کون صحیح ہے؟
پہلے صوفی محمد نے کہا کہ پارلیمنٹ، عدالتیں، الیکشن، سیاستدان اور وہ لوگ جو کالی پگڑی نہیں پہنتے کافر ہیں۔ ملاؤں میں کافر قرار دینے کا رواج بہت قدیم ہے۔
ابنِ انشا نے تو اردو کی آخری کتاب میں لکھ دیا تھا کہ پہلے ہم لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانے کی کوشش کرتے تھے اب ہم سب کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
لیکن اتنا وسیع و عریض فتویٰ کفر تو شاید پوری اسلامی تاریخ میں کبھی نہیں دیا گیا۔ اب کیا کیا جائے اس فتوے کے تحت وہ مفتیان بھی کافر قرار پائے جو خود ساری عمر دوسروں کو کافر قرار دے کر روزی روٹی کماتے رہے ہیں۔ اور تو اور جماعتِ اسلامی کے تازہ تازہ منتخب ہونے والے امیر مولانا منور حسن بھی اسی فتوے کی خبر میں آگئے۔ وہ جماعت اسلامی کے ارکان کی ووٹنگ سے منتخب ہوئے ہیں۔ اور جماعت اسلامی کو اس بات پر بجا طور پر فخر ہے کہ وہ پاکستان کی واحد جماعت ہے جو اپنی قیادت کا انتخاب جمہوری عمل کے ذریعے کرتی ہے (یہ علیحدہ بات ہے کہ جماعت کا جمہوری عمل ہندوستانی الیکشن کی طرح طویل ہے لیکن ووٹ دینے کا حق حاصل کرنے کے لیے کردار کی جو پختگی اور ایمان کی جو مضبوطی چاہئیے وہ صرف چند ہزار لوگوں کے ہی نصیب ہے۔ باقی بدنصیب قوم یا تو اس معیار پر پوری نہیں اترتی یا پورا اترنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی)
باقی قوم کی طرح مجھے بھی مولانا منور حسن کا اس فتوے کی زد میں آنے کا بہت صدمہ ہوا لیکن مولانا بذلہ سنج واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے قوم کو یاد دلایا کہ کیونکہ مولانا صوفی محمد نے بھی ایک دفعہ کونسلر کا الیکشن لڑا تھا (اور ہارا تھا) اس لیے 'تھوڑے سے کافر' تو وہ بھی ہوئے۔
اب میرے جیسا علم دین کا مبتدی تو یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ دونوں میں سے کون صحیح ہے؟ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مولانا منور حسن کا ایک اور بیان آگیاجس میں انہوں نے فرمایا کہ دراصل صوفی محمد اور انکے مقاصد ایک ہی ہیں۔
اب اگر میں ایک پرامن شہری کے طور پر دونوں کی بات مان لوں تو دونوں' کافر'۔ اور امریکہ کو تو خیر ہم سب سے بڑا کافر مانتے ہی ہیں۔
پریشانی صرف اس بات کی ہے کہ' کفار' کی آپس کی لڑائی میں بیچارے اتنے مسلمان کیوں مارے جا رہے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
سب مکافات عمل ہے۔ 1974 ياد ہے نا؟
ايک مسشورہ سب کے لیے۔ کچھ کام خدا کے لیے بھي چھوڑ دو۔ ملا نے خدائی کام بھی اپنے ہاتھ ميں لے لیے ہيں۔
آپ صحرا کو گلستان کہیں تو اس ميں ہمارا کيا قصور۔ سارا قصور آپ کے چشمے کا ہے۔ جیسے ہر انسان پيٹ کے لیے دہاڑی لگاتا ہے، کوئی ڈاکو بن کر اور کوئی ڈاکٹر۔ اس طرح صوفی محمد اور جماعت اسلامی ہيں۔ آپ دونوں کو ايک ترازو ميں نہ تولیں تو اچھا ہے۔ دونوں کا مقصد ايک ہی ہے مگر طريقہ کار ميں بڑا فرق ہے۔اور ميرے خيال ميں ہر مسلمان کا يہی مقصد ہوگا۔
’ميری زندگی کا مقصد تيری دين کی سرفرازی
ميں اس لیے مسلماں ميں اس لیے نمازی‘
مسلمان کافر تو نہيں ہوتا مگر کبھی کبھی منافق بن جاتا ہے۔
’دو رنگی چھوڑ کر ايک رنگ ہو جا
يا سراسر موم ہو جا يا سنگ ہوجا‘
واہ، واہ!
ہمارا شاعر تو کب سے کہہ چکا ہے
’ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ہے
اب وہ کافر کو مسلماں نہيں کرنے ديتے‘
حنیف بھائی آپ ان کی نیت پر شک نہیں کریں پلیز۔
حنيف صاحب ايسا بھی ہوتا ہے۔ آپ تو بس يہ ديکھيں کہ کيسے ڈنکے کی چوٹ پر ايک دوسرے پر تاک تاک کر حملے ہو رہے ہيں۔ کہا يہ جاتا ہے ہم مسلمان ہيں اور ايک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو کافر کہنا کہاں تک درست ہے يہ بھی ايک الگ بحث ہے۔ دُکھ تو اِس بات کا ہے کہ ہم اب کيا صِرف فتووں تک ہی محدود ہوگئے ہيں يا کر دیے گئے ہيں۔ ہر دن ايک نيا فتويٰ، ايسے ميں دیکھنے والوں کو اپنے پر ہنسنے کا موقع ہم خُود دے رہے ہيں اور’ کافر کافر‘ کھيلنے والوں کی اِس لڑائی ميں مر بھی مُسلمان رہے ہيں۔
ہم پاکستانی عوام کو قومی اسمبلی کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے جیسا ہم نے 1974 میں کیا تھا۔ اگر قومی اسمبلی کا وہ فیصلہ درست تھا تو یہ کیوں نہیں۔
جو کام 1974 میں حکومت کر رہی تھی اب وہ صوفی صاحب کر رہے ہیں۔