پاکستان سے ایک اچھی خبر
میں نے سرگودھا میں ایک دوست سے فون پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں کوئی نئی بات پوچھی۔ اس نےاور باتوں کے علاوہ کہا کہ اپنے شیخ صاحب سیاسی ہو گئے ہیں۔
میرے دوست نے اور باتوں کے علاوہ کہا کہ اپنے شیخ صاحب سیاسی ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ سیاسی تو وہ پہلے ہی تھے۔ لیکن معلوم ہوا کہ بات آگے بڑھ گئی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ کسی بھی جماعت یا تنظیم کی کال پر احتجاج کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور انتہائی متحرک ہو چکے ہیں۔
ہمارے پرانےدوست شیخ صاحب ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی سیاست میں دلچسپی ہمیشہ سے رہی ہے لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنے نظریات کے لیے عملی جدوجہد بھی کر سکتے ہیں۔ میرے دوست نے بات ختم کرتے ہوئے پنجابی میں کہا کہ شیخ صاحب نہ صرف احتجاج پر جاتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ’ایس حکومت دے خلاف میں خون دے دینا اے‘۔
اسی طرح میں نے پاکستان میں ایک وکیل سے فون پر پوچھا کہ کوئی اچھی خبر ہے تو اس نے کہا کہ سینکڑوں غیر سیاسی لوگوں کی گرفتاریاں اور ہزاروں کی پولیس کے ہاتھوں مار پیٹ۔ اس نے کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ایسے ایسےلوگ متحرک نظر آ رہے ہیں جنہیں اگر مار نہ پڑتی تو شاید وہ ہمیشہ کی طرح اپنے کام کاج میں لگے رہتے، لیکن اب ایسا نہیں۔ مار کھانے والوں میں ایسے طبقات اور تعلیمی اداروں کے طلباء بھی شامل تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا پاکستان سے کم ہی لینا دینا ہے اور ان اداروں کو بے دھڑک ’مغرب زدہ‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اب یہاں کے بہت سے طلباء حکومت مخالف مہم کا کسی نہ کسی طرح حصہ بن گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ سمیت کئی لوگ اب شادیوں اور نجی محفلوں میں بھی سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہو رہے ہیں۔
اس سب صورتحال میں اچھی بات یہ نہیں کہ لوگ حکومت کے خلاف ہو گئے (کیونکہ وہ تو ہر شخص کو اپنی رائے کا حق حاصل ہے) بلکہ اچھی بات یہ ہے کہ نئے لوگ متحرک ہوئے جو اپنے اور ملکی مسائل کے حل لیے عملی اقدامات پر بھی تیار ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
اسد بھائی ايسے لوگ آٹے ميں نمک کے برابر ہيںـ افسوس تو سياسي جماعتوں اور انکے کارکنان پر ہے جومتحرک نہيں ہوئے باہر نہيں آئے
اسد بھائی اسلام عليکم
ايک طويل عرصے بعد آپ کا بلاگ ديکھا اچھا لگا - گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان کی سياست انڈيا ميں بھی چھائی ہوئی ہے۔ اخبار اور چينلوں کی ليڈنگ اسٹوری مشرف سے شروع ہوتی ہے اور بے نظير پہ ختم ہوتی ہے - ايمرجنسی مارشل لا ء شايد ہم لوگوں کے لیے نئی باتيں رہی ہوں ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس دوران پاکستان ميں ہونے والے مظاہروں نے نئی نسل کو انقلاب اور جدو جہد سے روشناس ضرور کرايا ہے - ديش کی آزادی اور اس کے لیے کی جانے والی جدوجہد نئی نسل کے لیے ايک افسانے سے زيادہ کچھ نہيں ہوتی مگر جب حالات پلٹا کھاتے ہيں تو شايد بيداری يا پھر تحريک فطرت انسانی کو ابھارنے کا باعث بنتی ہے آپ کو حيرت ہوگی کے ہمارے ہاں پندرہ اگست يا چھبيس جنوری پر لوگوں ميں پہلے جيسا جوش و جذبہ نہيں ديکھا جاتا -اور پرانے لوگ نئی نسل کی اس لاپروہی پر مايوسی سے سر ہلاتے نظر آتے ہيں - يہ خوش آئند ہے کہ ايمرجنسی نے پاکستان ميں نئی نسل کو نہ صرف سڑکوں پر لايا ہے بلکہ حب الوطنی کے جذبے سے بھی شرشار کروايا ہے - شايد اس طرح کی پڑنے والی افتاديں ضمير کو جھنجوڑ ديتی ہيں
آپ کو يہ جان کر حيرت ہوگی کہ پاکستان کے حالات جاننے کے لیے لوگوں نے يہاں پر جيو جيسے چينلوں کا تقاضا بھی شروع کرديا ہے شايد يہ بھی بيداری کی ايک نئی شکل ہو ويسے اللہ کا فضل ہے کہ انڈيا نے کبھی بھی فوج کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے نہيں ديکھا ہے مستقبل قريب ميں بھی حالات ايسے نظر نہيں آتے
اسد بھائی ايک بات پوچھوں يہ شميم بھائي عنبر جي نعيمہ جي نے اچانک بلاگ لکھنے کيوں چھوڑديے ؟؟ مصروفيت يا پھر فوجي حکومت کي دھمکياں !!! بے چارے وسعت بھائي اور حسن صاحب آخر کب تک ان صفحات کا بار اپنے کندھوں پر سنبھالتے رہينگےکہيں وہ بھي بور نہ ہوجائيں!!!!!!!!!!!!!
خير انديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن
اس سے اچھی بات اور بھلا کيا ھو گی
جی ہاں
آپ کی راۓ سے 100فيصد اتفاق کرتا ہوں
کہ ميڈيا نے عام انسان ميں شعور بيدار کيا ہے- بيشک فی الوقت يہ بہت کم ہے ليکن آنے والے وقتوں ميں يہ شعور اور زيادہ شدومد سے بلند ہو گا جو کہ ايک مثبت پيش رفت ہے بہتر اور فعال معاشرے کيلے-
~کھول آنکھ ذميں ديکھ فلک ديکھ فضاء ديکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوۓ سورج کو زرا ديکھ
واپسی مبارک ہو اسد علي چودھری صاحب - اب تو بالکل نظر نہيں آتے - اميد ہے خيريت سے ہوں گے - کيا مستقل حالت سفر ميں رہتے ہيں يا کوئی اور دلچسپی ڈھونڈ لي ہے جناب ؟ بہرحال خوش رہيۓ - آپ کی صحت اور تندرستي کے لۓ دعاگو ہوں -
موضوع کے تناظر ميں گزارش ہے کہ لوگ تو پھٹنے کوتيار بيٹھے ہيں ليکن حکمران خوش قسمت نظر آتے ہيں کہ بارود کے اس ڈھير کو دياسلائی دکھانے والا کوئي نہيں ہے - ورنہ فيصلہ ہو چکا ہوتا -
1999ء سے2002ء تک ماہر ٹيکنوکريٹ وزراء کی ايک مختصر کابينہ کےساتھ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرنے والے جنرل مشرف وہ چيف ايگزيکٹيو تھے اعداد و شمار جن کی نوک زبان پر ہوتے تھے- پريس کانفرنس يا دوران گفتگو بغير نوٹس کے ترقياتي منصوبوں پر مفصل گفتگو کرتے تھے جو ان کي دلچسپي اور لگن کا منہ بولتا ثبوت تھا- ملک پٹڑی پر چڑھ چکا تھا- معيشت کے ضمن ميں بہتر رپورٹيں آنے لگي تھيں اور سرمايہ کاروں کا اعتماد بحال ہوچکا تھا- ذرا استحکام ديکھ کر آزاد اور شفاف انتخابات کروا کر گھرلوٹ جاتے تو قوم ان کی دہليز چومنے کو آتی ساری عمر - قائداعظم کےبعد غالبا” محترم ترين شخصيت قرار پاتے ليکن برا ہو ہوسِ اقتدار کا جس نے کیے کرائے پر پانی پھير کر آج کہيں کا نہ رکھا- جن کي شکل ديکھنے کے روادار نہ تھے تحفظ اقتدار کے لۓ انہي کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑا - خود ابوظبي جا کر انہيں واپس لائے اور لگتا ہے معاملہ طے نہ ہونے پر اب اسي ضمن ميں جدہ بھي تشريف لے جا رہے ہيں جبکہ مياں صاحب اينٹھے ہوئے ہيں کہ جا نئيں ملدا !
ايک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر انہوں نے اپني دانست ميں يقينا’ کوئي نيا کام نہيں کيا تھا ليکن بدقسمتي سے وقت ايک سا نہيں رہا - واشنگٹن کي گھٹتي گرم جوشي اور بيباک ہو چکي پاکستاني عدليہ کےاس نۓ دور ميں ان کي حالت شير کےاس سوار جيسی ہے جو ڈرتا ہے اترنے پر پھاڑ کھايا جائے گا - انا کو ايک طرف رکھتے ہوئے اب وہ کسي بھي چھتري تلے آ نے کو تيار ہيں جبکہ فريق مخالف انہيں ناک سے لکيريں کھنچوانے پر آمادہ نظر آتا ہے - اس کشمکش ميں ملک کدھر جا رہا ہے اس سے کسي کو کوئي سروکار نظر نہيں آتا ہے -
ہم ایمرجنسی کی پر زور مذمت کرتے ہیں
ہمارا يہی خيال ھے کہ اس ايمرجنسی نے ہميں بہت کچھ سکھايا ہے ليکن آج بھی سوال وہی ہے کہ کيا ہم اس بار بھی کچھ سوچنے اور سيکھنے کا کشٹ اٹھا سکتے ہیں؟ اگر يہ ايمرجنسی بھی حکمرانون کو ہضم ہوگئی تو يقين رکھيں ھماری حيثيت دھوبی کے کتے کی طرح رہ جائے گي۔
اسد بھائی اس بلاگ ميں اور آج کل ہر طرف ايک ہی جيسی باتوں کا دور دورہ ہے ليکن کيا کيجيئے گا کہ ہم صرف باتوں کے يا کاغذي گھوڑے ہی دوڑا سکتے ہيں کيُونکہ يہی ہمارے بس ميں ہے اور ميں وطن ميں رہتے ہُوئے اپنے ہم وطنوں کی جُراءتوں کو سلام کرتی ہُوں جو اس آپا دھاپی کے وقت اپنی آواز بُلند کرنے کو کُچھ بھی کر رہے ہيں خواہ وہ کالی پٹياں ہی کيُوں نا ہوں کہ غلط بات کو دل سے ہی بے شک بُرا سمجھ ليں گو يہ ايمان کا ادنيٰ درجہ ہے اور اتنی دُور بيٹھ کر ہم صرف ايمان کے اس ادنيٰ درجے پر ہی عمل کر سکتے ہيں ميں دُعاگو ہُوں اپنے وطن اور وطن کے لوگوں کے لۓ نيک خواہشات کے ساتھ ساتھ اچھے اور خُوش آئند مُستقبل کی اللہ تعاليٰ قبُول کرے، آمين
مع السلام
شاہدہ اکرم
شکر الحمد
سرگودھا کے شيخ صاحب کے ارادے اتنے نيک ہيں وگرنہ سيالکوٹ کے شيخوں نے تو عوام کا خون تک پي ليا مگر کسی نے کچھ نہ کہا۔
اگر سعودی شيخ آپ کا کالم اردو ميں پڑھ سکتے تو شائد وہ خون تو نہيں مگر کچھ تيل ضرور پاکستان کے غريبوں کے نام بطور عطيہ ديتے۔
پہلے جب کبھی مار کھانےکا پروگرام ہوتا تو بازار کسی لڑکی کو چھیڑ دیتے لیکن آج کل زمانہ بدل گیا ہے اور اب اگر جوتھے کھانے کا دل کرے تو آپ کہیں بھی جناب عزت مآب جنرل سید پرویز مشرف کی تھوڑی تعریف کر دیں۔ وہ جوتے پڑیں گے اور وہ بھی بے حساب کے آپ خوشحال، روشن خیام موڈریٹ نظر آئیں گے۔
بھٹو صاحب نے ايک بار پشاور کے جلسے ميں سہگل کا گانا’ائی ہوا چلی چلے‘ گاتے کہا تھا کہ ملک ميں جاگيرداری سرمايہ داری کے خلاف خوشگوار ہوا چلی ہے مگر آج يہ ہوا احتجاجی بھاہيوں کو ’گو مشرف گو‘ کی سمت جمع کرنے لگی ہے جو امريکی جارحيت کے سمبل بن گۓ حالانکہ مشرف خود ايسے نہيں۔ ہوا کی چلن انہيں ايسا دکھاۓ ہے مطلب يہ کہ کيا ايسی ہوائياں اڑانے والوں کا سراغ لگ سکتا ہے؟ اپ ہی ذرا کوشش کر دکھايں شکريہ
يہ دستور زباں بندی ہے کيسا تيری محفل ميں
يہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں ميری
آپ نے بلکل صحیح بات کی نشاندہی کی۔ دعا یہ ہے کہ خدا اب ان ہی لوگوں میں سے کوئی لوگوں میں سے کوئی لیڈر بھی عطا کردے۔
طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگر ۔ ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحرنہ ہو