نظام عدل کونسا؟
جس قوم میں نظام عدل کا قیام متنازعہ ہو اور نصف سے زائد آبادی گھبراہٹ کا شکار ہو دانشوروں کے مطابق اُس قوم کا تانا بانا اگر وہاں کے آقافورا نہ سنبھالے تو پوری قوم انتشار اور بے یقینی کی نذر ہوتی ہے۔
ممگر نصف سے زائد آبادی کی پریشانی شائد حق بجانب ہو کیونکہ یہ نظام عدل وہ نہیں جو تقریباً پندرہ سو سال پہلے قائم ہوا تھا۔
کہتے ہیں ان صدیوں میں اس میں کچھ کچھ ملاوٹ بھی آئی جہاں عربوں نے اس میں اپنی پسند وناپسند کا خیال رکھا وہی ایرانیوں نے اسے اپنی سوچ کے مطابق ڈالا جبکہ عجمیوں نے اس میں اپنی تہذیب و ثقافت کا رنگ بھر دیا۔
سوات یا مالاکنڈ کے نظام عدل پر ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کس سوچ کی غماز ہے۔
جب محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لۓ الگ مملکت بنانے کا منصوبہ ظاہر کیا تو اس وقت کی اسلامی قیادت نے اس کے خلاف کافی ہنگامہ کیا تھا پھر یہی لوگ مملکت خداداد بنانے کی مانگ میں پیش پیش رہے گویا تضاد آج کا نہیں پہلے سے موجود ہے۔
ویسے مسلمانوں کو شائد ہی نظام عدل سے خوف ہو مگر مالاکنڈ والے نظام عدل سے خوف بھی ہے اور خطرہ بھی ۔اس میں گنجائش ہے کہ وہ اس قوم کو دور ِجہالیہ کی طرف واپس دھکیلے۔
ستم بلائے ستم اہل دین کو جگ ہنسائی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘عدل کا تم نہ دلاؤ ہمیں احساس قتیل
قتل ہو جاتے ہیں یہاں زنجیر ہلانے والے‘
فيض صاحب تو کبھی کے فرما چکے ہيں „„„
ميرا قانوں بھی نيا ميری شريعت بھی نئ
ميرا مسلک بھی نيا راہِ طريقت بھی نئ
اب فقيھانِ حرم دستِ صنم چوميں گے
سٌرو قد مٹی کے بونوں کے قدم چوميں گے
فرش پر آج درِ صدق و صفا بند ھوا
عرش پر آج ہر اک بابِ دعا بند ہوا
اور „„
”وہ” يہ کہتے ہيں کہ ”تو” خوشنود ہر اک ظلم سے ہے
”وہ” يہ کہتے ہيں کہ ہر اک ظلم تيرے حکم سے ہے
گر يہ سچ ہے تو تيرے عدل سے انکار کروں؟
ان کی مانوں يا تيری ذات کا اقرار کروں؟؟
کسی قوم کی بربادی اس مين نہين کہ ان کے سارے عالم يافضل قتل کر ديے جايے بلکہ بربادی اس وقت ہوتی ھے جب ان پہ جاھل اور نااہل حکمرانی کرے، اللہ اہل پاکستان کو ان جاہلوں سےاپنی حفظ وامان ميں رکہيںٰ آميں
تيغ ھے منصف۔ جھاں دار و رسن ہے شايد،
بےگناہ کون ہے اس شھر ميں فاتل کے سـوا،