144 طاقت کا سرچشمہ
مجھے بچپن کی دسبمر انیس سو اکہتر والی رات اپنے پڑوسیوں کے مرفی فلپس ریڈیو سیٹ پر سنا ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کا ملکی اقتدار سنبھالتے وقت 'قوم سے وہ خطاب' یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا 'میں بھی جیل گیا ہوں۔ پولیس کی لاٹھی چارج کے نشانات میری پیٹھ پر آج تک موجود ہیں۔ آؤ آج سے ایک نئے پاکستان کی تعمیر کریں۔ قائد اعظم کا پاکستان'۔
عوام نے دیکھا کہ وہ 'قائداعظم' والا پاکستان تب آنیوالے دنوں میں فقط 'قائد عوام کا پاکستان' بن کر رہ گیا تھا جسے ذوالفقار علی بھٹو جیسے حکمران نے بھی اپنے اقتدار کے باقی تمام سال زیادہ تر تین چيزوں پر چلایا تھا اور وہ تین چیزيں تھیں ' ڈی پی آر ('ڈیفینس آف پاکستان رولز') ، دفعہ ایک سو چوالیس اور ان کی گسٹاپو ٹائپ فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف)۔
لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ انگریز بہادر کی پاکستانی حمکرانوں کے لیے ترکے میں چھوڑی ہوئی اس 'دفعہ ایک سو چوالی' سے، یہ ہماری 'لاٹھی گولی کی سرکاروں' کی مشکلیں کس قدر نہ آساں ہو گئی ہیں۔
دفعہ ایک سو چوالیس نہ صرف قلفی،گولے گنڈھے، اور پتنگ بازی یا میلوں موجوں میں لاٹھی ڈانگ نہ اٹھا کر چلنے پر لاگو ہوتی ہے بلکہ جلسوں جلوسوں اور اجتماعات پر بھی لگتی ہے۔ دفعہ ایک سو چوالی جس کی خلاف ورزی دفعہ ایک سو اٹھاسی کہلاتی ہے اور نواز شریف نے اسی کے دو سو اٹھاسی ٹوٹے کرنے کی بات کی ہے۔
پاکستان میں آج کی حمکران پارٹی کے لیڈروں کارکنوں میں ایسے بھی کئی ہیں جن کیخلاف ضیا الحق اور نواز شریف کے دنوں میں محض اپنی جماعت سازی یا اجتماع کے حق استعمال کرنے پر بے دریغ ایک سو چوالی کی خلاف ورزي کے مقدمے قائم کیے گئے تھے۔ کئی برس بھٹو خواتین اور آج کی حمکران پی پی پی اسی ایم پی او کے تحت نظر بند رہے جس کا بے دریغ استعمال اب سینکڑوں وکلا اور مسلم لیگ نواز شریف کے رہنماؤں اور لیڈروں پر آج کی زرداری حکومت کر رہی ہے۔
یعنی کہ ملک کو ایک سو چوالیس اور ایم پی اوز پر چلانا ہی اصل طاقت کا سرچمشہ کہلایا۔
تبصرےتبصرہ کریں
پاکستان کا اللہ ہی رکھوالا ہے۔
نہ تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے
یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے
ايشياء کے شيکسپیئر وارث شاہ نے تو عرصہ پہلے ہی اپنی ’ہير‘ ميں کہہ ديا تھا کہ:
’سوٹا پير اے وگڑياں تگڑياں دا‘
رواں دور ميں صحيح معنوں ميں اصل طاقت کا سرچشمہ ’ماس ميڈيا‘ ہے۔
زرداری نے جس طرح لانگ مارچ کو کچلنے کے ليے دفعہ 144 کا بے دريغ استعمال کيا ہے اس کی مثال تو مشرف کے 7 سالہ سياہ دور ميں بھی نہيں ملتی۔
شرم کے مارے صدر نے چيف کی بحالی کا اعلان نہیں کيا۔ بےچارے کس منہ سے قوم کے سامنے آتے۔
بھائی نجيب اگر وگڑے تيگڑے سے مراد شريف صاحبان ہیں تو وارث شاہ صاحب کا قول ان پرصادق نہيں آيا۔ کيا خيال ہے ؟
بھٹو کہا کرتے تھے کہ طاقت کا سرچشم عوام ہے ليکن انہوں نے سہارا ليا ڈی پی آر، 144 اور ايف ايس ايف کا ليکن گزشتہ دنوں لاہوری سیلاب نے ثابت کر ديا کہ طاقت کا سرچشہ عوام ہے۔ اب مياں برادران کا امتحان شروع ہوگيا ہے۔
پرسوں تو ایک سو چوالیس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا سرکار کو
اصل میں طاقت کا سرچشمہ تو عوام کو ہونا چاہیے لیکن ہمارے ملک عظیم میں جمہوریت ہوتے ہوئے بھی اُلٹ ہو رہا ہے۔ ہر کسی کو اپنی حکومت کی پڑی ہوئی ہے۔ زرداری مزے لوٹ رہا ہے، شریف برادران کو اپنے اقتدار کی پڑی ہے۔ غریب عوام کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔
جناب پاکستان کو جتنا نقصان اس کی اشرافیہ نے پہنچایا ہے ۔۔۔اتنا کسی نے نہیں پہنچایہ۔۔۔۔۔ لانگ مارچ کو ہی دیکھ لیں۔۔۔۔آپ بھی صحافی ہیں۔۔۔ کیا اس ڈرامے کی وجہ سے انقلاب کے پریشر کو کس طرح ختم کر دیا گیا۔۔۔۔ میں تو کہتا ہوں یہ ملک کڑور پاکستانیوں کا نہیں بلکہ ڈھائی فیصد مسخروں کا ہے۔۔۔۔جو عوام کو تیزی سے شدت پسندی اور جرائم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔۔۔