ہم سب نشانہ ہیں
میرا خیال ہے کہ اب ہمارے ملک میں کوئی ایسا شخص نہیں رہا ہوگا جس کا کوئی جاننے والا کسی پُرتشدد واقعہ کا شکار نہ ہوا ہو۔
یقیناًً آپ کسی نہ کسی کو جانتے ہونگے جو فرقہ وارانہ حملے میں مارا گیا ہو، یا دھماکے میں، یا دشمنی میں، یا کسی خونریز واقعے میں۔ کتنی معمول کی بات بن گئی ہے یہ۔ ایک دن ایسی خبر سن لیتے ہیں، کچھ دیر افسوس کر لیتے ہیں اور پھر سب بھول جاتے ہیں۔
سمجھوتہ ایکسپریس پر ہونے والے حملے کا سوچ سوچ کر رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لاشوں کی شناخت بھی نہیں ہو پا رہی۔ کتنے چھوٹے بچے بھی اس میں ختم ہو گئے ہیں، کتنے لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔
کچھ ہفتے پہلے پشاور میں ہونے والے خودکش حملے نے ہمارے ہاں بھی ایک ایسا دھماکہ کر دیا
کیونکہ اس میں ہلاک ہونے والے ایک پولیس افسر میرے شوہر کے بیحد پیارے دوست تھے۔ ایماندار، وفہ دار اور سچے انسان تھے جن کے اچانک اس طرح چلے جانے کے بارے میں سوچ کر اب بھی رونا آتا ہے۔ ان کے سوگوار بچوں کے بارے میں سوچ کر دل خراب ہوتا ہے۔
کیا ہوگیا ہے ہمارے معاشرے کو کہ ہر کونے پر ایسا خطرہ موجود ہے؟ کون ہیں یہ ’مسلمان‘ جو انسانوں پر ایسا ظلم کرتے ہیں، جو اپنے ساتھ اور بھی کتنے لوگوں کی زندگیاں ختم کر دیتے ہیں؟ ان کو مسلمان تو نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی انسان۔ یہ پاگل لوگ ہیں، اپنے جنون سے مجبور۔
لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم نفرت اور جہالت سے آگے سوچیں۔ سوچیں ان تمام سوگواروں کے بارے میں، یتیم ہو جانے والے بچوں کے بارے میں، سوچیں اس تباہ ہونے والے معاشرے کے بارے میں۔
روز کوئی نہ کوئی سانحہ، کوئی نہ کوئی ہلاکت۔ کیا ہو گیا ہے ہمیں؟
خدا ہی خیر کرے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جب سر پہ پڑے تو خدا ياد آے اور جب کچھ وقت گزر جائے تو روشن خيالی اور زندہ دلی کی لاج رکھنے کے لئے سب خدا کو بھول جائيں خوشيوں ميں خدا کو بھلا کر غم ميں کس منہ سے مدد ما نگيں
تشدد اب صرف پاکستان بھارت يا تيسری دنيا کا مسئلہ نھيں بلکہ ايک عالمی مسءلہ ہےـ يہ جنگ اب لسانی ، مذھبي، نسلی يا فرقہ ورانہ حدوں سے نکل کر haves اور have nots کی جنگ بن چکی ہے- Global Village اب ايک just Social Order کا متقاضی ہے۔ اس کے بغير آپ دنيا ميں امن کا تصور نھيں کيا جا سکتا۔
عنبر سواۓ دُعا کے ہمارے پاس اور کوئی حل نہيں ہے کيونکہ بچپن سے ہی عادت ہے ہر پريشانی ميں اللہ کو ياد کرنے کی اُسی سے راہ نجات طلب کرنے کي، روزانہ ہر ہر دن کی ابتدا ايسے ہوتی ہے کہ کوئی نا کوئی بُری خبر پہلے سے انتظار ميں ہوتی ہے اور ابھی ہم ايک بُری خبر کے دُکھ سے اُبھر بھی نہيں پائے ہوتے کہ کوئی اور اُس سے بھی بُری اور اندوہناک خبر عقب سے ايسے نکل کر آ کھڑی ہوتی ہے کہ پچھلی خبر کا غم خود بخود مُندمل ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے بالکُل ايسے ہی جيسے کہ ايک کمرے ميں گُنجائش سے زيادہ سامان نہيں رکھا جا سکتا سو ہميں بھی خواہ مجبوری کے تحت ہی سہی ليکن ايک کے بعد ايک غموں کو يا حادثات کی اندوہناکی کو قبول کرتے رہنا پڑ رہا ہے شايد آج کے دور کے جديد تقاضوں کی طرح يہ بھی کوئی مجبوری رہی ہو گی کہ بندہ ان يکے بعد ديگرے ہونے والی پريشانيوں سے ہی ا پنا دامن نا چُھڑ ا پائے، يہ پلان حکومتوں کہ پھيلاۓ ہُوۓ وہ پھندے بھی ہو سکتے ہيں اور ہميں ان ہی ميں اُلجھا کر ساری توجّہ اُن مسائل سے ہٹانے کی ايک کوشش بھی کہی جا سکتی ہے ،ليکن عنبر جی يہ سب کرنے والے لوگ اگر بقول آپ کے صرف مُسلمان ہی ہيں تو کيا صرف نام مُسلمانوں سے رکھ لينے سے ہی کوئی ہندو، مُسلم يا کُچھ اور کسی بھی مزہب کا ہو سکتا ہے نہيں ان دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہيں ،کوئی نام کوئی نشانی بھی انسانوں والی نہيں کہلا سکتی انہوں نے صرف انسانوں کا بہروپ بھر رکھا ہے اور اس بہروپ کے دھوکے ميں ہم بار بار آتے رہتے ہيں ہم بھی تو ايسے ہی انسان ہيں نا کوئی کہيں کم ہوتا ہے کوئی تھوڑا زيادہ سو اسی وجہ سے ہم بھی اگلے دُکھ کو برداشت کرنے کا حوصلہ کر ہی ليتے ہيں نفرت اور جہالت سے ذرا آگے ہو کر اگر سوچيں تو يہ چھوٹے چھوٹے زخم اب ناسُور ہو گۓ ہيں جس کا نام معاشرہ ہے اور معاشرہ جن لوگوں سے بنا ہے وہ ہم ہی تو ہيں جو ہر بات ميں معاشرے کو لے آتے ہيں يا يونہی ہميں عادت ہو گئ ہے کسی نا کسی کو الزام دينے کی اب وہ معاشرہ ہو ياکوئی انسان ،حالانکہ اگر ديکھيں تو معاشرہ بھی تو ہم ہي ہيں ہم جيسے لوگوں سے ہی مل کر معاشرہ بنتا ہے اوران سب باتوں کے ذمے دار ہم خود ہی ہيں کسی دوسرے کو کيسے ہم الزام دے سکتے ہيں جب تک ہم اپنے کوخود ٹھيک نہيں کريں گے کوئی اور تو نہيں آۓ گا ہميں سنوارنے ہميں بھلے بُرے کی تميز دينے ان دُکھوں کے لۓ يا دُکھيوں کے لۓ سوچنے کی ، دعا اور دوا دونوں کی ضرورت ہے کہ ہربيماری اور بيمار کے لۓ صرف دُعا سے ہی نہيں کام چلتا دوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے
دعائيں سب کی خوشيوں کے لۓ
مع السلام
شاہدہ اکرم
اس ميں کوئی شک نہيں ہے کہ آئے دن تشدد کے واقعات نہ صرف دل دہلادينے والے ہيں بلکہ بہت سارے افراد کو اس کا شکار بنارہے ہيں-ضرورت اس بات کی ہے کہ محبت کا پيغام ہندو ہو کہ مسلم،سکھ ہو کہ عيسائی سب ہی تک پہونچانا چائے-اسلام کی تعليمات بھی يہی ہيں-اور اسی سے امن اور چين نصيب ہوسکتا ہے- کيا معلوم کہ کب کس ہو ہدايت نصيب ہوجائے-
محترمہ عنبر خيری صاحبہ
ميرا خيال ہے اب وقت آ گيا ہے کہ ہم اپنی دوستيوں اور اتحادوں کا ازسرِنو جائزہ ليں اور بعض دوستوں کو اپنی پراکسی وار پاکستان کی سرزمين پر لڑنے کی اجازت نہ ديں ورنہ ہمارا حشر عراقيوں سے مختلف نہ ہوگا - سابق سپيکر قومي اسمبلي اور بزرگ سياستدان صاحبزادہ فاروق علي خان بي بي سي پر تبصرہ شدہ اپني حاليہ سوانح عمری ” جمہوريت صبر طلب ” ميں رقم طراز ہيں :
” ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے ميں اسلامی سربراہانِ مملکت اپنے خارجہ معاملات ميں ہم سے راۓ طلب کرتے تھے - بڑے دکھ کي بات ہے کہ ميرے باوثوق ذرائع کے مطابق آج ہم اس مقام پہ آن پہنچےہيں کہ خارجہ معاملات ميں ہميں واشنگٹن سے کسی سربراہِ مملکت سے نہيں ... بلکہ سعودي سفارتخانہ اسلام آباد سے رجوع کرنے کو کہا جاتا ہے - ”
ہماري کوتاہ انديشيوں کي بدولت، اپني دولت کےسہارے آج کچھ دوست ہمارے معاملات ميں اس حد تک ملوث ہو چکے ہيں کہ ہماري پاليسيوں پر اثرانداز ہو رہے ہيں - ديني مدارس کي سرپرستي ميں ايک مخصوص نظريہ فکر منتقل ہورہا ہے جو ہمارے معاشرے کا شيرازہ بکھير رہا ہے - بڑھ رہي فرقہ واريت اور گوجرانوالہ ميں اعلٰي تعليم يافتہ ايک نوجوان خاتون وزير کا بہيمانہ قتل اسي نۓ طرزِ فکر کي مثاليں ہيں - ستم ظريفي ملاحظہ ہو کہ يہ رشتہ سعودي عوام کي بجاۓ سعودي شاہي خاندان سے ہے جسےامريکہ اور يورپ ميں نجي سرمايہ کاريوں پر اکتفا کرنےکي بجاۓ خود اپنے ملک اور عوام کے لۓ ابھي بہت کچھ کرنا ہے - ہم سے زيادہ اس توجہ اور مہرباني کي ضرورت اُدھر ہے - کہا جاتا ہے صدرِ پاکستان کا حاليہ دورہِ سعودي عرب اسي تناظر ميں تھا - خدا کرے ايسا ہی ہو!
تيل آج ہے کل نہيں - يا کسي اور کے قبضے ميں ہے - ہميں ان غير يقيني رفاقتوں پر اکتفا کرنے کي بجاۓ خود اپنے پيروں پر کھڑا ہونے کي فکر کرنا چاہيۓ - نيز اتحاد مماثلت اور برابری کی سطح پرہوتا ہے - اس لحاظ سے ہمارا قدرتي اور آئيڈيل اتحاد نہ تو چين اور نہ ہي سعودي عرب کے ساتھ بنتا ہے - يہ فقط ہماري ضرورتيں ہيں اور ايسے رشتے ضرورت نہ رہنے پر معدوم ہو جايا کرتے ہيں -
دوسري طرف ، جغرافيائي ، فکري ، لساني اور ثقافتي معاملات سميت زندگي کے ہرشعبے ميں جتني مماثلت ہند و پاکستان ميں ديکھي جا سکتي ہے غالبا” کہيں اور نہيں ملے گي - جملہ قدرتی وسائل اور ايک ذہين اور بے حد محنتی افرادی قوت کی دولت سے مالامال ، ايک دوسرے سے جُڑے يہ دونوں ملک قدرتي اور آئيڈيل اتحادي ہيں ... اگر سمجھ سکيں تو ! يہی عناصرکسي معاشرے کو ايک عظيم ملک بنا ديتے ہيں - اگر دونوں ملک مل کر چل سکيں تو دونوں کا بھلا ہے - خدا دوستوں کو سلامت رکھے ان کے ہم پہ بڑے احسانات ہيں ... ليکن کس قيمت پر؟ ميرا خيال ہے اب ہميں اپني ترجيحات کا ازسرِنو جائزہ لينا چاہيۓ ورنہ بہت دير ہوجاۓ گي اور يہ آئندہ نسلوں کےساتھ بہت بڑا ظلم ہو گا -
طوالتِ بيان پر معذرت کے ساتھ
دعاگو
رضا
آپ کو ٹرين والے واقعہ ميں مسلمانوں کو ملوثنھيں کرنا چاہیے يہ تو انڈيا کي زبان ہے ۔ وہ ھر واقعہ کا الزام جس ميں صرف مسلمان ہي مرتے ہوں
ان کا الزام بھي مسلمانوں پہ لگا ديتے ہيں جيسے مالے گاوں اور اب يہ ٹرين حادثہ رہا مسلمنوں کے خو کش حملے تو يہ تو وہ کانٹوں کا ہار ہے جو ہم نے فلسطين ميں يہوديوں کو پہنانے کي کوشش کي ليک انہوں نے ساري دنيا ميں يہ ہار ہميں پہنا ديا۔ اب غير مسلم تو سالوں ميں دو چار حملوں ک شکار ہوتے ہيں اور
مسلمانوں کا کوئي دن اس حملہ سے بچا ہوا نہيں ہے ۔اور يہ حملے زيادہ تر فرقہ ورانہ رنگ لیے ہيں مگر اصل ميں فرقہ ورانہ نہيں ہيں ان کے پلانر وہي ہيں جن کو اس سے فائدہ ہو رہا ہے اور آپ اندازہ لگا سکتے ہيں کہ فرقہ ورانہ تقسيم سے سوائے امريکا ، برطانيہ اور اسرائيل کے کوئي خوش نہيں ہے۔
محترمہ خيري صاحبہ ہميں يہ سوچنا ہوگا کہ يہ نفرت اور جہالت کس وجہ سے پيدا ہوتی ہے اور وہ کون سے عوامل ہيں جو ان کو بڑھاوا ديتے ہيںـ سياسي، معاشی ظلم، سماجی نا انصافی SOCIAL Injustice ان نفرتوں کو جنم ديتا ہے جو آگے چل کر معاشرے کے استبدادی عناصر کو ايندھن فراھم کرتيں ہيں۔
آپ نے ٹھيک لکھا ہے ميرے خيال ميں يہ سب جہالت اور تعليم کی کمی کی وجہ سے ہيں اور دوسری وجہ پاکستان کا سياسی نظام جس ميں اٹھانوے فيصد کريپٹ لوگ جو موجودہ حکومت ميں شامل ہيں-
عنبر جی بات تو لاکھ پتے کی کہی آپ نے
مگر کيا ہم نفرت اور جہالت سے آگے سوچ پائينگے؟ کاش ايسا ہوسکتا کاش مسلمان يہ سمجھتا کہ قتل و غارتگری ناقابل معافي گناہ ہے مگر ٹہريے !!پہلے يہ بتائيے کہ جو قتل و غارتگری کرتا ہے جو سر عام دھماکے کرتا ہے اور جو تخريب کاری کرنے سے پہلے يہ تک نہيں سوچتا کہ اس کی زد ميں آنے والے معصوم بچے ہوسکتے ہيں اور وہ لوگ ہوسکتے ہيں جو شائيد کسی کا سہاگ ہوں کسی کی اولاد ہوں کسی کے باپ ہوں اور کسی کا آُسرا ہوں مگر مارنے والے کے اگر جذبات ہوتے اگر وہ يہ سمجھ سکتا کہ مرنے والے تو مرجاتے ہيں مگر ان کے پيارے اپنے باپ کی بھاءی کی شوہر کی ماں کی بہن کی ياد ميں پل پل مرتے ہيں ہر پل نءی اذيت سے دوچار ہوتے ہيں اور ہر پل اپنے پياروں کو ياد کرتے روتے ہيں تو شاید اس طرح کی حرکت کرنے سے پہلے وہ سو بار سوچتا مگر افسوس کہ ہر حادثے کے بعد ہر دھماکے کے بعد اور ہر سانحے کے بعد ايک بار پھر شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ دنيا سے انسان ختم ہورہے ہيں- شايد بہت دھيرے دھيرے ۔۔اور اس دن کا سوچ کر دل دھڑکنے لگتا ہے کہ وہ کيسا پل ہوگا جب دنيا سے آخری انسان بھی ختم ہوجاءے گا ! کيا وہ دن آئے گا؟ کيا ہميں مايوس ہوجانا چاہيے؟ کيا قيامت سے پہلے قيامت آجائے گی ؟ کيا خدا نے اسی لیے دنيا بنائی تھی کہ لوگ پاگل ہوجائيں ؟ کيا ہوگا ہمارا ؟؟
مکرمی اے رضا صاحب مجھے نہيں لگتا کہ جامع دلاءيل پر مشتمل آپ کی معقول باتيں ہمارے حکمرانوں کو پسند آئنگی کاش کہ ہند و پاک کےحکمران باہمی اشتراک اتحاد اور اخلاص کے ساتھ اس جانب پيشرفت کريں۔ کاش۔
نيک خواہشات کے ساتھ دعاووں کا طالب سجاد الحسنين
محترمہ بہن عنبر خيری صاحبہ
آپ نے سچ لکھا ہے- اسوقت ہر پاکستانی کا کوئی نہ کوئی عزيز رياست ميں ہونے والی دھشت گردی کا شکار ہے- ميرے ہونے والے داماد کو لٹيروں نے کراچی ميں گولی مار قتل کر ديا- ايک قريبی عزييز مسجد ميں اور امام بارگاہ ميں بم کا شکار ہوۓ-
يہ دھشت گردی ہمارے فوجی حکمرانوں کی ناکام پاليسيوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی اقتصادی بدحالی کے سبب تو ہو ہی رہی ہيں مگر عالمی طاقتوں کی اور خصوصا” امريکہ کی شہہ پر قائم حکومتوں کے سبب ہے-
ہوا کے دوش پر ہوں آج تو بد گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھيں گے ہوا کسی کی نہيں-
خدا آپکو اپنی حفاظت ميں رکھے-
دعا گو
مياں آصف محمود
ميری لينڈ
امريکہ