تیسرا چہرہ غائب
میں نے پاکستان کی آزادی کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر اپنی سیریز کے سلسلے میں یہاں کے مختلف مکاتب فکر سے ملاقات کی جن میں ملک کی تقریباً نصف آبادی میری توجہ کا خاصا مرکز ہے۔
اس بات پر اطمینان ہوا کہ پہلی بار عورتوں میں اپنے حقوق کے تئیں بیداری اجاگر ہوئی ہے اور کسی حد تک اپنی بات کہنے کی جرات بھی مگر چونکہ معاشرہ سخت ترین رواجوں، رسموں اور روایتوں میں جکڑا ہوا ہے لہذا بیشتر عورتیں ابھی مرد کے بغیر بات کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔
اس بار مجھے پاکستانی معاشرے میں ایک زبردست تبدیلی دیکھنے کو ملی جس کے باعث دو چہروں والے ملک میں تیسرا چہرہ بلکل غائب لگ رہا ہے۔
ایک چہرہ مذہبی اور کٹر پرستوں کا ہے جو عورتوں کو پردہ کرنے، گھروں تک محدود رکھنے اور درجنوں بچے پیدا کرنے کی تبلیغ کرتا ہے، ملک کو اسلامی معاشرہ بنانے کی جہدو جہد کر رہا ہے اور یہ رحجان گاؤں سے پھیل کر شہروں میں بڑھتا جا رہا ہے۔
دوسرا چہرہ ان لوگوں کا ہے جو نہ صرف ماڈرن ہیں بلکہ الٹرا ماڈرن بھی اور پاکستان کو مغربی معاشرے کے قریب لانے کے درپے ہیں۔ ان کا اثر نوجوان طبقے پر خاصا ہے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کو ان سے دور رکھنے کی غرص سے مذہبی عناصر کے قریب آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ الٹرا ماڈرن طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو گلوبل فیملیز کہلاتی ہیں اور مذہبی معاشرے کی قید سے آزاد ہوچکی ہیں۔
ان دو چہروں کے بیچ میں جو چہرہ نایاب ہوتا جا رہا ہے، وہ روشن خیال اعتدال پسند اور تہذیب و ثقافت کے دائرے میں زندگی گزارنے والوں کا تھا۔ وہ مذہبی اور الٹرا ماڈرن چہروں کے بیچ میں خود کو بے یارو مدگار اور بے بس محسوس کر رہا ہے اور ان کی بات نہ کوئی سنتا ہے اور نہ انہیں اپنی بات کہنے کا شاید سلیقہ آیا ہے۔
ساٹھ سال کے پاکستان میں سب سے زیادہ زوال پزیر اعتدال پسند طبقہ ہے۔ اگر حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اگلے ساٹھ برسوں میں یہ طبقہ صرف کتابوں میں نظر آئے گا۔