ڈیِجٹل دل چاہے
ڈیِجٹل دور نے انسان کی زندگی بالکل بدل ڈالی ہے جس کا احساس شائد تیسری دنیا کی مخلوق کو ابھی تک نہ ہواہو مگر مغربی دنیا میں جیسے سارا نظام بجلی کی مرہون منت ہے ویسے ہی روز مرہ کی زندگی اس ٹیکنالوجی کی مقروض بنتی جارہی ہے۔
رشتوں کے جوڑ توڑسے لے کر بنیادی مسائل کے حل تک کے سارے لوازات اب انٹرنیٹ کی دنیا ہی پوری کرتی ہے۔
ڈیِجٹل بچہ ڈیِجٹل طلاق ڈیِجٹل شاپنگ اور ڈیِجٹل انسان اب ہماری دنیا بن گی ہے۔
وہ زمانہ آخری سانسیں لے رہا ہے جب ہمارے ملکوں میں معصوم عورتیں درگاہوں مندروں اور عبادت گاہوں کے باہر بچے کی خواہش میں دھاگہ باندھا کرتی تھیں یا بیٹی کے لئے نیک سیرت لڑکے کے لئےدعائیں مانگا کرتی تھیں اب انٹرنیٹ نے اسکا بہترین حل پیش کیا ہے ایک کلک سے ہر عمر، نسل ، مذہب اور رنگ کے بچوں یا لڑکوں کی فہرست بنا رکھی ہے ایک کلک سے اب تقدیر خود بنائی جاسکتی ہے اور اپنی گود بھری جاسکتی ہے۔
رشتوں کی نوعیت ہی بدل رہی ہے شادی کا بندھن ہو یا طلاق کا فیصلہ بچہ گود لینا ہو یا املاک کا بٹوارہ ہر مسئلے کا حل انٹرنیٹ پر موجود ہے
گو کہ مغرب میں ڈیِجٹل ٹیکنالوجی نے روز مرہ زندگی کو اپنی قید میں کر کے اسے اپنا غلام بنا دیا ہے جو مجھے بالکل پسند نہیں مگر جو بات مجھے پسند ہے وہ سوشل گروپس قائم کرکے دنیا کے مختلف حصوں میں انجان لوگوں کو ایک دوسرے سے ملانا اور آپس میں تبادلہ خیال کرنا۔
ایک نیا رشتہ بنانا اور اس رشتے سے جُڑ کے رہنا ایک نیا تجربہ ہے جو اب تک اچھا لگ رہا ہے۔
لندن میں رہائش اختیار کرنے کے بعد کی سال تک میں ہر صبح پہلے ٹیلفون پر اپنے ہر رشتہ دار کی خیرت معلوم کرتی حالانکہ بیشتر نے کبھی ایک بار بھی فون کرکے ہماری خبر نہیں لی پھر مجھے احساس ہوگیا کہ انہیں ہمارا فون کرنا بھی گوارا نہیں ہوتا ہم نے فون کرنا چھوڑ دیا لیکن ایک شدید خلش ہمیشہ ستاتی رہی۔
جب فیس بک سکائپ یا دوسری ویب سایٹس نے سوشل گروپ بناکر ہمارے درمیان نئے رشتے بنائے تو ہم نے آنکھ بند کرکے انہیں قبول تو کیا مگر یہ دل کم بخت خلش نہیں مٹاسکا شائد اس کے لۓ ڈیِجٹل دل کی ضرورت ہوگی جو ابھی ایجاد نہیں ہوا۔
تبصرےتبصرہ کریں
نعيمہ جي، ميں تو ڈيجٹل دل کے حق ميں ہوں- ساري دنيا ميں آپ خود ديکھ ليں گوشت کے بنے ہوۓ دل نے درندوں کو بھي پيچھے چھوڑ ديا ہے- غزہ ميں اسرائيلی جارحيت، کشميريوں پر بھارتی فوج کا ظلم، گوانتا موبے ميں امريکي وحشت خانہ، طالبانوں کا گلے کاٹنے کے بعد کان کاٹنے کا حيوانی کام- ايسے ميں ڈيجٹل دل کو آزمانے ميں کوئی حرج نہيں-
نعيمہ جي! ليجيے آپ نے يہ انوکھا آئيڈ يا پيش کرکے ڈيجيٹل دل بنانے کے خواہش مند افراد کی چاندی کروادی ہے ۔ اب سب اسی جانب لگ پڑيں گے اور لوگ دو دل والے بن جائينگے
ڈيجٹل دِل کی ضرورت ہے۔ بات ٹھيک ہی ہے اور `دِل` کو لگنے والی ہے ! کيونکہ شاعر تو پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ:
`آدمي، آدمی سے مِلتا ہے
دِل مگر کم کِسی سے مِلتا ہے
مُخلص ـ نديم اصغر
لندن ميں رہائش اختيار کرنے کے بعد کی سال تک ميں ہر صبح پہلے ٹيلفون پر اپنے ہر رشتہ دار کی خيرت معلوم کرتی حالانکہ بيشتر نے کبھی ايک بار بھی فون کرکے ہماری خبر نہيں لی پھر مجھے احساس ہوگيا کہ انہيں ہمارا فون کرنا بھی گوارا نہيں ہوتا ہم نے فون کرنا چھوڑ ديا۔
يھاں دو سال سے فرانس ميں رھتے ھوۓ ميں نے بھی يھی محسوس کيا ھے۔ پتھ نھيں کيوں لوگ صرف ھم سے فون کی اُميد رکھتے ھيں۔
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ، آداب! سوشل گروپس بنا کر دنيا کے مختلف حصوں ميں انجان لوگوں کا ايک دوسرے سے ملنا ملوانا اور باہم ثقافتي، سياسي، مذہبي، فلسفيانہ، تعليمي، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر باہم تبادلہ خيال کرنا، خاکسار کو بھی بہت پسند ہے- بلکہ يہ کہنا بجا رہے گا کہ نيٹ ورلڈ سے رابطہ رکھنے کی خاص الخاص وجہ يہی بات ہے- اس ضمن ميں بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی کاوشيں قابل تعريف و قابل تحسين ہيں کہ اس نے 'بلاگ صفحہ'، اور 'آپ کي آواز صفحہ' بنايا اور دنيا بھر سے معزز قارئين کو ايک خالصتآ تعميري، تعليمی اور مثبت فورم مہيا کيا ہوا ہے- يہاں يہ لکھنا بے جا نہ ہوگا کہ جب تک روز بی بی سی کے ان صفحات کا وزٹ نہ کرليا جاۓ اور دو چار ماڑے موٹے تبصرے ارسال نہ کيۓ جائيں، فدوي کو صحيح طرح سے نيند نہيں آتي- وجہ يہ کہ اس فورم ميں لکھنے والے انتہائي معزز قارئين کے ساتھ ايک قسم کا جذباتي تعلق پيدا ہوگيا ہے کہ جس کو توڑنا بذات خود اپنی جذباتی و نفسياتی صحت کو ڈانواں ڈول کرنے کے مترادف لگتا ہے- اس کے علاوہ، بمطابق فدوي، ديگر معاملات ميں مثلآ ايک کلک سے پسند ناپسند کا انتخاب، ڈيٹنگ، منگني، شادي، عليحدگي، خلع، طلاق، گود لينا، شاپنگ وغيرہ بابت انٹرنيٹ پر جو دنيا بنی ہوئی ہے اس پر ٹرسٹ کرنا 'رسک' لينے کے مترادف ہے اور اس ميں ايڈوانس يقينی کاميابی نہيں مل سکتي- ديگر الفاظ ميں ان معاملات ميں اگر تُکا لگ جاۓ تو لگ جاۓ! غور کے قابل امر يہ ہے کہ جب ہماری حقيقی دنيا ميں ہی مادہ پرستي کي بدولت خالص پن ناپيد ہوگيا ہو، انسانی رشتوں ناطوں کو جہيز، مال، رنگ، نسل، قد کاٹھ، کوٹھي، کار، مکان کے ترازو ميں طول کر ديکھا پرکھا جاتا ہو، 'وابستہ ہے مفاد، يہاں ہر اک دوستی کے ساتھ' جيسی عادات جڑيں پکڑ چکی پو، ساس کو بہو اور بہو کو ساس ايک آنکھ نہ بھاتی ہو، اولاد کو والدين کے پاس دس منٹ بيٹھنا گراں گزرتا ہو، تو ايسی صورت ميں 'ڈيجٹل دنيا' کا قابل اعتماد ٹھرنے کا سوال ہي پيدا نہيں ہوتا! مُکدی گل، کہ مشينوں کا ہائي جيک کيا ہوا 'اپنائيت' کا جذبہ اگر انسان واپس لينا چاہتا ہے تو اسکو اپنے 'پِنڈ' کی ہر لحاظ سے خالص زندگي کي طرف واپس جانا ہوگا- يا ديگر الفاظ ميں اسے خود کو 'ڈيجٹل پينڈو' کہلوانے ميں فخر محسوس کرنا ہوگا- بصورت ديگر بقول شاعرِ مشرق:
'ہے دل کيلۓ موت مشينوں کي حکومت
احساسِ مروت کو کچل ديتے ہيں آلات'
دعا گو، نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان