بڑھتی ہوئی داڑھیاں
میرے ایک دوست، جب پاکستان میں قانون توہین رسالت پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے تو ان کے فیلڈ ورک میں یہ بھی شامل تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ پاکستان میں مذہبی خیالات رکھنے والوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے کراچی، لاہور یا گجرانوالہ جیسے شہروں کے مصروف علاقوں میں جاکر کھڑے ہو کر وہاں سے گزرتے ہوئے داڑھی والے حضرات کو گنیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ میرے اس دوست نے وہاں داڑھیوں کا کتنا شمار کیا لیکن یہ ہے تو سچ نا کہ گزشتہ کئي سالوں میں پیارے پاکستان میں اچھے خاصے دیکھے بھالے خواتین و حضرات نے اپنی خوبصورت شکلوں اور شخصیات کا تاریخ جغرافیہ ہی تبدیل کر دیا ہے۔
ضیاءالحق کے آخری دنوں میں ہم دوست آپس میں مذاق کیا کرتے تھے کہ اگر ضیاءالحق کچھ اور وقت ہمارے سروں پر مسلط رہا یا خمینی جیسا کوئي حکمران پاکستان میں آگیا تو ناہید اختر جیسی مغنیہ بھی ’سلیمانی موسیقی‘ سے یعنی بغیر سازوں کےصرف حمدیں، نعتیں گایا کریں گی۔
لیکن اب پاکستان میں نہ ضیاءالحق ہے نہ خمینی، لیکن کل جو میں نے دیکھا وہ کم از کم مجھے بڑا تجریدی محسوس ہوا۔ پاکستان میں جنون جیسے موسیقی کے گروپ والے جنید جمشید کو باریش! ان کی پنڈلیوں سے اوپر شلورا اور مونچھیں غائب اور بڑی رقت سے کوئی نعت گاتے کسی پاکستانی سیٹلائيٹ چینل پر دیکھا! یہ خدا کا خوف ہے کہ پاکستان میں کٹھ ملاؤں اور انتہا پسندوں کا خوف! کچھ عرصہ قبل جنونیوں نے ’جنون‘ والوں کا بھی جینا دوبھر کیا ہوا تھا۔
پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان انضمام ہوں، کل تک کراچي کی ایلیٹ کو سوئمنگ سکھانے والا رمیز اللہ والا، کراچی کلب یا جمخانے میں درس سنتی بیبیاں، داڑھی پوش کور کمانڈرز، پاک سر زمین پر طالبانیت نے کئي شکلوں میں اپنا اثر چھوڑا ہے۔ حیدرآباد میں بندو کی گلی کے سکوائش کھیلتے بچے ہری پگڑیاں پہننے لگے۔
کبھی کبھی تو مجھے قائد اعظم کی بھی داڑھی نکلی ہوئي لگتی ہے۔
میں نے اپنی بالکونی پر سایہ کرتے کھجور کے درخت کے دو خوشے کاٹ کر ڈش اینٹینا ’جیو‘ اور ’اے آر وائي‘ پر مولوی یا عمران خان سیریز ٹائپ صحافی دیکھنے کے لیے تو نہیں لگوائي تھی نا۔
تبصرےتبصرہ کریں
آپ کے دوست نے قانون توہين رسالت ميں پی ايچ ڈی کرلی اور آپ ابھی تک يہ سمجھ نہيں پاءے کہ جنيد جمشيد نے اچانک داڑھی کيسے رکھ لی ويسے يہ بات ميرے لءے بھی ايک تجريدی آرٹ جيسی ہی ہے
خيرانديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن
مير ی سمجہ ميں يہ بات نہیں آتی کہ داڑھی بيچاری کو اتنا کيوں خطرناک سمجھا جانے لگا ہے۔ داڑھی تو بڑے قابلِ احترام شخصيات کی بھی رہی ہے۔گرو نانک، بابا فريد، بھگت سنگھ، شاہ لطيف، چارلس ڑارون وغيرہ کی بھی داڑھی تھی۔ کيا يہ خطرناک تھے؟ باقی رہا موچھوں کا سوال، يہ کہنا کہ مونچھ نہين تو مرد نہيں۔ کسی ناسمجھ کا قول لگتا ہے۔ بس اندر کی نفرتيں مٹا کر محبت اور پيار کے ديئے جلانے ہيں۔ دنيا بڑی خوبصورت ہے۔ بے خوف ھو کر جيئے۔
يہ بڑھتی ہوئی داڑھياں طابانيت کا اثر نہيں بلکہ کروسيڈي يلغاروں کی وجہ سے مسلمانوں کے ايمان مضبوط ہو رہے ہيں۔ جمشيد اور انضمام کو کوئي زبردستی تو پکڑ کر نہيں لايا جناب!
حسن مجتبییٰ صاحب! آپ کا کالم ذرا بھی دل کو نہيں بھايا۔ بہتر ہے کہ آپ کسی سنجيدہ مسئلے پہ قلم اٹھائيں۔
جناب حسن مجتبی صاحب! آپ کی يہ تحرير ہميں کسی لفافے کی پيداوار معلوم ہوتی ہے۔
،محترم حسن مجتبٰی صاحب
اسلام و عليکم
پنجابی ميں کہتے ہيں
ڈگا کھوتی توں تے غصہ کميار تے۔
رہی بات داڑھيوں کی تو مجھے ان جوانوں کی ہمت پر رشک آتا ہے۔ خدا ان کو اور دختران نيک اختروں کو اچھے انسان بننے کی ہمت اور توفيق دے۔ ميں سمجتا ہوں يہی مرحلہ مشکل ہوتا ہے۔
بس کہ مشکل ہے ہر اک کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی ميسر نہی انساں ہونا
اور انسان بننے کے لیے دردِ دل کا ہونا بہت ضروری ہے۔
دردِدل کے واسطے پيدا کيا انسان کو
ورنہ طاعت کےليے کچھ کم نہ تھے کروبياں
آپ اپنا خيال رکھيے گا
مجھے توجلنے کی بو آر ہی ہے۔ داڑھی اگر عیسائی، یہودی، سکھ اور ہندو رکھ لے تو کوئی بات نہیں۔ اس کو برداشت کر لیتے ہو لیکن اگر ایک مسلمان جس کو اس کا حکم بھی ہے۔ نبی کی سنت مبارک بھی ہے۔ وہ آپ سے ہضم نہیں ہو رہی۔ خدا کے لیے اپنے آپ پر رحم کرو۔ کیوں! مرنا نہیں ہے تم نے؟
حسن مجتبیٰ صاحب منافقت کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔ ايک طرف آپ شخصی اور مذہبی آزادی کی بات کرتے ہيں اور دوسری طرف داڑھياں آپ کے مزاج پر گراں گزرتی ہيں۔ اگر آپ خوبصورت شکليں اور چہرے ديکھنے کے اتنے دلدادہ اور متمنی ہيں تو سان ڈياگو جيسے شہر ميں اس کی کمی نہيں ہونی چاہيے۔ مت ديکھيں پيچھے مڑ کر۔ آپ کا ملک دا ڑھيوں والوں اور سکارف واليوں سے بدنما ہو چکا ہے۔ ان کو اُن کے حال پر ہی چھوڑ ديں۔ پاکستان کو آپ کی ضرورت نہيں ہے۔
حسن صاحب کيا ہو گيا آج آپ کو، ياد رہے داڑھی ايک مُسلمان مرد کی شان ہوا کرتی ہے اور کہيں آپ کے اس بلاگ پر کوئی فتويٰ نہ جاری ہو جائے کيونکہ داڑھی تو سُنّت پوری کرنے کے لیے رکھی جاتی ہے۔ ليکن نہ جانے کيوں بعض اوقات لوگ فيشن کے طور پر بھی کُچھ کام کر ليتے ہيں۔ جيسا کے آج کی نسل نے عجيب و غريب قسم کی داڑھياں رکھنے کا شوق پالا ہوا ہے۔ جس ميں ميرے خيال ميں تو کسی قسم کے مذہبی جذبات کا کوئی دخل نہيں ہے۔ اگر تو کوئی بھی کام اپنے پورے شوق يا دل کی گہرائيوں سے کيا جائے تو بات بھی ہے۔ ہاں اگر صرف ديکھا ديکھی يا فيشن کے طور پر يا بقول آپ کے کسی سے ڈر کر کيا تو کيا کيا؟ جيسا کہ ضياءالحق صاحب کے دور ميں بے چاری ٹی وی اداکاراؤں اور نيوز ريڈرز کی شامت آئی ہوئی تھی تو وہ بات کوئی ميرے خيال سے نہ ہی کوئی دل سے کر رہا تھا نا ہی خوشی سے۔ بلکہ مجبوری اور جبر کے تحت ہو رہا تھا اور کوئی بھی کام اگر اس طرح کے جبر سے کيا جائے تو اُس کا نہ ہی اجر ملتا ہے اور نہ ہی کام کرنے کا مز ہ ملتا ہے۔ سو آج جيسے ہمارے سٹارز اپنی مرضی يا خوشی سے داڑھياں رکھ رہے ہيں تو اُن کو ظاہر ہے خوشی بھی مل رہی ہوگی۔ ورنہ يہ جو بچے آج کل چھوٹی چھوٹی کُوچی داڑھياں رکھ رہے ہيں يا ايک عجيب سی لائن لگا کر تجريدی آرٹ کا نمونہ بنے ہوئے ہيں اُن کا مزہ وہی جانتے ہيں۔ ہميں تو کوئی خاص سمجھ نہيں آرہی ليکن آپ کی مجبوری کہيں يا دُکھ کہ آپ نے تو ڈش لگوائی تھی جيو يا اے آر وائی ديکھنے کے لیے اور بقول آپ کے ديکھنا کُچھ اور پڑ رہا ہے۔ تو بھائی صاحب کئی دفعہ اپنوں سے پيار کی کُچھ نہ کُُچھ قيمت تو انسان کو ادا کرنی ہی پڑتی ہے۔ تو ان چينلز پر آپ کو اور بھی تو کُچھ ديکھنے کو ملتا ہی ہو گا۔ اُن کے ہی صدقے ميں باقی کُچھ بھی برداشت کر ليا کريں۔ ہو سکتا ہے جُنيد جمشيد اور باقی سب کے جذ بے سچّے ہی ہوں اور آپ يا ميں عام انسان کی سچّائيوں کو پرکھنے والے کون ہوتے ہيں؟
دعا گو
شاہدہ اکرم
آپ کو اعتراض لوگوں کی داڑھی پر ہے تو مسلمانوں پر یہ فرض ہے۔