تین سردار ایک جنرل
بلوچستان کے پہاڑوں پر پاکستانی ریاست کے ستم کا سورج کبھی غروب نہیں ہوا۔ خواہ جمہوریت آئے یا جائے، مارشل لاء ہو یا ایمرجنسی، بس جس بلوچ رہمنما، سیاسی کارکن یا عام آدمی نے بھی پاکستانی ریاستی اداروں کے آگے سر اٹھا کر چلنے کی ہمت کی اسکا سربریدہ لاشہ بھیج دیا گیا ہے۔ ایک سال قبل یہی کچھ بوڑھے باغی قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے ساتھ ہوا تھا اور اب جواں سال بالاچ مری کے ساتھ ہوا ہے۔
بلوچستان کے پہاڑ سنگلاخ، سربلند لیکن بلوچوں کے خون سے رنگےہیں۔ بلوچ پاکستان میں انیس سو پچاس کے امریکہ کا کالا آدمی ہے اور انیس سو ساٹھ ستر کا بنگالی ہے۔ بلوچ کے ساتھ پاکستان کے عام مروج قانون کے مطابق بھی سلوک نہیں ہوتا۔ یہ سبز ہلالی مرکز کے ماتحت کالے لوگوں کی کالی دھرتی ہے۔
میر حاصل بزنجو اور یوسف مستی خان کراچي میں اگر کسی جلسے میں تقریر بھی کرتے ہیں تو ان پر دفعہ ایک سو اٹھاسی کا مقدمہ نہیں بلکہ بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جاتا ہے جو ان کے پرکھوں پر بھی یہ ریاست اور اس سے قبل بدیسی حکمران قائم کرتے آئے ہیں۔
پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر ڈریرہ غازی خان کے قریب ان گمنام مریوں کی قبریں شاید آج بھی موجود ہوں گی جنہوں نے انیسویں صدی میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے موت کو گلے لگایا تھا اور پھر انیس سو ستر کی دہائي میں۔ بقول میرے ایک دوست اسلامی طاقتور فوج نے اسی ڈیرہ غازي خان کے قریب بلوچوں کے بھیڑ، بکریاں، پلنگ کی نواریں اور عورتیں تک مال غنیمت جان کر نیلام کردیئے تھے۔
بلوچستان کے اکثر سردار، میر اور معززین اسلام آباد اور راولپنڈی کی نوکری چاکری میں ہیں سوائے تین سرداروں اور ایک چیف جسٹس کے جنکے بیٹے کا نام بھی بالاچ ہے۔
ایک سردار اکبر بگٹی کے تابوت پر میڈ ان چائنا تالا لگا ، دوسرے سردار عطااللہ مینگل کے بیٹے
اورسابق وزیر اعلی کو بند کمرہِ عدالت میں آہنی پنجرے میں پیش کیا گیا اور تیسرے سب سے خطرناک لیکن خاموش سردار خیر بخش مری کو بیٹے کی لاش اس طرح ملی ہے جس طرح انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو اپنے پیاروں کے سروں کے تحفے بھیجے تھے۔
لوگو! کیا تمہیں اب بھی پتہ نہیں تم کس چيز سے ہٹ ہوئے ہو‘۔
آپ کا پیارا جنرل!!’
تبصرےتبصرہ کریں
حريت پسندی اور انقلاب يقيناً بڑے رومان پرور الفاظ ہيں اور چےگِوارا مرنے کے چاليس برس بعد آج بھی سب سے بڑا ہيرو ہے ليکن بلوچ سرداروں کی انقلاب پسندي غورطلب ہے۔ ان ميں سے بعض برسراقتدار آتے رہے ہیں۔ گيس کی رائلٹی بھی پاتے رہے ہيں ليکن خود اپنی قوم کے لیے کيا کِيا ہے؟ پنجاب اور پنجابيوں کو موردالزام ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہيں جبکہ رائلٹی کے پيسوں سے خود کراچي، دبئي اور لندن ميں آرام دہ زندگی گزارتے چلے آ رہے ہيں۔ قبائلی سرداروں کی قوم سے محبت ديکھنا ہے تو دبئی اور ابوظہبی تشريف لے جائیے۔ ديکھيے کس طرح تيل کی دولت کو قوم کی بہبودی پر صرف کر کے مچھيروں کي ان بستيوں کو عرصہ تيس برس ميں جگمگاتے عاليشان شہروں ميں بدل ديا ہے۔ سردار ايک شفيق باپ کی طرح سايہ فگن رہتے ہيں۔ جديد ترين سہولياتِ زندگي مہيا کر کے عوام الناس کو گہوارے سے قبر تک ہر قسم کی نجي اور معاشي فکر سے آزاد کر رکھا ہے۔ وسائل کم و بيش ہو سکتے ہيں ليکن نيتيں تو نظر آنی چاہيں۔ ہمارے ہاں اپنی خودغرضيوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر فارغ البال ہوا جاتا رہا ہے۔ مزيد براں مسلح جدوجہد جيسے مہنگے شوق آخر کس طرح پورے ہو رہے ہيں؟ بظاہر کوئي ذريعہ آمدن نہ ہونے کے باوجود يہ سب کدھر سے آ رہا ہے؟ بلوچستان سميت پاکستان کے ہر صوبے کے عوام فوج کے ساتھ اس جاگيرداري نظام کے بھي قيدی ہيں جو ان کے تمام مسائل کا قصوروار ہے۔ مفادات دونوں کے مشترک ہيں۔ دونوں قدرتي اتحادي ہيں جو اس وقت حصہ داري کے مسئلے پرعدم مفاہمت کا شکار ہيں۔ دونوں ميں کوئی ايک بھی عوام الناس سے مخلص نہيں ہے۔ لہذا ان دونوں سے چھٹکارے ميں ہي راہ نجات ہے۔
حسن مجتبییٰ صاحب ہم نے ابھی تک 1970 سے سبق نہیں سيکھا۔ اب ميری دعا ہے افواج کی بيرکوں میں واپسی خيرو آفيت سے ہو جائے۔ يہی غنيمت ہے ۔
حسن مجتبی صاحب، ہم نے ابھی تک 1970 سے سبق نہیں سيکھا۔ اب ميری دعا ہے افواج کی بيرکوں میں واپسی خيرو آفيت سے ہو جائے۔ يہی غنيمت ہے۔