دکھی ماؤں کے نام
وہ نوجوان ریاض قریشی بھی کچھ روز قبل گولیوں کا لقمہ بن گیا جو کبھی ایک شہری لسانی تنظیم کے جلسوں میں سندھی شاعر آکاش انصاری کی اس شہرہ آفاق نظم کا اردو ترجمہ پڑہا کرتا تھا 'ماں تو رونا نہیں'
مجھے پتہ نہیں کیوں حبیب جالب کا شعر یاد آرہا ہے:
بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کر یہ بولی
کیوں چند لٹیروں کی پھرتے ہو لیے ٹولی
اس ظلم سے باز آؤ بیرک میں چلے جاؤ
آج عالمی یوم مادر کے دن ریاض کی ماں بھی ان لاکھوں کروڑوں ماؤں کی طرح دکھی ہوگي۔
مائیں فلوجہ کی ہوں یا فلوریڈا کی، جہلم کی ہوں یا جنگشاہی کی مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں نہ۔
ماں گئي چھاں گئي
سر تلوں بانہہ گئي
نیویارک کے ایک پنجابی شاعر کا شعر ہے۔
پیارے پاکستان میں آج کے دن وہ سینکڑوں مائيں ہیں جنکے بیٹے لاپتہ ہیں۔ جن کا اتہ پتہ پوچھنے پر ایک دفعہ فوجی ڈکٹیٹر نے ملک کے چیف جسٹس سمیت پوری عدلیہ ہی غائب کردی تھی۔
لاپتہ لوگوں کی ماؤں کا دکھ ان ماؤں سے کوئي زیادہ مختلف نہیں جن کے بیٹے بیٹیاں اجل کے گھوڑے سوار لے گئے ہوتے ہیں۔ اجل کے گھوڑ سواروں کے ہاتھوں اٹھائے ہوئے بچوں کی مائيں تو پھر بھی یقین کرلیتی ہیں کہ ہیں کہ جس طرح بھینس کے تھنوں میں دودھ واپس نہیں جا سکتا اس طرح مرنے والے لوگ واپس نہیں آتے۔
لیکن یہ جو روز جیتی روز مرتی مائيں ہیں جن کے جگر کے ٹکڑے پاکستان کے جاسوسی اداروں والوں کے ہاتھوں لاپتہ کیے ہوئے ہیں ان دکھی مائوں کے نام یوم مادر پر سندیسہ کون ہرکارہ لائے گا!
میں سوچ رہا ہیں ان جاسوسی اداروں والے روبوٹ جیسےانسانوں اور ان کے افسروں کی بھی مائيں ہونگی جنہوں نے پرائے آنکھوں کے تارے آنکھوں پر کالی پٹیاں باندہ کر چھو منتر کی طرح غائب کیے ہوئے ہیں۔ بلوچ مائيں، سندھی مائيں، پنجابی پھٹان مائيں، مائيں نیم کی گھنی چھاؤں جیس مائيں اور ان کے نمولیوں جیسے کڑوے بچے۔ہیپی مدرز ڈے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم حسن مجتبٰی صاحب! بلاگ صفحہ پر واپس عود کر آنے پر جی آیاں نوں۔ ‘مدرز ڈے‘ پر آپ بلاگ دیکھ کر کچھ ڈھارس بھی بندھی کہ:
‘کبھی کبھی وہ ہمیں بے سبب بھی ملتا ہے
اثر ہوا نہیں ہے اُس پر ابھی زمانے کا‘
حسن مجتبی صاحب کافی عرصہ بعد آپ کا بلاگ پڑھنے کو ملا اور آپ کی خيريت کا پتہ چلا کيونکہ بندہ کے علاوہ بھی بہت سے قارین آپ کی لکھائی کے فين ہيں اور مدرز ڈے کے حوالے سے آپ نے ماں کی محبت کا حقيقی نقشہ کھينچا ہے۔کاش دنيا کی تمام مائيں خوش و خرم رہيں ليکن اس کے ليۓ دنيا ميں ابھی تک کوئی قانون ،مذہب يا قائدہ نہيں بن سکا جو امن کا ماحول بنا سکے۔جن بدقسمت ماؤں کا آپ نے ذکر کيا ان ميں اور اس فاختہ يا چڑيا ميں کوئی فرق نہيں جس کے بچے کوا اٹھا کر لے جاتا ہے بس کووں کا کردار يہ ہی انٹيليجنس اور ان کی قائم کردا لساني اور مذہبی تنظيميں ادا کرتيں ہيں۔جن کے بيٹے غايب ہيں ان کے ليۓ ہم صبر کی دعا ہی کرسکتے ہيں اور خدا سے بدست دعا ہيں کہ تمام بچھڑے بچوں کو ان کی ماؤں سے ملوادے اور وقت کے فرعونوں کا کوئی احتساب کرے۔
چونکہ مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لہذا انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ صرف لاپتہ لوگوں کی ماؤں ہی کے دکھ کا احساس نہیں ہونا چاہیے بلکہ عراقی ماؤں، فلسطینی ماؤں، کشمیری ماؤں، افغانی ماؤں، ویتنامی ماؤں، بوسنیائی ماؤں، ‘ممبئی ماؤں‘، اور ‘ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘ کی ماؤں کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں کی ان ماؤں کے دکھ و غم کا بھی احساس رکھنا چاہیے اور اس کا اظہار کرنا چاہیے جن کے بیگناہ اور ‘دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ سے یکسر لا تعلق جگر کے ٹوٹے آئے دنوں ‘ڈرون حملوں‘ کا لقمہ بنتے رہتے ہیں۔
آپ ایک دفعه پھر چھا گئے
ماں کا دکھ
میری ماں مرگئی تھی غلام حسن مجتبی کی گمشدگی کا سن کر
اور میں نفسیاتی مریض بن چکا هوں بھائی کی گمشدگی سے
وہ کون سی ہے چيز جو اس دنيا ميں نہيں ملتی
سب کچھ مل جاتا ہے پر ماں کہيں نہيں ملتی
کيوں افسردہ ہوں ميں رونے کی کوئی بات نہيں
جب ماں ہو ميرے ساتھ تو غم کی کوئی بات نہيں
کيا اتنے بر ے ہيں وہ جو کھو گئے ہيں کہيں
ماں بلاتی ہے پر وہ دور اتنے کہ آواز جاتی نہيں
امید کی کوئی نئی داستان انفولڈ کرنے کا ارادہ لگ رہا ہے جناب کا ۔ اتنی بھی مایوسی کی باتیں کہیں الٹی نہ پڑ جائیں اور امید میں نئی روح پھونکنا مشکل ہو جائے ۔
آپ ماؤں کے دن پر بھی پاک فوج کو بدنام کرنے سے باز نہيں آئے- يہ پاک فوج ہی ہے جو ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کے سامنے سيسہ پلائی ديوار بنی ہوئی ہے- اسی ليۓ يہ دشمن اس کانٹے کو ہميشہ کے ليۓ نکالنا چاہتے ہيں- پاک فوج کو چاہيۓ کہ باقی ملک دشمنوں کو بھی ماؤں سميت ہميشہ کے ليۓ غائب کردے-
میں خود تین بچوں کی ماں ہوں اور اچھی طرح جانتی ہوں کہ ماں کے کلیجے کی ٹھنڈک اس کے بچے ہوتے ہیں۔
حسن مجتبي صاحب!ان دکھی ماؤں کا تذکرہ کرکے آپ نے ان لوگوں پر سکتہ طاری کرديا ہے جو ”ہيپی مدرز ڈے” کی گردان کررہے تھے۔يقينا” يہ مدرز بے چاری سيدھی سادی ہيں جو ان بھول بھليوں سے نا آشنا ہيں کہ انکے بچے کس جرم ميں اور کس کی تحويل ميں ہيں۔ انکو تو يہ بھی نہيں معلوم کہ انکے بچوں پر دھرتی ماں بھی تنگ کردی گئی ہے تو وہ بھی سوگوار ہےـايسی ماؤں کا دھرا دکھ تو يہ بھی ہے کہ انکو اپنے لاپتہ جگر گوشوں کے بارے ميں يہ بھی نہيں پتہ کہ وہ زندہ بھی ہيں کہ نہيں؟ادھر اس قبيح فعل ميں مصروف عمل ”غازی و پراسراربندے”اور انکے مددگار تو اعلی عدليہ کو بھی چکمہ دينے سے باز نہيں آتے اور جھوٹا حلفی بيان دينے سے بھی نہيں گريز کرتے۔اس جاری مشق ميں جانے زمين و آسمان کيسے کيسے خوبرو اور کڑيل جوان نگل گئے ہيں۔ يہ رياستی جبر وظلم کب ختم ہوگا کوئی بھی نہيں جانتا۔واہ ری ہماری قسمت
آپ نے مائوں کے عالمی دن پر پاکستان ميں اجڑی گود والی مائوں کا ذکر کيا ہے وہ مائيں جن کے بچوں کو بقول حکومتی اہلکاروں کے پتہ نہيں کون لے گيا ہے مذاق کی حد تو يہ کہ حکومت کو پتہ بھی سب ہے ليکن حکومت ان ہاتھوں کو بے نقاب اس لئے نہيں کر سکتی کہ حکومت جانتی ہے کہ اگر ان ہاتہوں کی نشاندہی کی گئی تو وہ قوتيں شايد ان کو آگے نہيں چلنے ديں گي ـ ميں روز ان مائوں کو اسلام آباد ميں انصاف دينے والے بڑے ادارے سپريم کورٹ کے احاطے ميں بی يار و مددگار ديکھتا ہوں جن کے بچے پتہ نہيں کون اٹھا کر لے گيا ہے سپريم کورٹ جس نے سب سے پہلا از خود نوٹس مسعود جنجوعہ کی گمشدگی پر ليا تھا اور وہ نوٹس 2007 کے شروع ميں ليا گيا تھا ليکن آج تک سپريم کورٹ يہ پتہ نہيں لگا سکی کہ اس بندے کو زمين نگل گئی يا آسمان کھا گياـ سپريم کورٹ جس ميں تيں سالوں سے چل رہا ہے يہ گمشدہ لوگوں کا کيس ليکن آج بھی اس انجنئير فيصل فراز کی نوے سالہ ماں اس آس ميں ہے کہ وہ ايک دن اپنے اس بيٹے سے ضرور ملے گی جس کا يہ پتہ نہيں کہ وہ حيات بہی ہے يا نہيں فيصل ايک نہيں عتيق بہی ہے جس کو ايجنسيوں نے اس کی شادی کے دن ہئير کٹنگ سيلون سے اٹھا ليا جس کا بھی آج تک کوئی پتہ نہيں ـ ايبٹ آباد پوليس کے ايک آفيسر نے سپريم کورٹ کو لکھ کے ديا کے عتيق کو ہم سے خفيہ ادارے لے گئے ليکن اس پر بھی کوئی ايکشن نہيں ہو سکا ـ گمشدہ لوگوں کا کيس پاکستان کا سب سے بڑا کيس ہے يہ بات سپريم کورٹ خود کہہ چکی ہے ليکن سپريم کورٹ اين آر او سے آگے بڑہ نہيں رہی ہے ـ ميں اس زينب خاتون کا ايک جملا يہاں بھی لکھ دوں جو اس نے سپريم کورٹ ميں کہا تھا کہ جج صاحب اب ميں اپنے بيٹے کو تلاش کر کر کے اتنی ٹوٹ چکی ہوں کہ اب ميرا دل کرتا ہے کہ ميں ان ايجنسيوں والوں کے بچے اٹہا لوں تاکہ ان کو بہی پتا چلے کہ درد کيا ہوتا ہےـ
ندیم احمد، آپ کے خیالات پر حیرت نہیں، بی بی سی والوں پر پر ھے، جنہوں نے نے انہیں من و عن چھاپ دیا۔ آپ کے نادر خیالات کہ پاک فوج جس کو دشمن سمجھے ان کی مائوں کو بھی ھمیشہ کے لیے بی غاعب کر دینا چاہیے۔
حسن آپ تو انسان کے دل کے اندر کے رائٹر
ہو...
آپ نے بلکل صحیح لکھا ہے کہ جس ماں کا بچہ غائب کردیا جائے وہ روز مرتی ہے اور روز جیتی ہے۔ پندرہ جنوری دو ہزاہر سات کو ہماری پیاری ماں ہم سبب بھائیوں اور بہنوں کو چھوڑ کر چلی گئی پر ہم آج تک اسے اپنے دل سے نہیں نکال سکے۔بس سائیں ماں تو ماں ہے چاہے وہ بلوچستان کی ہو یا بنگلہ دیش کی یا پاکستان کی نصرت بھٹو -
جن ماؤں سے ان کے جيتے جاگتے انکے بچے چھين لےے گۓ انکے کرب کا اندازہ لگانا مشکل نھيں„„اس موقع پر گمشدہ افراد ميں سے ايک ماں ياد آرھی ھے جسکے جواں سالہ عتيق الرحمن کی شادی سے ايک ماہ پھلے گمشدگی ھوئی اور وہ ماں در در اپنے سھرے سجانے والے بيٹے کی ايک زندہ يا مردہ جھلک ديکھنے کے لیے بے قرار ہے„„پاکستانی ماں کا يہ بھيانک نصيب اور کربلا کا نياميدان ان ماؤں کے لےے کتنا تلخ ھے يہ تو وہ خود مائيں ھی جانتی ھوں گي„„
مارچ 2007 کو 5 نوجوانوں کے ساتھ اقبال بلوچ بھی چار نوجوانوں کیساتھ مبینہ طور فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے 2009 کے اليکشن ميں حصہ لينے والے ایک امیدوار کے ووٹ کے بدلے ان پانچ نوجوانوں کی رہائی مشروط تھی تو چار نوجوان رہاہوئے مگر اقبال تا حال لاپتہ ہے پچلے سال اقبال کی والدہ مزيد غم برداشت نہ کر سکی اور وفات پا گئیں
ميرا سوال صرف کيوں پہ ہو رہا ہے
ايک مدت سے نہ سوئی ميری ماں تابش
اک دن ميں نے کہا تھا کہ مجھے ڈر لگتا ہے
تو ان بے چاری ماؤں کا کيا بنا ہوگا جن کے بچھڑ گئے۔
حسن مجتبی اس کرب کو مٹانا نا ممکن ہے۔ مدرز ڈے کے دن ٹی وی والوں نےبانسری بجا کر غمگين موسيقی کی لے لگا کر ووآئیس اوور کو بہت گمبھير کرکے کچھ مائوں کو اسٹوڈيو ميں بٹھا کر کچھ اسٹورياں دکھا ديں بس مائوں کے اس دکھ درد کو کون سمجھ سکتا ہے ايسا لگتا ہے کہ دنيا کے وہ سپاہی انٹلی جنس کا وہ آدمی اور محکمہ خفيہ کے ہر کاروں کی شايد ماں ہوتی ہی نہيں ہے ورنہ وہ يوں روبوٹ نہ بنتے - بہت پہلے ايک فلم آئی تھی ماں اور بہت پہلے ايک ڈائيلاگ آيا تھا ميرے پاس ماں ہے مووی دکھانے والے چينلوں نے وہی مووياں دکھا ديں اور آپ نے ايک بلاگ لکھ ديا کيا کوئی ہے جو اس کرب کو دل کی گہرايوں سے محسوس کرے اگر ايسا ہوتا تو شاءيد آج ہميں اور آپ کو ايسا کچھ لکھنا ہی نہ پڑتا کيوں ہے کہ نہيں ؟؟