پر لکھا ہوتا ہے اگر سرکاری کا غذات ميں لکھنا پڑے تو شايد اضافی صفحات درکار ہوں۔ بس اللہ تعالٰی ان کو ہدايت دے۔ جو صرف اپنا اپنا اسلام لے کر بيچ رہے ہيں۔
محترمہ نعيمہ مہجور صاحبہ
سلام کے بعدگُذارش ہے کہ اپني نوعيت کا پہلا دور ہے۔ ابھي کوئي نہيں سنے گا۔ اہم ترين مسائل سے چشم پوشي کا انجام دردناک ہے جس کا خميازہ جلد يا بدير بھگتنا ہي پڑے گا۔ سوال يہ ہے کہ کيا اس دن ايک اور چانس ملےگا؟
شاید نہيں يقيناً کوئی پيغمبر اب نہيں آئے گا اور ہم نے خود ہی فيصلہ کرنا ہے کہ ہميں مسلمان رہنا ہے يا جديديت اور روشن خيالی کے شوق ميں مادر پدر نام نہاد آزادی چاہيے؟
ہم کو اپنی سوچ بدلنی پڑے گی۔
ہاں! بے شک آپ کی بات کچھ حد تک ٹھیک ہے۔ ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے لیکن محترمہ، صرف علمائے دین کو ہی الزام کیوں؟ ان میں سے تو کتنے جدید علوم سے ہی ناواقف ہیں مگر اپنے تعلیم یافتہ دانشواران قوم کو دیکھئے، وہ کون سی خدمت انجام دے رہے ہیں؟ کون سا دانشور ہے جو مسائل کے حل کی طرف توجہ دے رہا ہے؟ آخر ملاؤں کو ہی الزام کیوں؟ سیاستدان کون سے کمالات کررہے ہیں؟ کیا یہ ہماری دوغلی پالیسی نہیں کہ جب کوئی اچھا کام ہو تو دانشوروں اور سیاستدانوں کے کھاتے میں ڈالا جائے اور غلط ہو تو الزام ملاؤں کے سر پر۔ کیوں آگے نہیں آتے روشن خیالی کا دعوے کرنے والے قوم کی اصلاح کو؟
يہ ہم سب مسلمانوں کی ہی غلطيوں کا نتيجہ ہے جو آج ہم سب بھگت رہے ہيں، مولويوں کی ہر بات پتھر کی لکير سمجھتے ہيں۔ کيا مولوی انسان نہيں فرشتے ہوتے ہيں؟ جو غلطيوں کی گنجائش ہی نہيں نکلتی ان پر۔ کبھی کسی مذہبی سياسی پارٹی نے حسب معمول ہڑتال کی کال ديتے وقت وہ بھی صرف دوسری سياسی پارٹيوں کو يہ جتانے کيلئے کہ سياست ميں ان ہیں يہ لوگ بھي۔ کبھي کيوں نہيں سوچا کہ ايسی ہڑتال سے ايک عام آدمی اور اس کے غريب بچوں پر کيا گزرے گی۔ اگر وہ روز کی مزدوری کر کے سوکھی روٹی نہيں لا سکے گا۔ ان کے بچوں کی تعليم کيلئے امريکہ اچھا اور سادے مسلمانوں کيلئے امريکہ توبہ توبہ۔ اسلام کو ان ملاؤں نے يرغمال بناليا ہے۔ طلاق، فتوي اور پردے کے ٹرائنگل ميں بس کوئی معجزہ ہی ہمارے حالات بدل سکتا ہے۔ ان نام نہاد اسلامک لوگوں کے پاس جب واک ان واک آؤٹ کيلئے اتنا وقت ہوتا ہے تو یہ لوگ تعليم عام کرنے اور غربت مٹانے پر بات کيوں نہيں کرتے۔ ساری سختياں پابندياں ايک چیز ہے عورت ان لوگوں کيلئِے پر لگا کر اپنا فرض ادا کرديتے ہيں۔ بس کوئی حل نہيں۔
اسلام نے 1400 سال پھلے جو قانون دیاہے - اس ميں نہ ردوبدل کی ضرورت ھے نہ دوسرا قانون بنانے کا - دنيا پر حکمرانی اللہ تعالی کی ھوگی مسلمان اللہ تعالی کا نايب يا خليفہ ھوگا - ليکن مسلمان نے اپنا کام جھوڑ ديا ھے اور دوسرے قومون کے قانون کے پیچھے بھاگتا ھے - تو پھر مسلمان کيسا - افسوس نہ وہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔ نہ خدا ھی ملا نہ وصال صنم
پیغمبر آ چکے ہیں حضرت بش اور مولانا مشرف ۔ ۔ ۔
وہ ہمیں ایسی تعلیم سے آراستہ کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہم قوم لوط اور قوم ثمود اور فرعون و قارون کو بھی شرمائیں گے ۔ ۔
پردہ تو بہت پہلے اٹھ چکا ہے ، شادی کو بھی ختم کیا جا رہا ہے
فکر مت کریں ہم بہت جدید ہو جائیں گے جلد ہی ۔ ۔ ۔
پہلا قدم ہی مشکل ہوتا ہے اور ہم تو جدیدیت کے ۔ ۔ ۔ ۔ اعلٰی ترین مدارج طے کر رہے ہیں
اللہ ہمیں ہدایت دے (آمین)
اصل اسلام کيا ہے کوئی نہيں جانتا يہ تو خدا ہی جانتا ہےـ اسلام جب وجود ميں آيا تو اس ميں بھيڑيے گھس گيے ـ تب سے اب تک اس کی روح لہو لہان ہےـ اب تو صرف قيامت کا انتظار ہےـ
جو وہ کر سکتے ہيں وہی کريں گے نا۔ اب ديکھيں کہ اسلام کہتا ہے زکوۃ دو، زکوۃ کيسے ديں گے اس کا جواب نہيں۔ مذہبی تاجروں کو سوچنا چاہيے کہ جس قسم کی تعليم وہ دے رہے ہيں اس سے زکوۃ دينے والے پيدا ہو رہے ہيں يا لينے والے۔ آپ نے ايک اہم موضوع پہ قلم اٹھايا ہے اور اختلاف کی کوئی گنجائش نہيں۔
ميں نے کبھی کسی مولوی کو يہ کہتے نہيں سنا کہ آپ جد يد تعليم حاصل نہ کريں بلکہ يہ کہتے ضرور سنا ہے کہ آپ جديد تعليم ضرور حاصل کريں ليکن اپنے مذہب کے داءرے ميں رہتے ہوےـ ُانگريزی ضرور سيکھيں ليکن انگريزنہ بنيںُ ـاگر پردے ،طلاق اور فتوے کے احکام بھی کسی وکيل يا بيو رو کريٹ يا تاجر کے حوالے کيے گيے تو اس اسلام کا کيا بنے گاـ علماء انبيا کے وارث ہو تے ہيں امت کی خا ميوں سے پردہ ہٹانا ان کی ذمہ داری ہےـاگر آپ کا يہ خيال ہے کہ آج مسلمان صرف پردہ طلاق اور فتووں ميں پڑے ہو ے ہيں اس ليے ترقی نہيں کر رہے تو کل کو آپ کہيں گی مسلمانوں کو حج روزہ نمازکو بھی چھوڑنا چا ہيںکيو نکہ ان کامو ں پر بہت وقت ضا ءع ہو تا ہے ـ
بےشک اج مسلمانون کی حالت بہت خراب ہے ليکن سوچنے کی بات يہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اور حل کيا ہے اگر اتاترک اور مصر کا طريفہ درست ہے تو ترکی نے کيا ترقی کی ہے وہ يورپی يونين ميں شموليت کے ليے گھگيا رہا ہے اور مصر اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود اپنے قدموں پر کھڑا نہيں ہوا مولويوں کو الزام دینے کے بجاےء ديکھيں کہ روشن خيالوں نے ميراتھن اور فيشن شوزکے علاوہ عوام کو کيا دياـ
اسلام کے بارے محترمہ کی معلومات ناقص ھيں
دراصل بڑے لوگوں کو جو اچھا لگ رہا ہے وہ کر رہے ہیں۔ ان کو کوئی مطلب نہیں کہ اسلام کيا کہتا ہے
ارتضاء
پاکستان