چینی معاشرے کے خوف زدہ بچے
روایتی معاشرے کا بگڑنا ہو یا معیشت کی ابتری، گھریلو تضاد ہو یا سیاست کی اُتھل پتھل، ہر کوئی ان کا الزام ایک دوسرے پر تھوپتا ہے ۔بزرگ نوجوانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، عورتیں مردوں کو، فوج سیاست دانوں کو اور سوشلزم کیپٹلزم کو۔ قصور کسی کا بھی ہو یا ان کی جڑ کہیں بھی پیوست ہو مسلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کی لپیٹ میں تقریبا اب ہر ملک آنے لگا ہے۔
چین کو لیجیے، اس ملک کو روایتی معاشرے کے طور پر تصور کیا جاتا رہا ہے مگر وہاں یہ کیا ہوا چلی ہے کہ آئے روز پراسرار حالات میں بچوں کو مارنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ تشدد کے ان واقعات نے جہاں خود چین کے اندر ایک ہلچل مچا رکھی ہے وہیں چین کے باہر اس طرح کے واقعات سے بیشتر روایتی خاندانوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔
ایک دلیل ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے چونکہ چین کا روایتی معاشرہ بڑی تیزی سے تغیر پذیر ہے جس میں اقتصادی ترقی کا خاصا عمل دخل ہے، لہذاخاندانی اصول و ضوابط بھی بدل رہے ہیں اور معاشرہ اس گردش کی وجہ سے بکھرنے لگا ہے۔
یوروپی ملکوں میں اقتصادی ترقی نے روزمرہ کی زندگی کو آسان تو بنادیا ہے لیکن امیر بننے یا کیپٹلزم کی دوڑ نے یہاں کے معاشرے کو کافی زک پہنچایا ہے۔ اس دوڑ میں شامل ہوکر چینی گھروں کا سکھ اور شانتی بھی چھن رہی ہے جس کے باعث بقول ماہرین کے پسماندہ طبقہ ذہنی دباؤ میں آکر تشدد پر اُتر آیا ہے۔
مارچ کے بعد سے اب تک پانچ سکولوں میں حملے ہوئے جن کے نتیجے میں اٹھارہ افراد ہلاک کر دیے گئے جن میں زیادہ تر معصوم بچے ہیں۔
چین میں اقتصادی ترقی تیز رفتار سے جاری ہے، اس کے باوجود عالمی معاشی بحران کے اثرات سے یہ ملک خود کو مکمل طور پر بچا نہیں پایا۔ آئے روز ملازمت سے محروم ہونا، تجارت کا خسارے پر چلنا، رشتہ ازدواج کو ٹوٹنا اور گھر حاصل کرنے کے لیے دفتروں کی خاک چھاننا جیسے مسائل سے چینی آبادی ڈیپریشن کا شکار ہورہی ہے اور ڈیپرشن کا سارا نزلہ خاص طور سے بچوں پر گر رہا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ معاشی ترقی سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج اتنی وسیع ہو رہی ہے کہ کئی دہائیوں پرانا 'ون چائلڈ فیملی' کا تصور کرنا بھی اب مشکل ہورہا ہے۔
چینی معاشرے میں اس طرح کے واقعات پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر اس معاملے کی گہرائی تک جاننے کے بجائے اب بھی چین نے اس پر پردہ رکھا تو کیا اُن کروڑوں بچوں کے دلوں سے وہ خوف اور دہشت دور کیا جاسکتا ہے جو اب سکول جانے سے بھی کترا رہے ہیں۔