غیرت، قتل اور قانون
کچھ دن پہلے جب بلوچستان کے علاقے نصیرآباد میں غیرت کے نام پر قتل کی خبر میڈیا میں آئی تو سب کو پھر یاد آگیا کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔
خبر تھی کہ پانچ عورتوں کو قتل کیا گیا ہے۔ لیکن پولیس کو صرف دو لاشیں ملیں اور یہ اب تک واضح نہ ہو سکا ہے کہ یہ کس کی لاشیں تھیں۔
علاقے کے کچھ افراد سامنے آئے اور دو نے کہا کہ یہ ان کی بیٹیاں تھیں۔ نام کیا بتائے؟ عزت بی بی اور جنت بی بی۔
لیکن خیال یہ ہے کہ یہ افراد مقامی سرداروں کے بندے ہیں اور ان کو اس لیے حوالے کیا گیا ہے تاکہ اس معاملے پر پردہ ڈالا جا سکے۔
علاقے میں جانے والے صحافیوں نے بتایا کہ وہاں کوئی اس واقعے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ پولیس افسروں نے بتایا کہ وہ بھی خوف کے ماحول میں کام کر رہے تھے کیونکہ ان کو دھمکیاں ملیں کہ اگر انہوں نے یہ لاشیں دفنائیں تو راستے میں انہیں لینڈ مائنز سے اُڑا دیا جائے گا۔
حکام نے تدفین پھر رات کے اندھیرے میں کی ۔
تو کیا وجہ ہے کہ ایسے واقعات کے مجرموں کو پکڑا نہیں جاتا، انہیں سزا نہیں ہوتی؟
میں نے اپنی دوست اور سابق صحافی نفیسہ شاہ سے اس بارے میں پوچھا۔ وہ آج کل پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی ہیں اور اس سے پہلے وہ کئی سال تک خیرپور میں ضلع ناظمہ رہیں ہیں۔ اس سارے تجربے کے ساتھ وہ کاروکری یا غیرت کے نام پر قتل کی روایات پر بطور صحافی اور اینتھروپولوجِسٹ ( بشریات کی ماہر) بھی بہت کام کر چکی ہیں۔
نفیسہ نے بتایا کہ سزا یا کارروائی نہ ہونے کی اہم وجہ موجودہ قانون ہے۔ اس وقت پاکستان کے قانون میں قتل ریاست کے خلاف جرم نہیں ہے بلکہ فرد کے خلاف جرم ہے۔ صلح کی گنجائش آخری مرحلے تک ہوتی ہے۔ اگر مقتول کا خاندان قاتل سے صلح کرنے پر رضامند ہو جائے تو قانونی ادارے کچھ نہیں کر سکتے، کیس ختم کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال میں اگر مقتول کا خاندان ایف آئی آر درج کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو مقامی سطح پر ان پر صلح کرنے کے لیے شدید دباؤ ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو علاقہ چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔ کیس ختم ہو جائے تو پولیس یا عدالتیں آگے ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتیں۔
یہ کیسا قانون ہے؟ یہ جنرل ضیاء کے دور میں اسلام کے نام پر بننے والا قانون ہے۔ ایسے قانون سے معاشرے میں کوئی بہتری آسکی ہے؟
اور کیا قتل صرف ایک شخص یا خاندان کے خلاف جرم سمجھا جائے یا ہم سب کے خلاف، انسانیت کے خلاف، معاشرے کے خلاف جرم؟
ایسے قانون سے کس کو فائدہ ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
ايسے قانون سے مردوں کو فائدہ ہے امريکہ کو تو اپنے ڈرونز جرگوں پر بھيجنے چاہيۓ جہاں ان عورتوں کو قتل کياجاتا ہےاکثر جو پہلےسےہی وڈيروں جاگيرداروں اور ملاؤں کے ہاتھوں ميلی ہوچکی ہوتي ہيں اور انھيں کاری کرنا علاقائ رسم ليکن عين اسلامی روايات کے مطابق کفن دفن کيا گيا مطلب گھوم پھر کر ہوا کام اسلامی لعنت ہےايسے لوگوں پر جو اسلام لے آتے ہيں ہر ناجائز کام جائز کرنے کيلۓ اور کيا يہ کاری عورتوں ہی صرف ہوتی ہيں کوئ کارا کيوں نہيں ہوتا ؟
محترمہ عنبر خيری صاحبہ، آپ کو شايد علم نہيں ہو سکا کہ `بی بی سی ـ آپ کی آواز` پر اِسی موضوع پر ايک سير حاصل مباحثہ قبل ازيں بھی حال ہی ميں منعقد ہو چُکا ہے ، جبکہ دُوسرا عين اس وقت جاری ہے ـ اِس لحاظ سے اِس بلاگ ميں اگر کوئی نئی قابلِ ذکر بات ہے تو وہ فقط يہ ہے کہ آپ کی ايک دوست آج کل پيپلز پارٹی کی رُکن قومی اسمبلی ہيں جو سابق صحافی ہيں اور کئی سال تک خير پُور کی ضلع ناظمہ بھی رہ چُکی ہيں اور اُنہوں نے آپ کو چند قانونی مجبُورياں بھی بتائی ہيں ـ خدارا! `بی بی سي` کے معيار کو اِتنا نہ گِرائيے، کوئی بہتر تحرير سامنے لائيے، نوازش ہو گی ـ
مصور ـ
صاف ظاہر ھے کہ اس قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کون ھے - اب چاھے يہ لوگ قانون بنوانے والے ھوں يا ضياء کے دور سے ليکر آج تلک فائدہ اٹھانے والے- ان سب کا اس قانون کو منسوخ کرنےيا اس کي قوت ميں کسی بھی قسم کي کمی والي ترميم کي بات پر خون تو کھولے گاہی ناں ؟ بالکل اسی طرح جس طرح پيپلز پارٹی کے سينيٹر کا درج بالا کيس کي تفتيش کےنام پرکھولا يا پھر ايسے کاموں کی مزھب کے نام پر توثيق کرنے والے ملاؤں کا
يہ پاکستانی عوام کی بدنصيبی ہے کہ ہمارے ملک ميں جرائم پيشہ افراد کو تحفظ مل جاتا ہے اور مظلوم کا کوئی پرسان حال نہيں اور رياست عوام کے جان ومال کے تحفظ کی بجائے مافيازکے آگے ہتھيار ڈال چکی ہے انصاف بکتا ہے ، پوليس بااثراور مقتدر طبقات کی غلام بن چکی ہے اور پراسيکيوشن سے لوگوں کا اعتماد ختم ہوچکا ہے ايسے ميں ايک دو چھوڑ کئی قتل بھی ہو جائيں تو کچھ نہيں بنتا اور مظلوم کو انصاف نہيں ملتا
کوں بدلے گا تقدیر اس عورت کی جس کو انساں نہیں سمجھتا ہمارا معاشرہ
'قانون يہاں بھي اندھے پيں، فرمان يہاں بھي اندھے ہيں
اے دوست! خدا کا نام نہ لے، ايمان يہاں بھي اندھے ہيں'
عنبر جی ايک عرصے بعد آپ کا بلاگ ديکھنے کو ملا ہے شاءيد پاکستانی سماج کا يہ ايک سلگتا مسءلہ ہے بڑی خوشی ہوئ يہ جان کر کہ اب بی بی سی اردو سياست سے پرے سماج کا ناسور کہلانے والے مسائل کو بھی اٹھاتا ہے يہ معاملہ اسلام کا نہيں ہے علاقاءی رسوم و رواج اور خواتين کے ساتھ نا انصافياں اس طرح کے مسائل کا باعث بنتی ہيں پتہ نہيں جنرل ضيا ء کے دور ميں کس نيت کے تحت ايسے قوانين بنائے گئے تھے جو آج سماج کے بد ترين مسئلہ کو ہوا دينے کا باعث بن رہے ہيں حکام اور پوليس کو چاہيے کہ ان معاملات سے سختی سے نمٹے ورنہ پھر آگے چل کر غيرت اور کاروکاری ايک بہت بڑا ناسور نہ بن جائے ايسا ناسور جو لا علاج ہوتا ہے - انڈيا ميں بھی ايسے واقعات ہوتے ہيں مگر ان کی وجوہات نوعيت اور معاملات الگ ہوتے ہيں - محمد رضوان الرحمان کا معاملہ اس کی ايک ادنی سی مثال ہی کہلاءے گي- بہرحال موضوع سنجيدہ ہے سنگين ہے اور قابل توجہ بھی ہے اس کے لئے بڑے پيمانے پر بيداری کی ضرورت ہے
خير انديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن
عنبر خيری صاحبہ!اس حساس اور سنجيدہ موضوع پر سيدہ نفيسہ شاہ سے رائے لينے کے ساتھ ساتھ ان سے يہ بھی دريافت کرلياہوتا کہ کہ اس سلسہ ميں انہوں ننے اور انکے والد سيد قائم علی شاہ نے کيا کيا جو دوسری مرتبہ سندھ کے وزيراعلی منتخب ہوئے ہيں
تُم اگر قتل بھی کردو تو بنامِ غيرت
ميں اگر شعر بھی کہہ دُوں تو بغاوت ٹھہرے