مذہب کے نام پر
پاگل ہوگیا ہوں۔ جتنا سوچتا ہوں ذہن مزید گنجلک ہورہا ہے۔ غزہ پر بمباری کے اکیس دن ہوچلے ہیں، سینکڑوں بچے، عورتیں اور مرد ہلاک ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہوئے ہیں اور دسیوں ہزار لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ درجنوں عمارتیں کھنڈر بن گئی ہیں۔
اسرائیل نے یہ سب، اس کے بقول، اپنی سلامتی کے لیے کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حماس یہودی ریاست کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر اتنا ظلم!
ہزاروں میل دور ضلع سوات میں بھی درجنوں عمارتیں بموں سے اڑا دی گئی ہیں۔ یہ عمارتیں درس گاہیں تھیں جو اب کھنڈر بن چکی ہیں۔ مذہب کے نام پر ہی ہزاروں طالبات کی تعلیم روک دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ قبائیلی علاقوں میں لوگوں کو جاسوسی کرنے کے الزام پر ذبح کیا جاتا ہے اور ان کی وڈیو بڑے جوش و جذبے سے نشر کی جاتی ہے ۔ طالبان کے خوف اور فوجی کارروائی کی وجہ سے بیشمار لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر اتنا ظلم؟
کبھی سوچتا ہوں کہ غزہ کے حالات، اسرائیلی کارروائی، طالبان کے اقدامات اور پاکستانی فوج کے آپریشن کا ایک ہی بلاگ میں تذکرہ نہ کروں۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ معاملات تو جڑے ہوئے ہیں، تو پھر ذکر کرنے میں حرج بھی نہیں۔ آخر بنی نوع انسان کی تکالیف کا کافی حصہ کسی نہ کسی طرح مذہب کے نام سے جڑا تو ہے نا۔
طالبان سمجھتے ہیں کہ اصل اسلام کو صرف وہ ہی سمجھتے ہیں اور مذہب کی تشریح جو وہ کرتے ہیں وہ ہی درست ہے اور اسی کو نافذ کیا جانا چاہیئے۔ طالبان کے مخالف، بشمول پاکستانی حکومت، سمجھتے ہیں کہ طالبان ان پڑھ اور غیر مہذب ہیں اور اسلام کی انتہائی غلط اور ظالمانہ تشریح کرتے ہیں اور ان کو اگر ختم نہیں کیا گیا تو وہ پورے پاکستان کو جہالت کے اندھیرے میں دھکیل دیں گے۔
حماس کا کہنا ہے کہ یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف چودہ سو برس سے پرخاش چلی آرہی ہے اور اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کرکے ان کے خلاف ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ لیکن اسرائیلی کہتے ہیں کہ جس خطے پر اسرائیل قائم ہے وہ ان ہی کی زمین ہے جہاں سے انہیں سینکڑوں برس پہلے بے دخل کرکے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا گیا۔ یہودی اپنے دعوے کے حق میں'آسمانی' کتابیں لاکر دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں خدا نے انہیں یہ زمین دینے کا واعدہ کر رکھا ہے۔
میں انتہائی تذبذب کا شکار ہوں۔ مجھے تو بتایا اور پڑھایا گیا تھا کہ مذاہب تمام انسانوں کی بھلائی کے لئے تھے۔ وہ ظلم، بربریت اور قتل و غارتگری کی اجازت نہیں دیتے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ظلم، بربریت اور قتل و غارتگری مذہب کے نام پر ہی ہوئی ہے۔
بقول شخصے مذہب ایک ایسی چھری ہے جو اگر بچے کے ہاتھ میں ہو تو وہ یا خود کو نقصان پہنچائےگا یا پھر کسی اور کو۔
تبصرےتبصرہ کریں
حضرت فرماتے ہيں دنيا ميں زيادہ تر خون مذاہب کی بنياد پر بہايا گيا ہے، آپ مجھے بتا ديں کہ اگر مذہب نہ ہوتا تو کيا يہ خون خرابہ نہ ہوتا؟ پنجابی، پٹھان، گورا اور کالا، محسود اور دوسرے قبائل کيا يہ سب کچھ مذہب کی پيداوار ہيں؟ نہيں ہرگز نہيں، جناب، مذہب ہی يہ تعليم ديتا ہے کہ کوئی گورا کوئی کالا نہيں کوئی پنجابی کوئی مہاجر نہيں ورنہ اگر مذہب نہ ہوتا توگورے کالےکی لڑائی ميں آدھی دنيا اور ذات برادری کی عداوت باقی انسان غرق ہوجاتے۔دراصل مذہب ہی انسان کو اخلاقی تربيت ديتا ہے اور اسے پابند کرتا ہے وہ يہاں اپنی مرضی سے نہيں آيا بلکہ خالق کائنات نے اس کو يہاں بھيجا ہے اور اسے يہاں اسی کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے۔ بحيثيت ايک مسلمان مجھے اس بات کا پورا يقين ہے اسلام ايک مکمل ضابتہ حيات ہے اور سچا مذہب ہے۔
آداب عرض!
شکريہ
خوب بلاگ لکھا ہے صاحب آپ نے، سوچتا ہوں کہ جو مذاہب انکے بانی نہ سمجھ پائے ان طالبانی مسلمانوں نے اور ان اسرائيلی يہوديوں نے خوب سمجہا ہے۔ ان دونوں مذاہب کےپيرؤکاروں کا اگر باريک بينی سے مطالعہ کيا جاۓ تو آنحضرت کی حديث سمجھ ميں آتی ہے ”کہ ميری قوم اور يہود ايسے ہونگے جيسے ايک پاؤں کے دو جوتے”
’سب تِرے سوا کافر آخر اس کا مطلب کيا
سر پِھرا دے انسان کا ايسا خبط مذہب کيا‘
محترم جاويد سومرو صاحب، آداب! گذشتہ ہفتے ايک کام کی غرض سے ملتان جانا ہوا۔ بس کے لاہور سے نکلتے ہی ڈرائيور نے کيسٹ لگا دي، ابھی لتا کا نغمہ ’دو دل ٹوٹے دو دل ہارے، دنيا والو صدقے تمہارے‘ پوری طرح سے ابھرا نہ تھا کہ ايک گرجدار آواز گونجي: ’بند کرو يہ فحش گانے‘ گھنی داڑھی والا عالم غيض ميں تھا۔ ايک سواری نے اسکو کہا کہ ’تم کون ہو روکنے والے، ہم تو سنيں گے‘- کچھ اور سواريوں معہ خاکسار نے بھی اس آواز کا ساتھ ديا اور کہا ’ڈرايئور کيسٹ چلا دو!‘' کيسٹ دوبارہ چلا دی گئي۔ اس پر ريش دراز مزيد غيض وغضب ميں آيا اور خاصی تُو تُو ميں ميں ہوئی اور دھمکی آميز لہجے ميں کہنے لگا ’تم چلا کر ديکھو يہ گندے گانے ميں تم سب کو ديکھ لوں گا-‘ ڈرائيور نےگھبرا کر کيسٹ بند کردي۔ پھر آوازيں آنے لگيں ’کيسٹ چلاؤ!‘، ’کيسٹ بند کرو‘، ’ کيسٹ ضرور چلے گي‘، ’ميں نہيں چلنے دوں گا---‘ ڈرائيور جو اس ہنگامہ سے اب خاصہ پريشان دکھائی دے رہا تھا سواريوں سے مسکينی انداز سے مخاطب ہوا ’جانے ديں! آپ لوگ تو چلے جائيں گے، انہوں نے مالکوں سے ميري شکايت کردي تو ميں نوکري سے جاؤں گا‘۔ پھر کيسٹ تو نہ چلی مگر سو ميل کا سفر عجب تناؤ ميں کٹا۔ ميں سارا راستہ يہی سوچتا رہا کہ انہيں کس نے اختيار ديا ہے کہ اگر موسيقی انہيں پسند نہيں تو باقی لوگ بھی نہيں سن سکتے۔
سومرو صاحب، ايک بات تو طے ہے کہ عقيدہ چاہے مذہبی ہو، سياسی ہو، وراثتی ہو، جينياتی ہو، قانوني ہو، معاشرتی ہو يا کوئی اور، وہ ذہانت کو نقصان پہنچاتا ہے اور اسکی نشونما ميں روڑے اٹکاتا ہے۔
يہ ہمارے دينی مفکرين، علماء، خطيبوں، نظام تعليم اور ملائيت کا کمال ہے کہ انہوں نے عقل دشمنی کيلیے کوئی کسر نہيں چھوڑي۔
’انسان کا انسان سے ہو بھائي چارہ
يہي پيغام ہمارا‘
خير انديش، نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان
ظالموں اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلےگا يہ وقت کی بات ہے
وہ يقينا سنے گا صدايئں ميری کيا تمہارا خدا ہے ہمارا نہيں
نام نہاد مسلمان کہلوانے والے طالبانوں کے خود ساختہ مذہب نے جو دشمني ہم لڑکيوں سے مول لي ہے يہ دشمنی ان کو بہت مہنگی پڑے گي- ہماری آہيں ايک روز ضرور اللہ کی بارگاہ ميں سنی جائيں گي- انشاللہ- بی بی سی پر ساتويں جماعت کی سوات کی طالبہ کی ڈائری نے بھی رلا ديا ہے- ظالمو ياد رکھنا، اللہ کے ہاں دير ہے اندھير نہيں-
شاباش موڈريٹر صاحب، آپ نے فيضان صديقی کا لمبا تبصرہ سنسر کرکے اس پيج کو بور ہونے سے بچا ليا ہے۔ ميں تو کل ہی حيران تھی انکا لمبا اور بے سرا تبصرا چھپ کيسےگيا؟ اس تبصرے ميں عبارتی غلطياں بھی بے شمار تھيں اور عام سی باتيں لکھی تھيں۔ اور تو اور اس تبصرے سے باقی تبصروں کا حسن خاص کر سائکو بھائی کے دلچسپ تبصرے بھی ڈوبتا نظر آنے لگا تھا۔ فيضان، لکھنے سے پہلے دوسروں کے تبصروں کو غور سے پڑھا کرو خاص کر ميرے تبصرے تاکہ آپکو اندازہ ہوجائے کہ کيسے لکھا جاتا ہے۔ ايک بات اور موڈريٹر صاحب کا وقت بہت قيمتی ہوتا ہے اس ليے اوٹ پٹانگ لکھ کر نہ بھيجا کريں۔ اميد کرتی ہوں کچھ سيکھ لو گے ميرے اس تنقيدی تبصرے سے۔