'دی شو مسٹ گو آن'
ہمارے ایک صحافی دوست چھٹیاں منانے کہیں جاتے ہیں تو فون کر کے خبردار کرتے ہیں' ہلکہ گورہ زہ خو روان یم خو چی دا جھگڑہ درنہ یخہ نہ شی۔' (میں جا تو رہا ہوں مگر یاد رکھیں جنگ ٹھنڈی نہیں پڑنی چاہیے۔)
جب کسی دن قبائلی علاقے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوتا تو میرے ایک اور صحافی دوست کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے جو یوں منہ لٹکائے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے ان کا کوئی قریبی رشہ دار دارِ فانی سے کوچ کرگیا ہو۔
پاکستان کا کوئی اعلی سول اور فوجی اہلکار امریکی یاترا سے قبل شاید اپنے ماتحت متعلقہ وزراء یا آپریشن کمانڈر کو آنکھ مار کر یہی کہتا ہوگا 'میں جا تو رہا ہوں مگر خیال رہے کہ پیچھے سے طالبان کے خلاف کارروائی ٹھنڈی نہیں پڑنی چاہیے۔'
ہاں اور سیاستدانوں کا کیا ہے، وہ تو ویسے بھی اقتدار کی رسہ کشی میں ہمہ وقت کسی بھی ایشو کو اٹھانے یا دبانے کی تلاش میں رہتے ہیں۔
ایسے میں مجھےکبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، طالبان اور القاعدہ پرچون کی وہ دکان ہے جس میں ہر ایک کو اپنی پسند کا سودا ملتا ہے اور ان سٹیک ہولڈرز کے درمیان بظاہر ایک خاموش سی 'انڈر سٹینڈنگ' نظرآتی ہے کہ 'چاہے کچھ بھی ہو دوکان تو ہر طور چلنی ہی چاہیے۔'
تبصرےتبصرہ کریں
’جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‘
آپ کے وہ دوست ہارون رشيد تو نہيں؟ سارے ہی صحافی ايسے ہی جذبات رکھتے ہيں۔ خبروں کے لیے آپ لوگوں کی بھوک بڑی ديدنی ہوتی ہے۔
اسلام و عليکم!
جناب کی تحرير کی اگر تشريح کی جائے تو ايک موٹی کتاب کی ضرورت پڑے گی۔گويا دريا کو کوزے ميں بند کر ديا گيا ہے۔
اپنی جیبوں کو بھرنے کے لیے اپنے ہی بھائیوں کو مارنے کی روایت اب کی نہیں بلکہ یہ برصغیر کی تاریخ کا ایک بدنما اور بھیانک پہلو ہے۔
کاکڑ صاحب سب سے پہلے تو آپ کو مبارک باد دینے کا موقع ملا تو کیسے پیچھے ہٹوں؟ آپ کے ہر اک لفظ، ہر اک جملے اور ہر اک سٹوری کے لیے میں تہے دل سے آپ کو مبارک باد دیتی ہوں اور سراہتی بھی ہوں۔ آپ نے ٹھیک لکھا ہے، یہ دکان تو چلنی ہے ہر حال میں۔
چھڈو جی کوئی نويں گل کرو۔ (چھوڑیں جی کوئی نئی بات کریں)
اور آپ اس ’دکان‘ کے روزانہ کے گاہک ہیں۔
اس تباہی کا پشتون معاشرہ سالوں تک بوجھ اٹھائے گا۔ پاکستان نے ہميں کيا سلہ ديا۔ ہم گلہ کس سے کريں۔
’ديکھا جو تير کھا کر کميں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی‘
آب ٹھیک کہتے ہیں کاکڑ صاحب۔ ان سب کے بیچ میں ’انڈر سٹینڈنگ‘ کی بلا مشترک ہے۔ عوام کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اللہ ہمارا حامی و مددگار ہو۔
آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔
عبدالحئی کاکڑ صاحب غالباً يہ آپ کا پہلا بلاگ ہے۔ بہت بہت خير مقدم ہے۔
آپ نے اچھا لکھا ہے اور يہ حقيقت بھی ہے۔ کھيلنے والے تو کھيل جاتے ہيں، ان کے لیے تو بس يہ محض ايک شو ہے۔ کون جيتا کون ہارا کون مرا کون بچا کس کا نقصان ہوا اور کسے مات ہوئی، اس سے انہيں کوئی مطلب نہيں ہوتا۔ انہوں نے تو بس بساط بچھا دی ہے اور بس ديکھے جا رہے ہيں کہ بازی کتنی طويل ہونے جا رہی ہے۔ کاش ہم نے يہ بات سمجھی ہوتی۔ کاش ہم بيوقوف نہ ہوتے۔ کاش اسلام کے نام پر جہاد کا ہم پر بھوت سوار نہ ہوتا۔ کاش ہم ميں سوچنے سمجھنے اور جاننے کی صلاحيت ہوتی۔ کاش کاش کاش کاش!