'سیمی فائنل روزے کی حالت میں۔۔۔'
قبائلی علاقوں میں موجود ایک پنجابی طالب سے ٹیلیفون پر بات چیت کے دوران اس وقت اچانک حیرت ہوئی جب اس نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے بارے میں دریافت کیا۔
پوچھا کیا وہ بھی کرکٹ میں دلچسپی لیتے ہیں تو ان کا کہنا تھا: 'ہاں بچپن میں مدرسے کے باہر کھلے میدان میں کرکٹ ہی کھیلا کرتے تھے۔ لیکن اب وزیرستان میں ٹی وی تک رسائی تو ممکن نہیں لہذا انٹرنیٹ پر ہی سکور معلوم کرلیتے ہیں۔'
اس مختصر گفتگو کے بعد سوچا کہ اگر طالبان بھی پاکستانی کرکٹ میں دلچسپی لیتے ہیں تو ان کے نزدیک اس کھیل کو دیکھنے کا قدرے اسلامی طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ میری یہ مشکل ای میل پر موصول ہوئے ایک 'ضروری اعلان' کو پڑھ کر ہوئی۔ مفتی عاشق حسین کرکٹوی جلالی نامی بظاہر فرضی نام کا یہ اعلان آپ کی خدمت میں حاضر ہے (چند تبدیلیوں کے ساتھ):
''ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی قومی کرکٹ ٹیم قوم کی دعاؤں سے سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے۔ اب سیمی فائنل دیکھتے وقت ان باتوں کا خیال رکھا جائے۔
1۔ میچ سے ایک گھنٹہ قبل اپنے (لیکن اپنے سے زیادہ اپنے کھلاڑیوں کے) گناہوں کی معافی مانگنا شروع کر دیں۔
2۔ میچ ہمیشہ باوضو اور مصلے پر بیٹھ کر دیکھیں۔
3۔ میچ کے دوران کرکٹ کی بجائے دعاؤں میں خشوع و خضوع پیدا کریں۔
4۔ کیچ گرانے پر فوری طور پر لاحول ولاقوت کا ورد جاری کر دیں۔
5۔ کمزور دل حضرات میچ سجدے کی حالت میں سنیں۔
6۔ سیمی فائنل روزے کی حالت میں دیکھیں۔
7۔ مخالف کی اچھی کارکردگی کو امریکہ (بلیک واٹر) اور شیطان کی مکار چال سمجھیں۔
نوٹ:
فائنل میں پہنچ جانے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کی دعائیں قبول ہوئیں اور گناہ معاف ہوئے بلکہ اس کی وجہ سٹے بازی کا مندا کاروبار بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستانی ٹیم کے فائنل میں پہنچنے کی صورت میں قریبی دینی مدرسے کے بیس طلبہ کو دو وقت کا کھنا کھلائیں اور اجتماعی دعا کا اہتمام کریں۔ اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ ہر دعا کرکٹ بورڈ کے شر سے محفوظ رہے۔۔۔ آمین! ''
کیا یہ احکامات واقعی طالبان کی طرف سے ہیں، اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اب طالبان یہ چاہتے ہیں کہ کھیلوں کو دینی تناظر میں کھیلنا اور دیکھنا ان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔۔۔؟
تبصرےتبصرہ کریں
آداب! یہ بلاگ مزاح سے زیادہ غیر حقیقی طنز کا عنصر رکھتا ہے اور اس میں غیر سنجیدگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس پر تبصرہ کرنا طنز میں جان ڈالنے کے برابر ہے۔ شکریہ۔
اب ہم يہ نہيں کہ سکتے کہ طالبان آپ کی بدولت کرکٹ تک رسائی کرنے کی کوشش کر رہے ہيں۔ پاکستان نے نہ امريکا کو اور نہ آئي اے ای اے ( IAEA) کو ڈاکٹر قدير تک رسائی دی ليکن آپ طالبان کے کرکٹ پيغام کو عام کر کے بڑا ثواب دارين حاصل کیا ہے۔ اس کے کيا نتائج برآمد ہونے ہيں يہ تو ہم نہيں جانتے ليکن ايک حقيقت ہم پر عياں ہو گئی کہ يہ کرکٹ کے شوقين طالبان وہ ہی طالبان ہيں جنہوں نے افغانستان ميں فٹ بال ٹيم کے سر منڈھوا دیے تھے۔ يہ ہميں آپ سمجھائيں کہ طالبان کی وہ حرکت دين کی محبت ميں تھی يا کرکٹ کی پسند کرنے کی وجہ سے۔ جو بھی تھا اگر يہ بات اس طرح ہو کہ طالبان اب کرکٹ کو اچھا سمجھنے لگے ہيں تو يہ خوشی کی بات ہوگي۔ آپ اس طالبان سے يہ بھی معلوم کرليتے کہ آج کل کرکٹ ميدان ميں جو ناچ گانا ہو رہا ہے اس کے بارے ميں آپ کا کيا خيال ہے۔ اگر اس سوال کا جواب مل جاتا تو اس سے يہ اندازہ باآسانی لگايا جاسکتا کہ يہ کرکٹی طالبان اب کدھر کھڑے ہيں۔
صاحب جی کافی عرصے بعد آپ کا بلاگ ديکھ کی خوشی ھوئی۔ طالبان اور کرکٹ کا ملاپ کافی دلچسپ ھے اور کچھ آپ نے اس ميں رنگ بھر ديا ھے۔ ويسے کرکٹ کی مقبوليت ديکھتے ہوئے اسے قومی کھيل بنانے ميں مضائقہ نھيں۔ طالبان کو اپنے دیگر مطالبات کے ساتھ اس مطالبے کو بھی اٹيچ کر دينا چاھۓ۔ آخر اس ميں حرج ھی کيا ہے؟
پیارے، حیران ہوں کہ آپ نے بےتکی سی بات کو اتنی اہمیت دی کہ بلاگ لکھ ڈالا۔ اللہ اللہ یہ ماجرا کیا ہے؟
جناب ہارون صاحب کیا خوب موقع پر بلاگ لکھا ہے۔ ان ملاوں کی کیا لکھیں پاکستان میں ہر شعبہ کی طرح کرکٹ کی بربادی میں بھی ان کا کافی عمل دخل ہے۔ باقی دعا تو خیر ہر پاکستانی کی یہ ہی ہے کہ پاکستان جیت کر ہی آئے تاکہ وہ دکھ جو یہ لوگ روزانہ پوری قوم کو دیتے ہیں ان سے چند لمحات کے لئے ہی سہی توجہ تو ہٹے۔
ان باتوں پر پہلے سے ہی عمل کرتی ہے پاکستانی قوم۔ آپ کے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کسی طالبانی ای ميل کی اور يہ ايسا کرکٹ سے دلچسپی يا کرکٹ سے کسی قسم کے لگاؤ کا نتيجہ نہيں بلکہ پاکستان سے محبت کی وجہ سے ايسا کرتی ہے۔ ہماری خواتين اور خاص طور پر بزرگ خواتين جن کو يہ بھی نہيں پتہ کہ ايک اوّر ميں کتنی بالیں ہوتی ہيں اور کھلاڑيوں کے نام بھی نہيں پتہ مگر پاکستان کی جيت پر کئی کئی رکعت شکرانے کے نفل ادا کرتی ہيں اور اگر مدمقابل انڈيا ہو تو سر سے دوپٹہ نہيں ہٹتا اور تسبی ہے کہ رکتی ہی نہيں۔ منتيں مانی جاتی ہيں، مزارات پر چادريں چڑھائی جاتی ہيں لنگر تقسيم ہوتا ہے مگر يہ کسی طلبانی مدرسے کو نہيں جاتا بلکہ يہ مستحقين ميں بانٹ ديا جاتا ہے کيونکہ يہ سب کچھ پاکستان سے محبت اور عقيدت کی وجہ سے کرتے ہيں۔ اس بات کا خاص خيال رکھا جاتا ہے کہ يہ نياز پاکستان کے دشمنوں کو نہ دی جائے۔ يہ ہماری ان بزرگ خواتين کی پاکستان سے عقيدت ، محبت اور دوعاؤں کا اثر ہے کہ طالبان جيسے آستين کے سانپ بھی پاکستان کا کچھ نہيں بگاڑ سکے۔ انشاءاللہ پاکستان کے دشمن دہشت گرد نيست و نابود ہونگے۔ پاکستانی قوم کی دعاؤں سے پاکستان ہر ميدان ميں کاميابی کے جھنڈے گاڑے گا۔
ان باتوں پر پہلے سے ہی عمل کرتی ہے پاکستانی قوم نہ ہی آپ کے مشوروں کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی طالبانی ای ميل کی اور يہ ايسا کرکٹ سے دلچسپی يا کرکٹ سے کسی قسم کے لگاؤ کا نتيجہ نہيں بلکہ پاکستان سے محبت کی وجہ سے ايسا کرتی ہے ہماری خواتين اور خاص طور پر بزرگ خواتين جن کو يہ بھی نہيں پتہ کہ ايک اوّر ميں کتنی بولز ہوتی ہيں اور کھلاڑيوں کے نام بھی نہيں پتہ مگر پاکستان کی جيت پر کئی کئی رکعت شکرانے کے نفل ادا کرتی ہيں اور اگر مدمقابل انڈيا ہو تو سر سے دوپٹہ نہيں ہٹتا اور تسبی ہے کہ رکتی ہی نہيں جب تک ميچ کا فيصلہ نہيں ہوجاتا منتيں مانی جاتی ہيں مزارات پر چادريں چڑھائی جاتی ہيں لنگر تقسيم ہوتا ہے مگر يہ کسی طلبانی مدرسے کو نہيں جاتا بلکہ يہ مستحقين ميں تقسيم کر ديا جاتا ہے کيونکہ يہ سب کچھ پاکستان سے محبت اور عقيدت کی وجہ سے کرتے ہيں تو اس بات کا خاص خيال رکھا جاتا ہے کہ يہ نياز پاکستان کے دشمنوں کو نہ دی جائے يہ ہماری ان بزرگ خواتين کی پاکستان سے عقيدت ، محبت اور دوعاؤں کا اثر ہے کہ طالبان جيسے آستين کے سانپ بھی پاکستان کا کچھ نہيں بگاڑ سکے انشاءاللہ پاکستان کے دشمن ديشت گرد نيست و نابود ہونگے ۔پاکستانی قوم کی دعاؤں سے پاکستان ہر ميدان ميں کاميابی کے جھنڈے گاڑے گا
" ٹی وی تک رسائی تو ممکن نہیں لہذا انٹرنیٹ پر ہی سکور معلوم کرلیتے ہیں۔" یعنی بغیر سکرین کے انٹرنیٹ کے مزے۔ لینڈ لائین نہیں، لیزڈ سرکٹ نہیں، موبائل نیٹ ورک نہیں اور چی پی ایس یا سیٹلائٹ فون بھی مہنگا تو باقی رہ گیا صرف سامری کا سفیئر ۔
نماز يا روزہ تو اللہ کی خوشنودی کے ليۓ رکھا جاتا ہے نہ کہ دنياداری کے ليۓ جبکہ باقی بيان کيۓ گئے فارمولوں کا اسلام سے کوئی لين دين نہیں يہ وہم کے زمرے ميں آتے ہيں۔طالبان تو پاکستان کے وجود سے ہی انکاری ہيں تو وہ ٹيم کی حوصلہ افزائی کيونکر کريں وہ بھی ايسی ٹيم کہ جس کے کھلاڑی صرف اس بات پہ جھگڑيں کہ ليڈی انکلوژر کے سامنے کون فيلڈ کرے۔
واہ کیا بات ہے زمانے کی، کیا طالبان اور انگریزوں کا کھیل کرکٹ۔۔۔چلو مان لیتے ہیں بغیر تفصیل میں جاتے ہوئے۔ مگر ایک بات سمجھ نہیں آئی وہ یہ کہ مولانہ عاشق حسین کرکٹوی جنونی معاف کیجئے گا جلالی نے یہ تو اعلان کر لیا کہ قومی ٹیم کی فائنل تک رسائی کی صورت میں قریبی دینی مدرسے کے بیس طلبہ کو دو وقت کا کھانا کھلانا اور اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ خدانخواستہ قومی ٹیم ہار جائے تو طالبان کی طرف سے کیا اھتمام کیا جائے گا؟ میرے خیال میں پھر قومی ٹیم کو طالبان کے قہر سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ دو سزائیں ہو سکتی ہیں یا تو قومی ٹیم کے ایک ایک کھلاڑی کو بیس بیس سر عام کوڑے مارے جائیں!!! یا پھر ایک خودکش بمبار ۔۔۔۔
سر جی کیوں قومی کرکٹ ٹیم کو طالبانوں کے ہاتھوں پٹوانے کے موڈ میں ہیں۔ چلیں جی اجتمائی دعا کا اہتمام کیجئے اور سب کہیں کہ "اے خدا قومی کرکٹ ٹیم کو طالبان سے دور رکھے"۔ آمین۔
يہ مسائل تصوف يہ تيرا بيان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے اگر تو بادہ خوار نہ ہوتا
ان باتوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے ابتدائی میچوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی مجموعی کارکردگی، حکمتِ عملی، پلاننگ اور باؤلنگ و بیٹنگ آرڈر کو مدِنظر رکھتے ہوئے خاکسار اس بات سے اتفاق کرے گا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے کی بنیادی وجہ عوام کی دعائیں ہی ہیں جبکہ دوسری طرف انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی جیت کے بغیر پاکستان کا سیمی فائنل میں پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی جیت میں بھی پاکستانیوں کی ‘دعائیں‘ کام آئی ہیں؟ یہ سوال اس وقت بہت دلچسپی اختیار کر لیتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جو ‘دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ میں امریکہ کا صفِ اول کا اتحادی ہے۔ بعض دفعہ تو برطانیہ کی امریکہ سے جگری یاری آسانی سے نظر آ جاتی ہے کہ ‘دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ بابت امریکی پالیسیوں کے باضابطہ اعلان سے قبل ہی برطانیہ ان پالیسیوں کو ‘لبیک‘ کہہ دیتا ہے جیسا کہ برطانیہ کے افغانستان میں دو ہزار فوجی بھیجنے کے قبل از وقت اعلان سے نظر آتا ہے۔
مفتی صاحب نے کھیل کو دیکھنے کا جو اسلامی طریقہ بتایا ہے اس بابت سب سے پہلے تو مفتی صاحب کو اس بات کا خیال نہیں رہا کہ میچ باوضو ہو کر اگر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو میچ دیکھا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ ہر دوسرے منٹ بعد چند لمحات کے لیے ‘فحاشی‘ کا سین ‘بِکنی ڈانس‘ نظروں میں آ جاتا ہے جس کے نتیجہ میں ‘مومن‘ کا وضو بار بار ٹوٹتا رہے گا۔ یہ درست ہے کہ کم از کم پاکستان اور بھارت کے کرکٹ میچ میں ‘پورے ہاکستان‘ میں مفتی صاحب کے اسلامی طریقہ کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور اس مفتی صاحب کے اسلامی طریقہ سے میچ دیکھنے کے طریقہ یا طرزِ عمل میں دن بہ دن خشوع و خضوع بھی پیدا ہو رہا ہے جس کی غالبآ بنیادی وجہ ‘کشمیر‘، ‘بابری مسجد سانحہ‘ ‘احمد آباد فسادات‘، بھارت کے افغانستان میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے، بھارت امریکہ جوہری معاہدہ اور بھارت کی پاکستان کے ساتھ ‘جارحانہ‘ خارجہ پالیسی ہے۔ بلاگ ہذا کو ان حالات و واقعات کے پس منظر میں دیکھنے سے اس بلاگ کو بآسانی ‘سازش بلاگ‘ کہنا سو فیصد درست ٹھہرتا ہے لہذا
‘آپ ہی اپنی اداؤں پہ غور کریں
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی‘:
ہمیشہ کی طرح بے تکا بلاگ۔ آپ اسلامی شعار کا مذاق اڑانا چاہ رہے ہیں یا طالبان کا؟
محترم نجيب الرحمن صاحب کے دونوں تبصرے پڑھے اور بندہ يہ سوچنے پہ مجبور ہے کہ ان کے بيان ميں تضاد کی وجہ کيا ہے؟ يعنی پہلے تبصے ميں بلاگ کو غير سنجيدہ قرار دے کر کہا کہ تبصرہ کرنا فضول ہے اور بعد ميں لمبی چوڑی سطور لکھ ديں۔ اس لیے سيانے کہتے ہيں پہلے بات کو تولو پھر منہ سے بولو اور شايد پاکستان ميں مےخوری پر پابندی کی وجہ بھی يہ ہی ہے کہ کچھ لوگ بغير پينے کے ہی نشے ميں رہتے ہيں۔ رہی بات طالبان اعلان کی تو ان طالبان کے فعل سرے سے ہی غير اسلامی ہيں اور ايسی ہدايتيں کوئی نارمل انسان نہيں دے سکتا نيز جہاں تک وضو کے ٹوٹنے کی بات ہے وہ جسم پہ غلاظت لگنے سے ٹوٹتا ہے نہ کہ کسی ايسی غير اخلاقی حرکت کی وجہ سے جو غير دانستہ سامنے آجائے۔
مکمل طور پر جعلی ہے یہ ای میل بھائی۔ کسی نے بنائی تھی شاہد آفریدی کے اس بیان پر کہ اب ہم کو دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہے۔ کچھ تو عقل سے کام لیں آپ لوگ۔ اس کو براہ راست طالبان سے ملا رہے ہو۔ اف۔۔۔ یہ تو کھلاڑیوں پر طنز ہے۔