وہ امریکہ یہ امریکہ
سن اسی کی دھائی میں جب میں کراچی یونیورسٹی کا طالبِ علم تھا تو ہفتے میں دو، تین روز ہمارے گروپ کا یہ معمول تھا کہ امریکن قونصلیٹ کی یو ایس آئی ایس لائبریری میں جاتے جہاں واحد مسلح سپاہی وہ نوجوان امریکن میرین تھا جو ایک خوبصورت پتلے کی طرح شوکیس نما سٹینڈ میں ساکت کھڑا رہتا تھا۔
لائبریری میں داخلے کے لیے صرف ایک کارڈ دکھانا پڑتا تھا۔ اس کے بیرونی لان میں آئے دن کتابوں کی کوئی نہ کوئی نمائش لگتی رہتی تھی۔ سنگِ مرمر کی منڈیروں والے تالاب کے اندر موجود فوارہ چوبیس گھنٹے چلتا تھا۔ ان منڈیروں پر دو تین ایسے جوڑے بیٹھتے تھے جو گھر والوں سے ’کمبائینڈ اسٹڈی‘ کا کہہ کر آتے تھے اور پھر انہی منڈیروں پر فوارے کی پھوار میں بھیگ کر دل لگا کر پڑھتے تھے۔ لائبریری کے اندر ایسی عالمانہ خاموشی ہوتی تھی کہ میر کا یہ مصرعہ یاد آتا تھا
’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘
لیکن اب یہی امریکن قونصلیٹ فصیلوں میں چھپا ہوا ہے۔ ان فصیلوں کے باہر بڑے بڑے کنکریٹ بلاک اور چاروں اطراف پولیس اور رینجرز کی چوکیاں اور ہمہ وقت پولیس کی بکتربند گاڑی موجود ہے۔ جس شاہراہ پر یہ قونصلیٹ قائم ہے اس پر پیدل چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٹیکسی، سوزوکی، ہائی روف اور بھاری گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ جبکہ ایک اور قریبی سڑک جس پر امریکی کونسل جنرل کی رہائش گاہ ہے اس پر اگر سندھ کا گورنر یا وزیرِ اعلی بھی چاہے تو پیشگی اطلاع کے بغیر نہیں چل سکتا۔گویا یہ دونوں شاہراہیں بظاہر کراچی میں ہیں مگر عملاً ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا حصہ ہیں۔
ایسا ماحول تو نیویارک کی اس شاہراہ پر بھی نہیں ہے جہاں ورلڈ ٹریڈ ٹاورز کا وجود ہوا کرتا تھا۔ جہاز وہاں ٹکرائے، ملبہ کراچی سمیت پوری دنیا پر گرا۔
تبصرےتبصرہ کریں
یہ تواہم کا کارخانہ ہے
یہاں وہی ہے جس کا اعتبار کیا
محترمی ومکرمی وسعت ا للہ خان صاحب اسلام عليکم!
عرض يہ ہے کہ آپ نے ايک مرتبہ پھر بہت ہی خوبصورت بلاگ لکھا، بڑی خوشی ہوئی۔ آپ نے امريکہ بہادرکا پھر ذکر کر ديا۔ ويسے ميں سوچتا ہوں کہ امريکہ آپ کو اور عرفان صديقی کو کيسے برداشت کر رہا ہے۔ آپ تو ٹريولنگ بھی بہت کرتے ہيں۔ کيا ايسا تو نہيں ہوا کہ خفيہ والوں نے آپ کاسارا شجرہ نصب پوچھا ہو يا تنگ کيا ہو۔
جاويد اقبال ملک
جن دنوں ہم اسکول ميں پڑھتے تھے ہماری کلاس ميں دو لڑکے پڑھتے تھے جن کے بارے ميں سب کو شبہ تھا۔ ان کی دوستی کچھ زيادہ ہی ”قريبي” تھی۔ ان ميں سے ايک خوب لمبا تڑنگا اور دوسرا چھوٹے سے قد کا ايک خوبصورت گورا سا لڑکا تھا۔ ايک دن دونوں ميں کسی بات پر جھگڑا ہوا تو چھوٹے لڑکے نے ٹيچر کو بتايا کہ لمبا لڑکا اس کو گالياں دے رہا تھا۔ يہ بات سن کر ہمارے استاد ايک لمحے کو مسکرائے اور پھر گويا ہوئے
بیٹا جس کا خرچہ کھاتے ہيں اس کی باتيں سننی پڑتی ہيں
محترم وسعت اللہ خان صاحب، اسلام و عليکم!
یقين کيجيۓ اتنے برے حالات کے باوجود آپ نہ صرف امريکی حکومتی دفاتر کے ارد گرد گھوم سکتے ہيں وائٹ ہاوس، کيپيٹل ہل، ايوان کانگرس، غير ملکی سفارت خانوں کے سامنے اپنی گاڑی یا ٹيکسی ميں يا فٹ پاتھ پر سير وسياحت کر سکتے ہيں۔ بلکہ مؤثر شناختی دستاويز مثلاً پکچر آئی ڈی دکھا کر امريکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاوس کا ٹؤر بھی کر سکتے ہيں۔ کيا ممکن ہے ہمارے فوجی حکمران اپنے شہريوں کو بھی يہ آزادی کی فضا مہيا کر سکيں اور غير ملکی سفارت خانوں اور ان کے عملے کے ارکان کو بھي۔ اب تو ہمارے شہری اپنے آپ کو گھروں ميں ديواريں بلند کر کے مقفل کر ليتے ہيں۔
جناب وسعت اللہ صاحب بقول حبيب جالب ايک سابقہ فوجی صدر کے دور ميں
بيشمار فرق ہے کل ميں اور آج ميں
اپنے خرچ پر ہيں لوگ قيدتيرے راج ميں
آج اس سے بھی برے حالات ہيں۔ آپ اپنا خيال رکھيےگا
دعا گو عاجز
مياں آصف محمود
واشنگٹن
رياست ہائے متحدہ امريکہ
جناب! گاؤں کے چوھدری کے گھر کی کھڑکی کا شيشہ توڈ ديا جائے اور وہ چپ رہے۔ يہ کيسے ہو سکتا ہے؟ ورنہ اسکی چودراھٹ کون مانے گا۔ گاؤں والوں کو اسے چوھدری بنانے کا مزہ تو چکھنا ہوگا۔ ہور چوپوگنے۔
وُسعت بھائی آپ کا يہ والا بلاگ بھی حسب معمول ہی ہے جس نے دل کے نازُک تاروں کو چُھو ليا اور اُن زمانوں کی ياد دلادی جب راوی چين ہی چين لکھتا تھا۔ اب يہ تو نہيں کہہ سکتے بقول شخصے کہ سونا چاندی اُچھالتے نکل جاؤ اور کُچھ نہيں ہوگا ليکن يہ والا حال نہيں تھا۔ ناصرف کراچی بلکہ کم و بيش پورے پاکستان ميں ايسے بھی بُرے حالات نہيں تھے کہ بندہ کُچھ بھی کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچنے پر خود کو مجبور پائے، ہم خود کو اُس امريکن ميرين کي جگہ ايستادہ پاتے ہيں جن کو اپنی جگہ سے ہِلنے کی اجازت نہيں ہوتی۔ بالکُل اُسی طرح آج ہم اپنے ہاتھوں کو بندھا ہُوا پاتے ہيں اور ان ہاتھوں کو باندھنے والے ہم خود ہيں۔ ہم ايک محصُور زندگی گُزار رہے ہيں۔ نظر بندی والی کيفيّت ہے اور نظر بندی تو نظر بندی ہی ہوتی ہے خواہ وہ آپ نے خود چُنی ہو يا کسی اور نے آپ پر مُسلّط کی ہو۔ ليکن ہم پر جو يہ حالات مُسلّط کیے گئے ہيں، ہميں آہستہ آہستہ ان حالات ميں گھسيٹا گيا ہے۔ پہلے شروعات کراچی سے کی گئی اور پھر اس بد امنی کے بُھوت نے پورے مُلک کو اپنی لپيٹ ميں لے ليا، اب مُنڈيروں پر بيٹھنے والے love birdsوہاں نہيں پائے جاتے کہ بد امنی کے اپنے پنجے پوری طرح گاڑ لیے ہيں۔ امن کی فاختہ اُڑ گئی ہے۔ اب چارديواريوں کے باہراور بھی جتنی چاہے چارديوارياں اُٹھا دی جائيں کوئی فرق نہيں پڑنے والا کيونکہ 9/11 کاجو ملبہ نيويارک ميں گرا تھا وہ ابھی تک گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہم سب اُس کی زد ميں کُچھ اس طرح سے آئے ہيں کہ نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہيں ديتا۔ کم و بيش يہی صورت حال آج ہر طرف ہے۔
دعاگو
شاہدہ اکرم