بس یوں ہی لکھ دیا !
جب ستمبر انیس سو انتالیس میں ہٹلر کی نازی افواج نے پولینڈ کے دارلحکومت وارسا پر قبضہ کیا تو ایک کام یہ کیا گیا کہ وارسا کے لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ یہودیوں کو باقی شہر سے علیحدہ رکھنے کے لئے انکی آبادی کے گرد ایک بلند چاردیواری بنادی گئی۔
اسکے سبب اس آبادی کو ایک ڈبل روٹی اور سوئی تک باہر سے لانے کے لئے نازی پہرے داروں کی خوشامد کرنی پڑتی تھی۔ محصور یہودیوں میں سے ہزاروں بھوک اور دوائیں نہ ملنے کے سبب مر گئے۔ ڈھائی لاکھ یہودیوں کو مزدوری دینے کے بہانے تربیلانکا کنسنٹریشن کیمپ بھجوا دیا گیا۔لیکن جب اس یہودی محلے میں باقی رہ جانے والے پچاس ہزار کے لگ بھگ لوگوں پر یہ بات پوری طرح آشکار ہوگئی کہ جرمنوں نے انکے لاکھوں پیاروں کو روزگار کے نہیں بلکہ موت کے سفر پر روانہ کیا ہے تو اپریل انیس سو تینتالیس میں ایک دن اس محصور محلے میں ٹھوں ٹھاں شروع ہوگئی۔
مزاحمتی بغاوت کرنے والے سات سو سے ایک ہزار کے لگ بھگ یہودی نوجوان چند اسمگل شدہ پرانی بندوقوں، کچھ زنگ آلود پستولوں، بوتل بموں، خنجروں، چاقوؤں، ڈنڈوں اور اینٹوں سے لیس تھے۔جبکہ انکے مدِ مقابل چھ ہزار جرمن فوجیوں کو ٹینکوں اور طیاروں کی مدد حاصل تھی۔ اسکے باوجود جرمن فوج کو یہ بغاوت کچلنے میں ایک ماہ لگ گیا۔ سولہ جرمن فوجی مرے جبکہ تیرہ ہزار یہودی جاں بحق ہوئے ۔جن میں سے چھ ہزار جلتی ہوئی عمارتوں میں پھنس کر ہلاک ہوگئے۔جرمنوں نے یہودیوں کی بچی کھچی عبادت گاہیں، سکول اور ڈسپنسریاں زمین سے ملادیں ۔معذوروں کو وہیل چیرز سمیت اوپر سے پھینک دیا گیا۔اور بیماروں کو علیحدہ کرکے گولی مار دی گئی۔باقی رہ جانے والوں کو مال گاڑیوں کے ڈبوں میں بند کرکے کنسنٹریشن کیمپوں کی جانب روانہ کردیا گیا۔
آج مشرق و مغرب کا ہر باضمیر نازی مظالم پر تھو تھو کرتا ہے۔اور وارسا مزاحمت کا دن اسرائیل میں نہائیت عقیدت و احترام سے یاد رکھا جاتا ہے۔
گذشتہ برس اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف جنرل گیبی اشکنازی نے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے اعلی فوجی افسروں سمیت وارسا کے اس علاقے کا دورہ کیا جہاں یہ مزاحمت ہوئی تھی۔
یہ واقعہ بس میں نے یوں ہی لکھ دیا۔اس کا غزہ کی تازہ صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ۔ویسے بھی مجھے خود پر اینٹی سمیٹک کا ٹھپہ لگوانے کا کوئی شوق نہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
يہ واقعہ انيس سو انتاليس سے ذرا پرانا ہے اس کا غزہ کی تازہ صورتحال سے کوئی تعلق نہيں۔ ليکن تاريخ اپنے آپ کو دہراتي ہے۔ جنگ ِ خندق کے محصورين اپنے سے بڑے لشکر کي دستبرد سے محفوظ رہنے ميں کامياب ہيں دشمن اپني مہم کو مناسب موقع کی تلاش کے لیے موءخر کر کے لوٹ جاتا ہے اور محصورين کے سورما اپنی طاقت کا اظہار کرنے کے لیے بنو قريظہ کی يہودی بستی کا محاصرہ کر ليتے ہيں۔ انفرادی حماقتوں کی سزا پوری بستی کے مکينوں کو اپنی جان و مال کی شکل ميں ادا کرنی پڑتی ہے انسانی فطرت ميں رحم کا فقدان کيوں ہے؟
پچھلے دس منٹ سے اس بلاگ پر تبصرہ لکھنے کا سوچ رہا ہوں ليکن سمجھ نہيں آتی کہ اپنی وضايت خود کرتے اس بلاگ پر کيا کہوں يقين نہيں آتا کہ يہودی اتنی جلدی اپنا ماضی بھول گۓ