کھیل ختم پیسہ ہضم
ہر امتحان کا نتیجہ کورس مکمل ہونے پر ملتا ہے اور اسلام میں تو تمام زندگی کی جز و سزا کا حساب آخرت میں ملتا ہے۔ شاید اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ شاہرات پنجاب نے ایک قدرے نیا تجربہ کیا ہے۔
گمان ہے کہ ایسا پاکستان میں کہیں نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو صرف مری کے مضافاتی علاقے بھوربن میں ہوتا ہے۔ ٹول ٹیکس جو ہر گاڑی چلانے والوں سے سڑک کے استعمال کے لیے وصول کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عموماً یہ ٹیکس شاہراہ کے آغاز، درمیان یا اختتام پر وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا ٹول ٹیکس پہلی بار دیا جس کے ادا کرتے ہی سڑک ختم ہو گئی۔ ایسا صرف یہیں ہوتا ہے۔
دلکش وادی بھوربن کی سڑک کے اختتام پر پیلے کیبن میں بیٹھا ایک شخص ہنستے ہوئے ایک پیلی پرچی آپ کی جانب بڑھا دیتا ہے۔ آپ دس بیس روپے کا ٹیکس سمجھ کر پرچی تھام لیتے ہیں لیکن جب اس پر ٹیکس کی شرح دیکھتے ہیں تو ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔ پرچی آپ سے پورے دو سو روپے کا ٹیکس کا تقاضا کر رہی ہوتی ہے۔ ہم نے بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ چلیں آگے سہولتیں یا علاقہ ایسا ہوگا کہ دو سو کی فیس پوری ہو جائے گی رقم ادا کر دی۔ لیکن دو قدم آگے بڑھیں تو سڑک ہی ختم ہو جاتی ہے۔
آگے اس علاقے کا واحد فائیو سٹار ہوٹل ہے جس کے گارڈز آپ سے مزید پانچ سو فی شخص وصول کرنے کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ چلیں ہوٹل کے پیسے تو اندر جاکر آپ کھا پی کر پورے کر لیتے ہیں لیکن حکومت پنجاب کے دو سو روپے کس لیے تھے، سمجھ سے بالاتر ہے؟ پیتالیس پچاس روپے کا ٹیکس تو ویسے ہی مری جاتے ہوئے لے لیا جاتا ہے، یہ بھوربن میں ایسی خاص بات کیا تھی؟
تبصرےتبصرہ کریں
شکر ہے کہ خاکسار اس ٹیکس کے تھوپے جانے سے بہت پہلے ہی مری کی سیر کر آیا تھا اور صرف بھوربن ہی نہیں بلکہ چھتر باغ، پٹریاٹا، ایوبیہ، نتھیا گلی، گلھہڑا گلی جیسی ملکہ کوہسار مری کے لگ بھگ تمام اہم مضافاتی جگہوں پر بغیر کسی ٹیکس کے سیر سپاٹا کیا تھا۔ بہرحال اب ہنی مون منانے کے لیے ضرور کوئی اور جگہ منتخب کرنی پڑے گی کیونکہ اگر بھوربن سڑک کے ٹیکس جس کے ادا کرتے ہی سڑک ختم ہو جائے تو پھر بسوں ویگنوں کا کرایہ بھی لازمی طور پر بڑھا ہوگا۔ معلومات مہیا کرنے کا دھنے واد!
اس طرح بیوقوف میں بھی بن چکا ہوں اس لئے سب کو بھوربن جانے سے منع کرتا ہوں۔ فائیو سٹار ہوٹل کے علاوہ کچھ نہیں ہے وہاں۔
‘مکان تے ٹیکس دکان تے ٹیکس
ڈیوڑھی تے ٹیکس دَلان تے ٹیکس
ایس واسطے بولدا نئیں دامن
مَتاں لگ جائے میری زبان تے ٹیکس۔۔۔‘
استاد دامن
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کے وہ جعلساز آپ کو ٹھگ گیا ہو، ہستے ہستے!
پنجاب حکومت ....... تالياں!
ميرے بھائی اندھوں کے شہر ميں آنکھوں والے کے ساتھ اسی طرح ہوتا ہے۔
مجھے تو ڈر ہے کہیں سانس پر بھی ٹیکس نہ لگ جائے۔
اصل ميں وہ شخص ويسے آپ سے دو سو مانگتا تو شايد آپ نہ ديتے تو يہ طريقہ زيادہ سود مند ثابت ہوا۔ جب حکومت بے روزگاری الاؤنس نہيں دے سکتی اور امراء حکومت کو ٹيکس نہيں ديں گے تو وہ جن کے پاس کچھ نہيں انہيں بھی تو کرتب دکھانے ہوتے ہيں روزی کمانے کے ليۓ۔ بہرالحال يہ طريقہ ڈاکہ زنی يا چوری سے تو قدرے بہتر ہے۔ وہ بھی خوش اور آپ کی جان بھی محفوظ۔
ہارون بھائي- اب تو عرصہ ہوا کہ اپنے وطن ميں آذادی سے گھومے پھرے ہوں- کئی سال پہلے ايبٹ آباد سے مری آ رہے تھے، رات کا وقت تھا اور پتہ نہيں چل رہا کہ پنجاب شروع ہوا يا نہيں- ايک دوست نے پوچھا کہ پنجاب کی سرحد کہاں شروع ہوگی، تو دوسرے دوست نے کہا، جہاں سے ٹول ٹيکس شروع ہوگا- اب پتہ نہيں کہ يہ بيماری دوسرے صوبوں ميں بھی ہے يا نہيں، ليکن پنجاب کی خاص نشانی ہے۔
ملک میں کثیر سرمایہ حاصل کرنے والے سیاحتی شعبہ کا تو پہلے ہی دہشت گردی، خودکش دھماکوں، جھولے گرنے کے واقعات، ٹارگٹ کلنگ، لڑکیاں تاڑنے والے لچے لفنگے آوارہ ٹائپ لڑکوں، مہنگائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے ستیاناس کیا ہوا ہے اور ایک پنجاب حکومت ہے جس نے مری جیسے واحد محفوظ (اگرچہ یہ علاقہ بھی زلزلوں سے خوفزدہ رہتا ہے) سیاحتی علاقے کو ٹیکس لگا کر غریب عوام کے لیے بند کر دیا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چونکہ رواں دنوں میں مری ہی واحد محفوظ علاقہ ہے اس لیے غیرملکیوں کے علاوہ پورے پاکستان سے لوگ یہاں وزٹ کرنے آتے ہیں، اس لیے اس علاقے پر جو ٹیکس پہلے ہی لگا ہوا ہے، اس کو بھی باآسانی نصف کیا جاسکتا تھا۔ لیکن چونکہ پنجاب حکومت سرمایہ داروں کے ٹولے، آڑھتیوں کے جمگھٹے، کاروباریوں کے گروہ اور تاجروں کے جَتھے پر مشتمل ہے لہذا انہوں کے لیے جتنا بھی منافع ہو اتنا ہی کم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
یہ سب دیکھ کے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت ہے۔ بات مشرف والی ٹھیک ہے کہ پاکستان کا اللہ ہی حافظ۔
ہارون صاحب، کیا واقعی ہی دو سو روپے ٹیکس لگایا گیا ہے؟ اگر لگایا گیا ہے تو مجھے یقین کیوں نہیں آ رہا ہے؟ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ یا تو میں نیند میں ہوں یا آپ ہیں۔
مسئلہ کافی سنجیدہ ہے حالانکہ بظاھر عام دکھائی ديتا ہے۔ يہ ايک طرف تو محکمہ سياحت اور ہائی وے کی زندہ دلی کو ظاھر کرتا ہے وہيں يہ عوام کا برداشت کا ٹيسٹ ہے۔ لوگ کہتے ہيں امير ظالم ہوتا ہے ثابت ہوگيا کہ جس کا جہاں ہاتھ لگتا ہے وہ اس ملک کو اپنا خيا ل کرتا ہے۔ حيرت ہے ملک کس طرح چل رہا ہے جہاں حکمران اور رعايا دونوں حسب طاقت لوٹ رہے ہيں؟
رائیونڈ کا بجٹ متوازن کرنے کيلۓ لگايا گيا ہے ٹيکس !
ہارون رشيد صاحب! اس مہنگائی کے دور ميں آپ کو کيا سوجھی کہ بھوربن چل پڑے؟ آپ کو کس نے دعوت دی تھی وہ بھی بتا ديتے۔ کيا يہ معاملہ خادم اعلی کی عملداری کا ہے؟ جو بھی ہو آپ نے ايک خبر تو بنالی کچھ مزيد چونکا دينے والی خبر بھی ديں جس کا شدت سے انتظار رہے گا۔
نجيب سائيکو صاحب نے بڑی ہوشياری سے ہنی مون کی بات کی ہے، ليکن اپنی شادی کی مزيد تفصيل نہيں بتائي- ان کی شادی کا تو بی بی سی صفحات کے ہر قاری اور لکھاری کو شدت سے انتظار تھا- اس ليۓ ان سے درخواست ہے کہ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے اپنے دوستوں کو ضرور مطلع کر ديں۔
ہارون بھائی، محکمہ شاہرات پنجاب اس ضمن ميں کيا کہتا ہے؟ آپ نے رجوع تو کيا ہوتا۔ سائکو صاحب کو ہني مون مبارک ہو۔ ليپ ٹاپ ساتھ مت لے جايۓ گا۔ دولہن برا مان گئيں تو اس فورم سے ہی جائیے گا۔
ویسے کبھی آپ نے کسی غریب کے حال پر بھی تبصرہ کیا ہے ہنستے ہنستے؟
عباس خان صاحب آپ کے دوست نجيب صاحب کے پاس شادی کا ٹائم ہی نہيں ہے وہ تبصرے لکھيں يا شادی کريں۔اور اگر شادی کر بھی لی تو وہ بيوی چھوڑ سکتے ہيں مگر بی بی سی نہيں۔اگر بيوی کو ٹائم ديا تو آپ ان کی زيادہ تحريروں سے محروم ہو جائيں گے جو بہت سے قائرين کے ليۓ ناگواری والی بات ہوگي۔ بندہ بھی ان کی تحريروں اور تجربہ کار سوچ کا مداح ہے اور ان کے مستقبل کے ليۓ نيک خواہشات کا متمنی ہے۔ ويسے ہمارے ايک اور تبصرہ نگار علی گل صاحب بھی کنوارے ہيں۔ ہميں مزيد تبصرہ نگاروں کی معلومات ملنی چاہيۓ جو کہ باقاعدگی سے لکھتے ہيں۔ آخر بی بی سی کو اپنے قائرين کو بھی نماياں کرنا چاہيۓ۔
آپ کو گاڑی ٹول پلازہ سے پہلے پارک کر دینی چاہیے تھی۔ آگے پیدل چلے جاتے۔
آيا شريفاں دا دور، کڈ پيسے۔
محترم يہ بھوربن جانے کا رستہ ہے اس پر تو صاحب حيثئت ہی جائے گا۔ حکومت پیسے تو ايسے ہی جمع کرے گی ويسے بھی سستی روٹی کھلانے کے لئے چھوٹی موٹی رقم نہيں بہت رقم چاہيئے ہوتی ہے۔ ويسے ن ليگ پيسہ جمع کرنے ميں طاق ہے۔ کبھی ايٹم بم بنانے کے نام پر اور کبھی قرض اترنے کے نام پر غرض اس دوڑ ميں ان کا ثانی کوئی نہيں ہے۔ اب وکلاء کی مدد کا بيڑا بھی اٹھايا ہے۔ اب پيسے جيب سے تو خرچ کرنے سے رہے۔ ايسے ہی جمع ہونگے۔ ليکن اس بات ميں اسلام اور آخرت کی بات غير ضروری ہے۔ عيسائيت تو اپنے ہاں دنيا ہی ميں سزا اور جزا کی دلدادہ ہے مگر ہمارے ہاں کرپشن کو پھلنے پھولنے ميں ہمارے لوگوں کا ہاتھ بٹاتی نظر آتی ہے۔
آپ شکر ادا کریں آپ نے ایک محصول ادا کیا۔ نوشہرہ سے آگے (جگہ یاد نہیں آ رہی) واپسی پر پھر تقاضہ کیا گیا تو ہمارے استفسار پر جواب ملا کہ سر وہ تو جانے کا محصول تھا یہ آنے کا ہے۔ سب سے پہلے پاکستان۔
ہارون بھائي ، بادشاہ سلامت اور احباب بلاوجہ پريشان ہو رہے ہيں اور بہت ممکن ہے سائکو صاحب لوٹ پوٹ ہو رہے ہوں کہ واہ ، کيسا بنايا ! ان کا بيان دوبارہ پڑھيۓ - ”ہنی مون کے لۓ کوئی اور جگہ ڈھونڈنا پڑے گي” - يہ ايک ارادہ بھی تو ہو سکتا ہے جيسے ، ” بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا ”-