طاہر صاحب کے لیے
میرے لیے طاہر مرزا کی بیماری کی خبر ان کی موت کی خبر سے زیادہ بڑا دھچکہ تھی۔
کیونکہ ان کے متعلق تو میں ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ وہ سینیئر ایڈیٹروں میں سے سب جوان ایڈیٹر تھے۔ جوان اس لیے کہ وہ ایک خوش شکل انسان تو تھے ہی وہ خوش لباس بھی بہت تھے اور ہمیشہ چاق و چوبند۔
طاہر مرزا میرے لیے ہمیشہ سر، طاہر صاحب اور انکل کے درمیان رہے ہیں۔ لیکن میری ان سے اکثر ملاقات ڈان اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر ہی رہی ہے، سوائے ان کے گھر کے جہاں وہ کبھی کبھار کوئی صحافتی یا غیر صحافتی پارٹی کر لیا کرتے تھے۔ ان کا ماڈل ٹاؤن لاہور کا خوبصورت گھر اس کام کے لیے بہت موزوں تھا۔
آب کبھی ان کے دفتر ان سے ملنے جائیں وہ ہمیشہ آپ کو کسی رپورٹر کی کاپی پڑھتے ہوئے نظر آتے۔ میری ان کے دفتر میں پہلی ملاقات بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ وہ کتنی تیز ایڈٹنگ کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ ہم سے بات بھی۔ اور آخر میں وہ اکثر ایڈٹ کی ہوئی کاپی کسی کو دکھا کر کہتے تھے کہ دیکھیں بھئی ٹھیک تو ہے نہ۔
طاہر مرزا دوستوں کی نظر میں
مجھے یاد ہے کہ عامر مرزا نے جب کچھ عرصے کے لیے نیوز اخبار میں نوکری کی تو اسے شہر کی تصاویر والے ایک صفحے پر کیپشن لکھنے کے لیے کہا گیا۔ اس نے وہ کیپشن بہت خوبصورت لکھے۔ اگر میری یادداشت میرا ساتھ دے رہی ہے تو وہ سب ہی غالب کی شاعری کی طرز پر تھے۔ ہم سب نے وہ کیپشن بہت پسند کیے اور نوجوان عامر کو بہت داد دی۔ اگلے دن جب عامر دفتر آیا تو بولا کہ ابا نے ڈانٹ پلائی اور کہا کہ یہ کیا لکھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ طاہر صاحب کو بھی وہ بہت اچھے لگے ہوں گے۔
طاہر صاحب سے اکثر ملاقاتیں پریس کلب میں ہوں جاتیں۔ لیکن ان سے زیادہ ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب میں اور اشعر رحمان (موجودہ ایڈیٹر لاہور ڈان) کویت ٹائمز سے استعفیٰ دے کر لاہور آئے اور نوکری ڈھونڈنے لگے۔ پہلی آفر ہمیں طاہر صاحب کی طرف سے ہی ہوئی۔ انہوں نے ڈان کے دفتر بلایا اور کہا کہ کام کریں۔ طاہر صاحب سے پیسے ویسے کی بات ہو نہیں سکتی اور نہ ہی ہم شاید ان سے کر سکتے تھے، اس لیے حامی بھر لی۔ ڈان اخبار کے مرحوم ایڈیٹر احمد علی خان اس وقت بیمار تھے اور شاید ان کے دستخط ہماری نوکریوں کے لیے ضروری تھے اس لیے اس کام میں کچھ دن لگ گئے اور اسی دوران ہمیں نیوز سے آفر ہو گئی جو کہ ہماری شرائط کے مطابق تھی اس لیے وہ منظور کر لی۔ مجھے یاد ہے کہ جب کراچی سے دستخط ہو کہ آ گئے تو طاہر صاحب نے ہمیں بلایا اور کہا کہ بھئی ذرا انتظار کر لیتے۔ مجھے معلوم ہے کہ انہیں غصہ آیا تھا لیکن اسے دکھانا ان کی فطرت میں نہیں تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کچھ نہیں کہا۔
میری طرف سے دوسری زیادتی اس وقت ہوئی جب خلیج ٹائمز والوں نے دبئی میں نوکری کی آفر کی اور ان کے ایڈیٹر نہال سنگھ نے طاہر صاحب سے پوچھا۔ طاہر صاحب نے مجھے فون کیا اور میں نے آفر دیکھ کر ہاں کر دی۔ میری بیوی کو دبئی جانے کا بہت شوق تھا۔ پر میں کیونکہ خلیجی ملک میں پہلے نوکری کر چکا تھا اس لیے میں تذبذب کا شکار تھا کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ میرا زیادہ من نہ جانے کو کرتا تھا۔ اسی طرح کانٹریکٹ آ گیا، میں نے سائن بھی کر دیا اور اسناد کی کاپیاں بھی وزارتِ خارجہ تصدیق ہو کہ آ گئیں۔ لیکن اس دوران نہ جانے کا ارادہ پختہ ہوتا گیا۔ آخر بیوی نے ایک دن کہہ ہی دیا کہ اگر نہیں جانا چاہتے نہ جاؤ اتنے اداس کیوں ہو گئے ہو۔ بس اسی کی دیر تھی فوراً خلیج ٹائمز کو لکھا کہ میں نہیں آنا چاہتا۔ طاہر صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو پھر وہی شرمندگی۔ انہوں نے کہا کہ عارف اگر نہیں جانا چاہتے تھے تو پہلے ہی بتا دیتے۔ خلیج ٹائمز کا ایڈیٹر میرا دوست ہے وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا۔
بس طاہر صاحب کے سامنے وہ شرمندگی آج تک ہے اور شاید ہمیشہ رہے گی۔
تبصرےتبصرہ کریں
ميں آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں مجھے بھی دکھ ہوا کہ صحافت کا ايک ستون گر گيا۔
واہ بھائی عارف شميم صاحب
کمال کرتے ہيں طاہر مرزا کے انتقال کے بعد ان کی تعريف مں تو بہت سوں نے لکھا اپنی غلطی کا اظہار جس طرح آپ نے کيا ہے وہ آپکی ہی ہمت ہے اور مرزا صاحب کی اعلٰی مزاجي بہر حال انہی کا خاصہ تھا- خدا مرحوم کی مغفرت فرمائے آپ اور لواحقين کو صبر جميل۔
دعا گو
مياں آصف محمود
امريکہ
انا للہ وانا اليہ راجعون ۔۔
محترم عارف شميم صاحب ، سلام عرضِ خدمت ہے ، سب سے پہلے ميری طرف سے طاہر مرزا مرحوم کی انتقال پُر ملال پر تعزيت قبول فرمائيں ۔ اور اس تعزيعتی پيغام کو مرحوم کے لواحقين تک بھی پہنچا ديں ۔
حضرت علی کا قول ہے کہ ۔۔ ’ايسے جيو کہ زندہ رہو تو لوگ تم سے ملنے کے مشتاق رہيں اور جب مر جاؤ تو تم پر روئيں ۔‘ ٰ
مرحوم و مغفور طاہر مرزا کے بارے ميں بی بی سي اردو ڈاٹ کام پران کے دوستوں کی باتيں اور آپ کا تفصيلی بلاگ پڑھ کر ايسا ہی لگا کہ طاہر صاحب ايسے ہی کردار کے حامل تھے ۔
ميری دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے خانوادے کو صبرِ جميل عطا فرمائے۔
يقيناً ان کی يادوں اور چاہتوں کے گلاب ہميشہ مہکتے رہيں گے۔
دعا گو
سيد رضا
موت اس کی ہے جس پہ کرے زمانہ افسوس۔ حقيقت ميں طاہر صاحب کی موت سے ہم ايک بہترين صحافی سے محروم ہوچکے ہيں۔اللہ تعاليٰ ہميں اس کا بدل عطا فرمائے اور طاہر صاحب کے لواحقين کو صبرجميل عطا کرے۔ (آمين)
شميم صاحب السلام عليکم
طاہر صاحب کے انتقال کی خبر سب سے پہلے ميں نے بی بی سی ہی ميں پڑھی تھی۔
انااللہ و انا اليہ راجعون
اور اب جب آپ کا بلاگ پڑھا تو ان کی عظمت کا بھی قائل ہوگيا۔ آپ کا دکھ بجا ہے اتنے قريبی تھے وہ آپ کے اور آپ کتنا چاہتے تھے انہيں گو آپ نے الفاظ کا سہارا نہيں ليا ہے مگر بلاگ کی سادگی سے آپ کے جذ بات کي شدت صاف عياں ہوجاتي ہے۔ آپ کے عزيز اور پاکستان کے ايک جيد صحافی کے انتقال پر ملال پر ميں آپ سے بھرپور تعزيت کا اظہار کرتا ہوں۔ خدا سے دعا ہے کہ طاہر صاحب کو جنت الفردوس ميں جگہ عطا کرے۔
غمزدہ سجادالحسنين، حيدرآباد دکن
عارف شميم بھائی آپ کا بلاگ ايسا دل کو لگا ہے کہ دل دُکھ سے بھر گيا ہے۔ پياروں کا دُور جانا ايسے ہی دُکھی کيا کرتا ہے۔ دعا ہے کہ وہ آپ کو اور آپ کے دوست کے گھر والوں کو صبر جميل عطا کرے اور طاہر صاحب کے درجات بُلند کرے۔ ،آ مين
دعاگو
شاہدہ اکرم
شمیم بھائی
آج یہاں ماڈل ٹاون لاہور میں، میرے گھر کے پاس ہی، طاہر صاحب کو زمین کے سپرد کر دیا گیا۔
سبھی دوست وہاں تھے۔ آئی اے رحمان، نقی صاحب اور وہ سب جو پاکستان میں لکھے ہوئے حرف کی آبرو ہیں۔ اب رات کے قریب تین بجے آپ کا بلاگ دیکھا۔ طاہر مرزا کا جانا ہم سب کا نقصان ہے، پاکستان کا نقصان ہو گیا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں ادارے اور تہذیب زندہ ہیں، انسانوں کے رخصت ہونے پر ان کی قابلِ فخر کارکردگی پر خوشی منائی جاتی ہے۔ ہمیں یہ خوف آ لیتا ہے، دوستو قافلہ درد کا اب کیا ہو گا؟
یہ نہ تو کوئی تعزیت ہے اور نہ کوئی تسلی، بس میرا جی چاہا آپ سے بات کرنے کو۔ آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے۔
وجاہت مسعود
بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ويران کر گيا