پاکستان کی مختصر ترین تاریخ
11اگست 1947۔
آج کے بعد مملکتِ خداداد میں ہندو ہندو نہیں رہے گا۔ عیسائی عیسائی نہیں اور مسلمان مسلمان نہیں۔
مذہبی معنوں میں نہیں بلکہ سیاسی معنوں میں۔ ریاست کے نزدیک سب لوگ بلا امتیازِ مذہب و ملت برابر کے شہری ہوں گے۔ (قائداعظم کا آئین ساز اسمبلی سے خطاب)
1949
قرار دادِ مقاصد آئین کا حصہ بنا دی گئی جس کے تحت قرآن و سنت کے منافی قانون
سازی نہیں ہوگی۔ قانون سازی میں قران و سنت سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔
1970
سو سے زائد علما نے ذوالفقار علی بھٹو کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
1974
ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو اسلام سے خارج کردیا۔
1979
بھٹو کو پھانسی دینے والے جنرل ضیاالحق نے حدود آرڈینس کا اجرا کردیا۔ زنا آرڈیننس کے تحت زنا بالرضا اور بالجبر یکساں جرم ہوں گے۔عورت کی گواہی آدھی ۔توہین رسالت کے مرتکب افراد کو عمر قید ہوسکتی ہے
1984
شق 295 سی کے تحت توہینِ رسالت کے مرتکب کو سزائے موت ملے گی۔
1988
مولانا فضل الرحمان سمیت متعدد جئید علما نے عورت (بے نظیر بھٹو) کی حکمرانی کو غیر شرعی قرار دے دیا۔
99-1989
کشمیر اور افغانستان کے لئے نئی ریکروٹمنٹ، جہادی تنظیموں کا فروغ۔ شیعہ سنی عبادت گاہوں پر حملے۔ شیعہ سنی رہنماؤں اور عام لوگوں کے قتل کی لہر۔ توہین رسالت کے الزامات سے بری ہونے متعدد لوگوں کا قتل۔ اقلیتی عبادت گاہوں اور لوگوں پر حملے۔ طالبان کا کابل پر قبضہ۔ نواز شریف کا نفاذِ شریعت بل۔ جنرل مشرف کی آمد۔
6-2001
نائن الیون۔ طالبان حکومت کا خاتمہ۔ وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی کاروائی۔ جہادی تنظیموں پر پابندی۔ مدرسوں کی رجسٹریشن۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت۔ حسبہ بل۔ حقوقِ نسواں بل کی مزاحمت۔ نصابِ تعلیم میں تبدیلی کی کوشش اور مزاحمت۔ گرلز اسکولوں پر حملے۔ میوزک کی دوکانوں، کیبل ٹی وی، سی ڈیز کے جلانے کا رحجان۔ وزیرستان میں طالبان سے امن سمجھوتہ۔
2007
بے پردگی کے جرم میں چار ماڈل گرلز کے اعترافی قاتل مولوی محمد سرور نے عدالت سے بری ہونے کے بعد پنجاب کی سوشل ویلفئر کی وزیر ظلِ ہما عثمان کو قتل کردیا۔ باجوڑ میں پولیو کی ویکسینیشن کرنے والے ایک ڈاکٹر کا قتل۔ سوات اور دیگر علاقوں میں متعدد لوگوں نے اپنے بچوں کی پولیو ویکسینیشن سے انکار کردیا۔ ایک عالم نے فتوی دیا ہے کہ بیماری سے پہلے اسکا علاج (یعنی ویکسینیشن) غیر شرعی ہے۔ وبا میں مرنے والا اللہ کے نزدیک شہید ہے۔
Moral of the Story
ہور چوپو
تبصرےتبصرہ کریں
سب سے دلچسپ تو مورل آف دی اسٹوری ہے۔ وسعت بھائی آپ نے صرف تاريخ کے پنے نہيں الٹے ہيں بلکہ موجودہ حکمرانوں کو کچھ پڑھانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ويسے قائد اعظم کا يہ اعلان کہ ’مملکت خداداد ميں آج کے بعد ہندو ہندو نہيں رہے گا، عيسائی عيسائی نہيں اور مسلمان مسلمان نہيں ‘ مگر کيا آپ کو نہيں لگتا کہ آج کے حکمرانوں نے تکرار کی قطعی زحمت گوارہ نہيں کی۔
اس ميں کوئی شک نہيں کہ آپ کے بلاگز بہت دلچسپ ہوتے ہيں مگر اب کی بار يا تو ميں سمجھ نھيں پايا يا آپ بتا نہيں پائے کہ آخر کہنا کيا چاہ رہے ہيں۔
جناب وسعت صاحب آپ تو مرحومہ ظل ہما صاحبہ کے قاتل کے ليے مولوی کا لفظ استعمال نہ کريں۔ يہ شخص کسی طرف سے مولوی نہيں ہے۔ نہ ہی يہ مولوی کے نام سے اپنے علاقہ ميں مشہور تھا۔ ليکن روشن خيال ميڈيا نے اس واقعہ کے بعد اسے اس نام سے مشہور کر ديا۔ رہی بات قائد اعظم کی 11 اگست والی تقرير کی تو جناب کوئی اسلام کا صحيح فہم رکھنے والا شخص اس سے سيکولر معاشرت نہيں نکال سکتا۔ چليں يہ بھی مان ليں کہ اس تقرير سے سيکولرازم کی بو آتی ہے تو قائد کی ان بےشمار تقريروں کو آپ کہاں لے کر جائيں گے جن میں دو ٹوک اس بات کا اعلان کيا گيا ہے کہ پاکستان ميں قرآن و سنت کی عملداری ہو گي۔
محترم وسعت اللہ خان صاحب ، آداب عرض ۔
انتہائی خوبصورتی سے آپ نے سال بہ سال، منظر بہ منظر ياداشتيں پوري سچائی سے سُپردِ قلم کرديں۔
جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا
بلا سے شہر ميں ميرا لہو بہا سو بہا
اپنا اور اپنے قلم کا خيال رکھيئے گا۔ خدا مزيد وسعتِ قلم عطا کرے
خير انديش
سيد رضا
وسعت بھائی اب تو يہ عالم ہے کہ چوپنے والے بھی ماضی کا قصہ ہونے والے ہيں جو ملک قائد اعظم اور ان کے ساتھيوں نے بڑی مشکل سےحاصل کيا تھا اور بقول قائد ’آج کے بعد مملکتِ خداداد میں ہندو ہندو نہیں رہے گا۔ عیسائی عیسائی نہیں اور مسلمان مسلمان نہیں۔ مذہبی معنوں میں نہیں بلکہ سیاسی معنوں میں۔ ریاست کے نزدیک سب لوگ بلا امتیازِ مذہب و ملت برابر کے شہری ہوں گے‘ کے بر عکس ملاؤں نے اغوا کر ليا اور پھر آنکھوں نے شرم ناک منظر ديکھے واقعات سنے اور بگھتے بھي بالکہ حنوز بھگت رہے ہيں۔
ميں نے انسان کو کيا قتل خدا کی خاطر
يہ عمل لے کر چلا روز ِجزا کی خاطر
محمد علی جناح ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے باشعور رہنما تھے۔ لیکن بعد میں آنے والوں نے ملک ان لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیا جو اس کے قیام کے ہی مخالف تھے اور جو ملک بنانے میں شانہ بشانہ تھے ان کو غدار قرار دیدو اور خود مالک بن بیٹھو۔ ظلم یہیں ختم نہیں ہوتا، تاریخ بدل ڈالو، دھونس دھاندلی سے نعرے لگا کر کسی کو غدار قرار دو، کسی کو اسرائیل کا ایجنٹ کہو، ملک میں فرقہ واریت پھیلاؤ پھر دیکھو کیسے ترقی کرتا ہے۔ یہی ان لوگوں کا ایجنڈا تھا جس میں وہ کامیاب ہیں۔
خان صاحب يہ پاکستان کی ماضی کی تاريخ کی روشنی ميں ذرا مستقبل پر بھی روشنی ڈالئے!
ہميشہ کی طرح وُسعت بھائی لگتا ہے دل کھول کر رکھ ديا ہے آپ نے اور ساتھ ساتھ ہميں بھی اس بے چينی ميں ڈال ديا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہيں۔ ان اعداد و شُمار کو تاريخوں کے ساتھ ديکھ کر تو ايسا لگتا ہے ترقی کی کسی منزل کو ہم نے کبھی چُھوا ہی نہيں بس صرف اُلٹے سيدھے بل پاس کرتے اور کرواتے رہتے ہيں اور خود کو کوئی طُرّم خان قسم کی چيزسمجھ ليتے ہيں حالانکہ مملکت خُداداد کو مملکت خُداداد بنانے والے توشايد خود خدائی کے دعوے دار بن رہے ہيں۔