تم اپنی کرنی کر گزرو
سنیچر کو ہونے والے آصف زرداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سن کر بہت عرصے کے بعد لگ رہا تھا کہ شاید چیزیں اچھے کی طرف جا رہی ہیں۔ نہ کسی نے 'گو بابا گو' اور 'گو مشرف گو' کے نعرے لگائے، نہ کسی مذہبی یا سیاسی جماعت نے بائیکاٹ کیا اور نہ ہی حزبِ اختلاف کی طرف سے کیچڑ اچھالا گیا۔
لگا کہ سب اچھا ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیچڑ نہیں معصوم لاشیں اچھالیں گیئں۔ تقریر کے چند ہی گھنٹوں بعد اسلام آباد میں وہ ہوا جس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ چھ سو سے زیادہ کلو گرام بارود سے بھرا ٹرک اسلام آباد کے سب سے مصروف ہوٹل میریئٹ سے ٹکرا گیا اور درجنوں لوگوں کی جانیں لینے اور سینکڑوں کو زخمی کرنے کے علاوہ میریئٹ کو مکمل اور اس کے آس پاس کی عمارتوں کو کافی حد تک تباہ کر گیا۔
وفاقی حکومت کے داخلی سکیورٹی کے مشیر رحمان ملک نے درست کہا کہ یہ پاکستان کا نائن الیون تھا۔
دھماکے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حملہ کرنے والے نے بہت ہی سوچ سمجھ کر صدر کے خطاب کے روز، رمضان میں اور افطار کے وقت حملہ کیا۔ اگرچہ حملہ آوور کا اس جگہ پہنچنا یقیناً ایک 'سکیورٹی لیپس' یا سکیورٹی میں کوتاہی ہے لیکن پھر بھی افطار کے وقت ویسے ہی ملک بھر میں ہر کاروبارِ زندگی سست پڑ جاتا ہے۔ اور حملہ آوور کو یہ وقت سب سے زیادہ سوٹ کیا۔
ہو سکتا ہے کہ اس کا نشانے پر کوئی اور ہائی پروفائل ٹارگٹ ہو۔ آدھ کلو میٹر پر ہی تو وزیرِ اعظم ہاؤس اور پارلیمان ہے۔ ادھر زیادہ سکیورٹی ہونے کی وجہ سے آپشن دو استعمال کیا گیا ہو۔ یا ہو سکتا ہے کہ ٹارگٹ میریئٹ ہی ہو۔ شہر کی 'جان' کو تباہ کرنے سے شاید جان نکالنے کا مقصد پورا ہو جائے۔ 'سمبلز' تباہ کرنے سے بھی تو جنونیوں کو تسکین ملتی ہے۔ چاہے ان 'سمبلز' میں جیتے جاگتے لوگ ہوں اور چاہے وہ سینکڑوں اور ہزاروں میں ہوں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر بھی تو ایک سمبل ہی تھا۔ ہزاروں لوگ پلک جھپکتے موت کی نیند سلا دیے گئے۔ پر اس کا کیا ہوا جنگ امریکہ سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اب بھی اگر کسی کا مقصد دہشت گردی کے خلاف حکومت کے عزم کو ختم کرنا ہے تو شاید یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں حملہ آوور یا اس کی پلاننگ کرنے والے ناکام ہوئے ہیں۔
ایسا بالکل نہیں ہوا۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری نے دھماکے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خودکش حملے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ انہوں نے قوم سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ قوم اپنے درد کو طاقت بنائے اور مل کر انتہا پسندی اور شدت پسندی کا مقابلہ کر کے اس کینسر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
یقیناً کینسر کو جڑ سے اکھاڑنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔
مجھے آصف زرداری کے پارلیمان سے خطاب اور بعد میں اسی رات ٹی وی پر قوم سے خطاب کے بعد سابق صدر جنرل مشرف کا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب یاد آ رہا ہے۔ صدر مشرف نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کو 'اہم فیصلے کرنا ہیں جن کے دور رس نتائج ہوں گے، اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو آنے والی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور خدا پاکستان کے آج کے عوام کو معاف نہیں کرے گا۔'
صدر صاحب ہم سب خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
اب کیا ہو گا۔ خدشہ ہے کہ جنگ بڑھے گی اور یہی شاید حملہ کرنا والے چاہتے ہیں کہ جنگ بڑھے۔ ان کا انجام تو جو ہو گا سو ہو گا لیکن معصوم عوام کی آہیں اور سسکیاں شاید انہیں قبروں میں بھی چین نہ لینے دیں۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ لوگ صرف اور صرف دہشت گرد ہیں۔ ان کے لیے عسکریت پسند، مزاحمت کار یا اس طرح کا کوئی اور لفظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ صرف دہشت گرد ہیں اور ان سے اس طرح نمٹنا چاہیئے جس طرح کسی دہشت گرد سے نمٹا جاتا ہے۔ اگر انہیں اپنی اور معصوم جانوں کی فکر نہیں تو پھر ہم ان کی فکر کیوں کریں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ باجوڑ یا وزیرستان کے سیدھی سادھے یا سوات کے امن پسند لوگ نہیں ہیں۔ یہ دہشت گردی کا بین الاقوامی نیٹ ورک ہے اور اسے روکے بغیر دنیا میں امن نہیں آئے گا۔
دہشت گردو تم ہمیں مار سکتے ہو پر توڑ نہیں سکتے۔
میں عالمی امن کے دن یعنی اکیس ستمبر کو اس سے زیادہ غصے کا اظہار نہیں کر سکتا۔
تم اپنی گرنی کر گزرو۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
عارف صاحب آپ نے درست فرمايا ہے۔ ہم سب ان انسانيت اور اسلام دشمنوں سے اعلان جنگ کريں اور ان کو احساس دلائیں کہ تم لوگ ظالم ہو، غلط ہو، قابل نفرت ہو۔ کاش معزز علمائے کرام يک آواز ہو کر ان سے سے لا تعلقی کا اعلان کرديں۔
اس ميں کوئي شک نہيں کہ انسان ديکھے جاسکتے ہيں، ٹٹوٹے جاسکتے ہيں، انہيں پکڑا جا سکتا ہے، ان پر خودکشں حملہ کيا جاسکتا ہے، انہيں دہشت زدہ کيا جاسکتا ہے اور ان پر مقدمے چلا کر انہيں گيارہ سال تک قيد کيا جاسکتا ہے اور تختہ دار پر لٹکايا جاسکتا ہے۔ ليکن اپنے نظريات کو ان لوگوں پر اسطرح نہيں ٹھونسا نہیں جاسکتا، دوسروں کے خيالات و سوچوں کو اس طرح قابو نہيں کيا جاسکتا کيونکہ يہ خيالات و نظريات نامحسوس طريقے سے پھيلتے ہيں اور روح ميں سرايت کرکے چھپ کر نشوونما پاتے ہيں، پھلتے پھولتے ہيں اور جڑيں نکالتے ہيں۔ دہشتگرد جتنا مرضی زور لگا ليں، جتنی مرضی شاخيں کاٹ ڈاليں يہ اتنی ہی زمين دوز جڑيں مضبوط ہوں گي اور حکومت وعوام کے حوصلے پست نہيں ہوں گے۔ان انسان نما حيوانوں سے نمٹنا آج کا سب سے بڑا اور خالص جہاد ہے۔ يہاں خاکسار دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے چند تجاويز درج کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
1۔ بھارت، ايران اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں کو ’حساس ترين‘ قرار دے کر نگرانی کی جائے۔
2۔ ملکی فوج جس طرح قبائلی علاقوں ميں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر رہی ہے، اسی طرح ان کے افغانستان ميں ٹھکانوں کو بھی بذريعہ ميزائل نشانہ بنايا جائے تاکہ اتحادی افواج کی عملی مدد بھی ہوسکے۔
3۔ ملک ميں تمام مہاجروں کو رنگ و نسل اور مذہب و زبان کے امتياز کے بغير چن چن کر پکڑ کر ايک کھلے ميدان ميں اکٹھا کيا جائے اور خصوصی پروازوں کے ذريعے انہيں انکے اصلی وطن پہنچايا جائے۔
4۔ مسجدوں، مدرسوں، مندروں، گرجاگھروں، گردواروں کو محکمہ آثار قديمہ اور اوقاف کے کنٹرول ميں لايا جائے۔ لاؤڈ سپيکر کے ناجائز استعمال کو روکا جائے۔
5-۔چندوں، نذرانوں، قربانی کی کھالوں، اور عبادت گاہ سے ملحقہ پراپرٹی دکانوں وغيرہ کی تمام آمدنی محکمہ اوقاف کے پاس پہنچنے کو يقينی نبٹايا جائے۔
6۔ تمام خيراتی ادارے و تنظيموں کو خيرات لينے کيلیئے سيلف ہيلپ اور تشہير کي بجائے محکمہ اوقاف سے خیرات لينے کا پابند کيا جائے اور انہيں تحريری درخواست پر خیرات دی جائے۔
7۔ تعليمی پاليسی کو نئے سرے سے مرتب کيا جائے اور ملائيت کی حوصلہ شکنی اور انسانيت کی حوصلہ افزائی کرنے والے مضامين و ابواب نصاب ميں شامل کيۓ جائيں۔
دہشت گردی کے جواب میں ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کر کے امن حاصل کرنا ایک خواب ہے۔ امریکی سرپرستی میں شروع کی گئی نام نہاد جنگ کو اپنی جنگ کہہ کر اور وزیرستان اور سوات میں بمباری کرکے عوام کا جینا دوبھر کرکے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ محفوظ رہے گا تو یہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکنے کے مترادف ہے۔ ہمیں یقیناً اس واقعہ میں جانبحق و زخمی ہونے والوں سے ہمدردی ہے لیکن دہشت گردی کی اصل وجوہا ت کو ختم کیے بغیر امن کا حصول ناممکن ہے۔ اور اس طرح کے ہر واقعہ کے بعد سائکو کیسز لوگوں کو اسلام، علماء کرام کے خلاف زہر اگلنے کا موقعہ مل جاتاہے۔
رسول کريم کی سيرت طيبہ کو فراموش کرکے جس ميں امت کو محبت انکساری رحم عفو اور درگزر کی ہدايات ہيں ہميں ايک ايسا گروہ اسلام کاسبق پڑھا رہا ہے کہ خدا کے بعد صرف تلوار جہاد اور خود کش موت کو ہی ذريعہ نجات سمجھتا ہے۔
دہشتگردوں کے نام جان کي امان چاہتے ہوئے مودبانہ عرض ہے کہ بقول حبيب جالب :
’محبت گوليوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
يقيں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو‘
ہمت مرداں مدد خدا! مضبوط ارادے سے مقابلہ کرنے کی ہمت بندھانے کا شکريہ! لوگ تو مايوسی کے گٹا ٹوپ اندھيرے ميں ڈوبے ہوئے تھے۔ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد ميں کامياب ہوگئے تھے کہ دہشت زدہ لوگ ہمت ہی چھوڑ چکے تھے۔۔۔
میں نجیب الرحمان صاحب سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں۔
عارف شميم صاحب، پارليمان ميں صدر پاکستان کی تقرير دہشت گردي کے سرپرستوں نے بھي ديکھي و سني ہو گي اور پريشان ہوئے ہوں گے۔ چنانچہ ردعمل تو آنا ہی تھا۔ رحمان ملک صاحب کی پريس کانفرنس سے انہیں مزيد نااميدی ہوئی ہوگی کہ نو زائدہ منتخب عوامی حکومت سراسيمہ ہونے کي بجائے ايک مؤثر حکمت عملی کے ساتھ مقابلے پر کمر بستہ نظر آتی ہے۔ سقوط ڈھاکہ اور روس کے افغانستان سے انخلا کے قريب دہشت گردي ميں بے پناہ اضافے سميت يہ قوم ايسے کئي امتحانوں سےگزر چکی ہے اور قطعی گھبرانے والوں میں سے نہیں ہے۔ خدا کا فضل شامل حال رہا تو دشمنوں کی يہ سازش بھی ناکام ہو گی اور شاہراہ جمہوريت پر شروع کردہ ترقی و خوش حالی کا يہ سفر جاری و ساری رہ کر انشااللہ منزل مقصود سے ہمکنار ہو گا۔
ہم سب نے اگر اپنی اپنی انا کو ختم کر کے قومی مفاد ميں نہ سوچا تو اسي طرح برباد ہوتے رہيں گے۔ بم دھماکے ہوتے رہيں گے۔ قوم تباہ ہوتی رہےگي۔ خداراہ سوچو اور انسانيت کے دشمن کو لگام دو۔۔۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں عام لوگوں کو شامل ہونا ہی پڑےگا، تاکہ دہشت گرد يہ سمجھ ليں کہ سب لوگ ان سے نفرت کرتے ہيں۔ جو لوگ حکومت کو يہ مشورے دے رہے ہيں کہ وہ اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پاليسی پر نظر ثانی کرے وہ لوگ بزدل ہيں، اس کا مطلب يہ ہوگا کہ دہشت گرد حق پہ ہيں۔۔۔
جناب دہشت گرد صرف دہشت گرد ہے، وہ مسلمان کيا انسان نہيں ہوتا، بلکہ انسان کيا حيوان سے بھی نيچے ہے کيونکہ حيوان تو کبھی انسانوں کو نہيں مارتے۔۔۔ حقيقت ميں دہشت گرد تو درندوں سے بھی بدتر ہے۔ اس سلسلے ميں ميری تجويز ہے اگر کوئی غور کرے تو بہتری کی اميد کی جا سکتی ہے۔
ايران ميں اسلامي انقلاب کے بعد ايک تباہ کن دہشت گردی کی لہر شروع ہوئی تھی مگر انہوں نے اس سے چھٹکارہ پا ليا اور آج وہاں مثالی امن و سکون ہے، لہذا حکومت پاکستان ہائی ليول پر ان سے پوليس کو تربیت دلانے کے لیے في الفور عملی اقدامات کرے۔
عارف صاحب، آپ نے فرمايا ہے کہ ايسا واقعہ کسی کے وہم و گمان ميں بھی نہ تھا۔ جب کہ ميرے جيسا عام انسان حيران تھا کہ اب تک ايسا کيوں نہيں ہوا۔ پاکستان ميں طالبان اور ان کے ہمنوا اتنے مضبوط ہيں کہ چاہيں تو ايک دن ميں اسلام آباد پر قبضہ کر ليں۔ انہیں انتظار ہے تو افغانستان فتح ہونے کا۔ سياسی اور فوجی گيدڑ انکا مقابلہ کيا کريں گے۔ يہ کرپٹ بھی ہیں، بزدل بھی اور نالائق بھي۔۔۔
جناب عارف بھائی۔ آپ کی باتيں جتنی بھی سچی ہوں، پاکستان کی موجودہ سياسی و مذہبی قيادت ميں ايک بھی ايسا نہيں، جو قوم کو قيادت فراہم کرسکے، بلکہ ان کی اولادوں ميں بھی ايسا کوئی نظر نہيں آتا۔ جسکا مطلب ہے کہ آئندہ نصف صدی تک يہ قوم اسی طرح بانجھ رہے گي۔ يہ خود ساختہ ليڈر ايسے ہيں جيسے ميريئٹ ہوٹل پانچ ستارہ بن گيا تھا۔ نہ آگ بجھانے کا انتظام اور نہ ايمرجنسی ميں نکلنے کے راستے، پھر بھی پانچ ستارہ۔
پاکستان میں خود کش حملے کوئی نئی بات نہیں پہلے ایک فوجی آمر نے کلاشنکوف کا قوم کو تحفہ دیا اور دوسرے آمر نے خودکش حملوں کا قوم کو تحفہ دیا۔ دونوں تحفے فرنٹ لائین اتحادی بننے کی پاداش میں ملے۔ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ بجائے معاملے کی شدت کو کم کرنے کے مزید بڑھایا جا رہا ہے۔ آج 2008-09-22 کو وزیرداخلہ رحمان ملک نے کہا کہ پاکستان کی ساری قیادت نے افطار ڈنر میریئٹ ہوٹل میں کرنا تھا جب کہ ہوٹل کے مالک نے کہا کہ ایسی کوئی بکنگ تھی ہی نہیں تو کیا اب قوم کو ڈرانے کے لیے معاملے کو مزید سنگین بنایا جا رہا ہے۔ اللہ معاف کرے ہم سب کو، ملک میں جمہوریت آئی تو اس کو تباہ کرنے کے لیے کیا کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ عارف قریشی
ہم سب ايک ہيں !
عارف شميم بھائی آپ کے بلاگ کو پڑھنے سے پہلے ہی دِل چاہ رہا تھا کہ جب کر گُزرنے والے کر گُزرے ہيں تو اب اور کيا کرنے کو رہ گيا ہے اور ايسے حملہ آورووں کے مُتعلق اس کے سِوا اور کيا کہا جاۓ کہ پہلے تو ايسا لگتا تھا کہ شايد يہ لوگ مُسلمان ہيں ليکن اب ايک محترم مہينے کے دوران کی گئی يہ کاروائی چيخ چيخ کر اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ ايسا کرنے والوں کا اسلام سے دُور دُور کا بھی کوئی واسطہ نہيں جِنہيں نا احترامِ آدميّت ہے نا ہی مذہب کا احترام ہے، انسانيّت تو بہت دُور کی بات ہے۔ ليکن اس سے بھی زيادہ دُکھ اس بات کا ہے مُلک کی نُمائندہ حکُومت کے ارکان نے اپنی رواداری صاحب بہادُر کے ساتھ پھر بھی نبھائی اور نا ہی اپنے دوروں کو منسُوخ کيا اور نا ہی آنسُو پونچھنے کو کُچھ ايسا کيا جس سے يہ پتہ چلتا کہ حاکمِ وقت کے دِل ميں عوام کا درد بھی ہے، جي ہاں وُہی عوام جِن کے ووٹوں کی طاقت سے وہ آج شہ ہيں۔ ليکن شايد يہی ہماری بدقِسمتی ہے کہ ہم پر ايسے آقا مُقرر کیے جاتے ہيں جن کو برسرِاِقتدار ہوتے ہی کُرسی کی مضبُوطی کو پرکھنے کے لیے دربار ِخاص کی حاضری يا قدم بوسی درکار ہوتی ہے سو عوام اور خاص طور پر غريب عوام جائيں بھاڑ ميں، اُن کی بلا سے کہ اُن کا تو کام ہی مرنا ہے کبھی بم بلاسٹ ميں، کبھی سيلاب ميں ،کبھی ڈينگی بُخار سے تو کبھی ہيپاٹائيٹس سے۔ سو وُہ کيُوں اپنی راہ کھوٹی کريں مُجھے پتہ ہے ميرے سخت الفاظ قابلِ اِشاعت نہيں سمجھے جائيں گے ليکن کيا کرُوں اندر بہت کُچھ اُبل رہا ہے اور راہ کوئی سُجھائی نہيں ديتی اس مُبارک مہينے کي تيزي سے گُزرتي بابرکت ساعتوں ميں دُعاگو ہُوں اپنے مُلک کي سالميّت اور امن کے لیے کہ اس وقت ضرُورت ايک اجتماعي دُعا کي ہے جس ميں سب مِل کر آمين کہيں تو شايد قبُوليّت کي سند عطا ہو جائے۔ دُعاگو شاہدہ اکرم
جناب يہ بس سازش ہے کہ ہم مولوی اور مدرسے کے خلاف ہو جائيں اور انڈيا، امريکا کچھ جگہوں پر آجائے اور ہم کچھ نا کہيں، ورنہ یہ کام طالبان کا نہیں کچھ باہر کے ممالک کا ہے۔
عارف شميم صاحب ميريئٹ ہوٹل کا ہولناک دھماکہ دہلی ميں دھماکے ان دھماکوں کے بعد انکاونٹر اور اس کے بعد مسلم نوجوانوں کی دھڑا دھڑ گرفتارياں يہ سب کچھ اگر ہوتا رہے گا تو آپ ہی بتائیے کہ شدت پسندی پر کيسے قابو پايا جاسکے گا۔ امريکہ نے دنيا ميں، اسرائيل نے فلسطين ميں، روس نے چيچنيا ميں اور نہ جانے کہاں کہاں ايسے حالات پيدا کيے ہيں کہ دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے فروغ ہی پا رہی ہے۔ ايسے ميں کيا آپ کو نہيں لگتا کہ حقوق العباد پر سختی کے ساتھ پابندی کے ساتھ ہی ان خرافات پر قابو پايا جاسکتا ہے۔ خير انديش، سجادالحسنين، حيدرآباد دکن
دہشت گردی حيوانيت سے بدتر حرکت ہے ۔ مگر يہ شروع کيوں ہوتی ہے۔ حالات سے لگتا تو يہ ہے کہ چند بڑے ممالک کی پاليسوں کی وجہ سے عالمی امن تباہ ہوچکا ہے۔ اس بارے میں غور کرنا چاہے۔ افتخار الحسن، راولپنڈی
عارف صاحب ميریٹ ہوٹل کے سانحہ پر ہر شخص افسردہ ہے ليکن عارف صاحب جب امريکہ افغانستان و عراق ميں اسرائيل فلسطين ميں اور پاکستان قبائلی علاقوں ميں نام نہاد ’وار آن ٹيرر‘ کی آڑ ميں عام لوگوں پر وحشيانہ بمباری کرتے ہيں تو اس وقت آپ کا قلم کيوں خاموش ہوجاتا ہے؟ شايد آپ کی نگاہ ميں يہ لوگ انسان نہيں۔۔۔ عارف صاحب آپ نے رحمان ملک کے بيان سے اتفاق کيا ليکن حکمران اپوزيشن ميڈيا اور عام آدمی رحمان ملک سے اتفاق نہيں کرتے اور ان کے بيانات کو سنجيدگی سے نہيں ليتے اور آپ شاہ سے زيادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے ہيں۔۔۔