'ڈکٹیٹر، ڈکٹیٹر'
پاکستان کے سابق فوجی صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو ہنگامی بنیادوں پر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اب نہ تو پاکستان کے صدر ہیں اور نہ ہی فوج کے سربراہ۔
چند روز قبل انہوں نے امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹیمور میں افغانستان اور پاکستان میں شدت پسندی کے حوالے سے ایک بہت بڑے ہال میں لیکچر دیا لیکن ان کے انداز خطابت سے ایسا لگا کہ یا تو وہ پاکستان میں حکومت کی لگام ابھی بھی تھامے ہوئے ہیں یا پھر امریکہ کے نمائندے ہیں۔
'ہم یہ جنگ ہاریں گے تو حالات انتہائی خراب ہو جائیں گے اور القاعدہ اور اس کے دہشت گرد افغانستان کو نہ صرف اپنی اماجگاہ بنا لیں گے بلکہ وہ پوری آزاد دنیا میں دہشت گردی کے منصوبے بنائیں گے اور ان پر حکومت کے اختیارات کے تحت عملدرآمد بھی کراسکیں گے'، جنرل مشرف نے کھچا کھچ بھرے ہال کے امریکی سامعین کو بتایا۔
لیکن پھر ہال میں جیسے نواب اکبر بگٹی کی روح پرویز مشرف کا پیچھا کرتے ہوئے پہنچ گئی۔ سابق جنرل جب امریکی سامعین کو طالبان کی تشریح کر رہے تھے کہ اچانک آواز آئی، 'ڈکٹیٹر، ڈکٹیٹر۔' ہال میں کھسر پھسر شروع ہوگئی۔
بعد میں مجھے بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کے لیے کام کرنے والے کارکن احمر مستی خان نے بتایا کہ انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف ہوٹنگ کی۔
ڈکٹیٹر، ڈکٹیٹر اور کِلر کِلر کی آوازوں کے بعد تو جیسے احمر مستی خان اور پرویز مشرف کے درمیان دو گانا شروع ہوگیا۔
اچانک سابق جنرل صاحب نے بھنا کر اپنا لیکچر درمیان میں روکا اور جواب دیا، 'ہاں میں تم جیسے لوگوں کے لیے ڈکٹیٹر ہوں اور اگر تم پاکستان میں ہوتے تو تمہیں بھی اسی طرح ٹھیک کرتا جیسے تم جیسے باقی لوگوں کو ٹھیک کیا تھا۔' ہال میں امریکی جمہوریت اور آزادی کا تجربہ رکھنے والے لوگ ہکا بکا رہ گئے۔
میرے برابر میں بیٹھی خاتون کو یقین نہیں آیا۔ انہوں نہ مجھ سے پوچھا کہ کیا انہوں نے وہی کہا جو انہوں نے سنا۔ میں نے ان سے کہا ابھی آپ نے جنرل صاحب کو سنا ہی کہاں ہے جب وہ موڈ میں ہوتے ہیں تو پتا نہیں کیا کیا کہہ جاتے ہیں۔
جنرل مشرف نے پھر یہ بتانا شروع کیا کہ کیسے بھارت اس دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ 'ہم بلوچستان چاہتے ہیں، بلوچستان سے چلے جاؤ۔' پھر اچانک آواز آئی۔ پرویز مشرف نے کہا کہ 'تم جیسے لوگوں کو جو بلوچستان چاہتے ہیں اور الگ ہونا چاہتے ہیں، ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی پاکستان کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا، جو لوگ کریں گے ان کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ میں بذات خود تمہیں ٹھیک کرتا۔'
تالیوں کی گونج میں پرویز مشرف نے پھر خطاب شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ القاعدہ ایک علامت ہے نہ کہ ایک ایسی تنظیم جو کہ پاکستان کے پہاڑوں میں بیٹھی القاعدہ کی مرکزی قیادت چلا رہی ہو۔
پاکستان کا اصرار ہے کہ القاعدہ کی قیادت پاکستان میں نہیں لیکن سابق جنرل اور امریکہ کے خیالات یکساں لگے کہ القاعدہ کی قیادت پاکستان میں ہے۔
پھر جنرل مشرف نے کہا کہ ہم نے وادی سوات میں شدت پسندوں کو کامیابی سے ختم کردیا ہے اور اب دیگر علاقوں میں کارروائی کی ضرورت ہے جبکہ ساتھ ساتھ شدت پسندی کی سوچ، جہالت اور غربت کے خاتمے کے لیے لڑائی لڑنی ہے۔ ریٹائرڈ جنرل نے امریکہ کو مشورہ دیا کہ وہ سنبھال کر قدم اٹھائے اور پاکستان میں ایسی قیادت کی حمایت کرے جو دہشت گردی کے خلاف لڑائی لڑے ایسا نہ ہو کہ آج کے غلط فیصلوں کی وجہ سے کل امریکہ کو افسوس کرنا پڑے۔
جنرل مشرف ان دنوں امریکہ میں جہاں جاتے ہیں احتجاج ان کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ اس خطاب کے دوران بھی بلوچ قوم پرستوں اور امریکہ میں قید پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی کے حامیوں نے احتجاج کیا۔
کاش وہ اپنی چھڑی جنرل کیانی کو نہ دیتے تو ان سب کو ٹھیک کر دیتے۔
تبصرےتبصرہ کریں
رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔۔۔