کمترین کیوں ترقی کرے !
میں نے تونسہ کے نیک مرد محمود نظامی سے پوچھا کہ ہم ایک خاص طرح کے ذہنی صندوق میں کیوں بند ہوگئے ہیں۔آس پاس کی دنیا کی طرح کیوں ترقی نہیں کر پا رہے؟
محمود نظامی نے مجھے یہ قصہ سنا دیا ۔
مظفر گڑھ کے دریائی علاقے میں برسوں سے تعینات ایک پٹواری کی رشوت اور عیاشیوں کے قصے جب ایڈیشنل کمشنر لینڈ ریونیو تک پہنچے تو اس پٹواری کو غیر محسوس طریقے سے ہٹانے کے لئے سرکاری خط بھیجا گیا کہ آپ کی خدمات کے اعتراف میں نائب تحصیلدار کے عہدے پر ترقی دے کر تونسہ تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ فوری رپورٹ کریں۔
مظفر گڑھ کے زرخیز علاقے سے تونسہ کی بنجر سرزمین پر پٹواری کو اپنی تقرری بعد از ترقی بالکل پسند نہ آئی۔اس نے خط پھاڑ دیا۔ایک ہفتے بعد اسی متن کا خط دوبارہ موصول ہوا۔ پٹواری نے اسے بھی پھاڑ دیا۔دس روز بعد تیسرا خط اس وارننگ کے ساتھ ملا کہ اگر آپ نے پٹواری سے بطور نائب تحصیلدار ترقی قبول کرتے ہوئے چار روز میں تونسہ کا چارج نہ سنبھالا تو آپ کے خلاف محکمہ جاتی کاروائی عمل میں لائی جاوے گی۔
پٹواری نے چارو ناچار اس خط کا جواب دیا کہ 'حضور والا ایڈیشنل کمشنر صاحب، اس کمترین کو آپ کی جانب سے ترقی کے تین خطوط ملنے کی انتہائی خوشی ہے۔لیکن کمترین اگر ترقی نہیں کرنا چاہتا تو اسے بار بار ترقی کرنے پر کیوں مجبور کیا جارہا ہے۔'
تبصرےتبصرہ کریں
پاکستان میں صرف جنرل ترقی کرتے ہیں۔
ترّقی تو دور کی بات یہاں تو لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہیں مل پا رہی ہے
ہم نے بہت سے شعبوں میں ترقی کر لی ہے۔ جس کی مثال مہذب ملکوں میں نہیں ملتی۔ جیسے بے ایمانی،چوری، بدمعاشی، رشوت ستانی،بے جا تشدد، سفارش، برادری ازم، ٹیکس چوری وغیرہ وغیرہ۔ ویسے حالیہ دہشتگردی کے واقعات اور بم دھماکوں سے جہاں غریب لوگوں کا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہاں ہمارے حکمرانوں کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہوئی کہ ہم ملک سے غربت اور غریب کا خاتمہ کریں گے۔ جہاں تک جرنیلوں اور بیوروکریٹس کا تعلق ہے وہ تو بے چارے روتے ہی دیکھے ہیں۔ ہمارے ملک کا سب سے غریب آدمی اس وقت صدر مملکت ہے۔ غریبوں کو زرداری پر بہت فخر ہے۔ غریب کی سنوائی اور پاکستان میں یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری سے جو لوگوں کو توقعات تھیں وہ بھی دم توڑ گئیں۔
اللہ ہم پر اور ہمارے ملک پہ خصوصی رحم کرے آمین۔
پاکستان میں جاہل ترقی کرتے ہیں اور پڑھے لکھے ان کی نوکری-
کچھ لوگوں کی تان جرنيلوں پر آکر ہی کيوں ٹوٹتی ہے؟ پاکستان ميں فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے، جس ميں سپاہی ( جنرل موسيٰ) يا صوبيدار کا بيٹا (جنرل کياني) ترقی کرکے جنرل بن سکتا ہے- سياسي جماعتيں ايسي مثاليں پيش کيوں نہيں کرتيں؟ ہمارے ترقی کرنے نہ کرنے کی بہت سی وجوہات ميں ايک بڑی وجہ يہ ہے کہ ہم خود تو کچھ کرتے نہيں، دوسروں پر تنقيد، جلن، حسد اور روڑے اٹکانے پر اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہيں-
جب ہم خود ہی ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہونا چاہيں تو کس کو دوش ديں؟کس کو مورودالزام ٹہرائيں؟جو چيزيں پٹواری کے منہ کو لگی ہوئی تھيں وہ ہی ہمارے پاوں ميں بھی بيڑياں ڈالتی ہيں۔ثابت ہوا کہ ہم اپنے دشمن خود بنے ہوئے ہيں
نا اميدی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ايک ہاری کے بچے کو ننانوے فيصد يقين ہے کہ وہ کمشنر نہيں بن سکتا يا بننے نہيں ديا جائے گا يہ سوچ اتنی کچھ غلط بھی نہيں ہے
وسعت صاحب حيرت ہے آپ کسی نيک مرد کی تلاش ميں تونسہ چلے گئے۔کيا پختون خواہ يا پشاور ميں ملنا بند ہوگئے۔
پاكستان ميں كمترين كا كويی پرسان حال نہيں۔ جب تک پٹواري اس ملک ميں ہي ہیں
مجموعی طور پر پرکھا جائے تو یہ مثال ہم پر صادق آتی ہے۔
جنرل تو ترقی کر ہی جاتے ہیں، یس ملک میں لوھار بہی اسٹیل ملوں کے مالک ہیں۔ اس کو آپ کیا کہیے گا؟
واہ صاحب، بہت ہی گہری بات کہی آپ نے۔۔۔
کمترین کیسے ترقی کرےگا۔ ادھر بادشاہت چلتی ہے۔ ماں باپ کی بعد بیٹا۔ بیٹے کے بعد اس کا بیٹا۔ اس زنجیر میں کمترین کہاں ہے؟