مفت کی ٹینشن
اتوار کے روز پیسے نکلوانے جی الیون مرکز میں سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک پہنچا تو پتہ چلا کہ مشین میں پیسے نہیں ہیں۔
برابر میں الائیڈ بینک اور پھر یونائٹڈ بینک گیا سب کا یہی حال تھا۔ وہاں سے جی ٹین مرکز پہنچا تو الفیصل بینک کے اے ٹی ایم سے ایک شخص پیسے نکلوا کر نکلا۔
میں نے کارڈ ڈالا تو پتہ لگا کہ اس مشین میں بھی پیسے ختم ہو چکے ہیں۔ قریب میں 'کے اے ایس بی' کی اے ٹی ایم پر پہنچا تو مشین پر ٹیپ سے چپکے ہوئے کاغذ پر لکھا تھا کہ اس مشین میں پیسے نہیں ہیں۔
وہاں سے ایف ٹین مرکز کے سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک پہنچا تو وہاں سے اتفاق سے پیسے مل گئے۔ مجھے تین دیگر لوگ بھی ایسے ملے جو جی الیون، جی ٹین اور ایف ٹین کی مشینوں کے چکر لگاتے نظر آئے۔ ایک شخص نے بڑے غصے سے کہا کہ روزے کے ساتھ دھکے کھا رہے ہیں، مجھے والدہ کے لیے دوائی خریدنی ہے۔
ظاہر ہے کہ ہر آدمی کی اپنی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور اپنے پیسے نکلوانے کے لیے ایک گھنٹہ ضائع ہوا اور اس کے ساتھ ڈیڑھ سے دو سو روپے کا تیل اور سب سے بڑی بات کہ مفت کی ٹینشن۔
پاکستان میں ویسے تو سٹیٹ بینک نجی بینکوں کا ریگولیٹر ہے۔ کیا یہ ان کے اختیار میں ہے کہ متعلقہ بینکوں کو پابند کریں کہ وہ چھٹی والے دن اپنے بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں میں پیسوں کی موجودگی یقینی بنائیں۔
ویسے بھی آگے عید الفطر آ رہی ہے اور حکومت نے چار روز کی تعطیل کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس دوران کسی کے ساتھ کوئی ایمرجنسی ہوئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
تبصرےتبصرہ کریں
مہر صاحب!جہاں کارڈز کا چلن عام ہوا ہے وہيں يہ قباحت بھی سامنے آرہی ہے۔ ہر سال عيدين پر اور دوران تعطيلات ايسا ہی ہوا کرتا ہے۔اسٹيٹ بينک روايتی بيانات پر مبنی اقدامات کا کہہ کر بری الذمہ ہوجاتا ہے خدا بينک ذمہ داران کو عقل و دانش اور سب سے بڑھ کر عوام کی مشکلات کا احساس دلوائے۔آمين!
محترم اعجاز صاحب- اگر ہر بار ايسا ہوتا ہے تو پھر آپکا گلہ جائز ہے، اگر کبھی کبھار ايسا ہو تو بينکوں کو معاف کر دينا چاہيۓ- عيد تہوار پر بينک کاؤنٹر پر کيش حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے- ويسے بھي ابھی ہمارہ معاشرہ بينک کارڈز اور کريڈٹ کارڈز سے پورا فائدہ نہيں اٹھا رہا، جنکا سب سے اہم مقصد ہی يہ ہے کہ کيش کی کم سے کم ضرورت پڑے- جيسے والدہ کی دوائی لينے والے صاحب کو گلہ ميڈيکل اسٹور سے بھی کرنا چاہيۓ کہ وہ بينک کارڈ کيوں نہيں ليتے- اگر تمام دوکاندار، پٹرول پمپ، ريسٹورنٹ اسکول کالج کي فيسيں، بل پيمنٹ اور دوسرے اہم اخراجات بينک کارڈ سے ہوں تو کيش کی ضرورت صرف رشوت دينے کے ليۓ رہ جائے-
مجہے آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے۔ عيد کے علاوہ عام دنوں ميں بھی اکثر اس مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جناب سٹيٹ بنک کيا کر سکتا ہے کيا نہيں يہ وہ جانے يا اس ملک کے کرتا دھرتا جانيں جو کسی کو جواب دہ نظر نہيں آتے - رہ گۓ اے ٹی ايم تو يہ بنکوں کی ذمہ داری ہوتے ہيں - متحدہ عرب امارات ميں بنکوں کا آئی ٹی آپريشنز سٹاف اپنے اے ٹی ايمز کی دن رات نگرانی کرتا ہے - بنک سروس مہيا کرنے ميں ايک دوسرے پر سبقت لے جانے ميں کوشاں رہتے ہيں - خودکار نظام کے تحت اے ٹی ايمز يا کوئی بھی آن لائن سروس معطل ہوجانے پر واقعہ لاگ ميں محفوظ ہو جاتا ہے - افسران بالا کو اي ميل کے ذريعے اطلاع چلي جاتي ہے اور نگران عملے کي جواب دہي ہو جاتی ہے - ہمارے ادارے ميں يہ نظام ايک نوجوان پاکستاني سافٹ وئير انجينيئر نے تن تنہا بنا کرديا اور يہ سب پاکستان ميں بھي ہو سکتا ہے -
پاکستان میں شاید ہی کوئی ڈپارٹمنٹ ہو گا جس کے بارے میں ہم یہ کہ سکے کہ یہ عوام کی توقعات کے مطابق کام کررہا ہے اختیارات کے ناجائز استعمال کے بارے میں تو ہم سنتے ہی رہتے ہیں کاش کوئی ایسا دن بھی آے گا جب کوئی جائز استعمال کرے گا
اعجازمہر صاحب وفاقی دارالحکومت ميں بنکوں کی کارکردگی کا يہ حال ہے تو چھوٹے شہروں ميں کيا صورت حال ہوگی ؟ ہمارے ملک ميں يہ ہی تو بد نصيبی ہے کہ اول تو ہم جديد سہولتوں کے لئے ترستے ہيں اور اگر اس طرح کی چند سہولتيں دستياب ہوتی ہيں تو ادارہ جاتی غير ذمہ دارانہ روئيوں کی بھينٹ چڑھ کر عوام کے لئے درد سر بن جاتی ہيں
بھول جائیں اے ٹی ایم اور جدید ٹیکنولوجی کو اور پرانے طریقے کے مطابق کیش رکھا کریں۔ ویسے میرے ساتھ یہاں لندن میں گزشتہ اتوار کو ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔
جب اے ٹی ايم نہيں ہوتی تھيں تو ايمرجنسی ميں لوگ کيا کرتے تھے؟ايسا تو کبھی کبھی ادھر بھی ہوجاتا ہے۔اتنا شکر کريں کہ اے ٹی ايم ہيں اور آپ کو پيسے مل گئے۔پاکستان کے ساتھ پہلے ہی بہت کچھ ہورہا ہے اتنا نہ رونديں اور اسے سنبھلنے ديں۔شکريہ
‘پریشاں ہو تم بھی، پریشاں ہوں میں بھی
چلو مے کدے میں وہیں بات ہو گی‘
سر جی ہمارے ہاں ہر بات پر قانوں ماجود ہے، لیکن عمل درامد کوئی نہیں ہے. اس وقت رات کے دو بج رہے ہیں اور ہماری ساتھ والی مسجد میں مولانا جی فل آواز سے اللہ ہو کا ورد کر رہے ہیں. یہ سوچے بنا کے کوئی سو رہا ہے، ہو سکتا ہے کوئی بیمار ہو، کوئی عبادت کر رہا ہو.ہتا کے اس کاقانوں بھی ماجود ہے.
او بئی تگڑے ہو جاؤ کیوں جے جوان بندے ٹینشن نئیں لیندے ۔۔۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ میں طالبعلم ہوں اور لاہور میں پڑھتا ہوں۔ جب کبھی اچانک پیسیوں کی ضرورت پڑتی ہے تو کسی نہ کسی وجہ سے مشین خراب ہوتی ہے اور پیسے نہیں مل پاتے۔
میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان کا رہئشی ہوں اور یہاں تو اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔سٹیٹ بینک کو لازمی طور پر بینکوں کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ مشینوں میں پیسے کی موجودگی کو یقینی بنائیں۔
یہ جی الیون اور ایف ٹین والے سٹنڈرڈ چارٹرڈ والے اے ٹی ایمز سے میرا خاصا برا تجربہ رہا ہے۔ 10 میں سے 8 دفعہ ان میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔ ان نکموں پر فیل ہونے کی صورت میں کسی الفلاح والے اے ٹی ایم پر جایا کریں۔
اے ٹی ایم سہولت سے زیادہ ٹینشن ہیں۔
آپ تو بہت چھوٹی بات سے گھبرا گئے ہیں۔۔ شکر کریں کہ آپ نے پیسے نکلوائے ہیں اور کسی نے چھین نہیں لیے۔ میں تو ایک بات کہتا ہوں کہ جب تک ہم ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے رہیں گے اس وقت تک ملک نہیں سدھرے گا۔
کیا بی بی سی میں کوئی ایک بھی ایسا کالم نگار ہے جو پاکستان کی کسی اچھائی کے بارے میں لکھتا ہو؟ یقینن میرا تنقیدی تبصرہ کبھی شایع نہیں ہوگا۔
جس بینک کی مشین میں پیسہ ختم ہو اس پر پانچ لاکھ جرمانہ کردیں۔
میرے خیال میں تو یہ پیسے کی بے قدری کا معاملہ ہے، آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ پاکستان میں ایک آدمی اے ٹی ایم سے کم از کم بھی دس یا بیس ہزار ایک دفعہ میں نکلواتا ہے جس سے اُس کے دو تین دن ہی گزرتے ہیں،خیر!
اب آخر اے ٹی ایم مشین میں نوٹ رکھنے کی ایک مخصوص جگہ ہی ہو گی۔ اب بینک والے اس کے ساتھ بوری تو نہیں باندھ سکتے اور نہ ہی وہ اتنے فرض شناس ہیں کہ چھٹی کے دن آ کر اسے ری فل کریں۔
اعجاز مہر صاحب انڈيا ميں بھی ايسا ہی ہوتا ہے مگر قومی بينکوں کے اے ٹی ايم سنٹر پر جبکہ بين الاقوامی بينکوں جن ميں آءی سی سی آی ايچ بی ايس سی سٹی بينک اور ايکسس بينک کے اے ٹی ايم ميں ايسی شکايت اسی وقت سامنے آتی ہے جب تکنيکی خرابی ہوجاءے ورنہ کيش نہيں کا ان بينکوں ميں رواج نہيں ہے -
نوٹس لينے کاٹھيکا آج کل سپريم کورٹ کے پاس ہے آپ غلط دروازاکھٹکھٹارہے ہيں
جناب مہر صاحب
ايسی سہولت جو موقع پر کام نہ آئے اس کا نہ ہونا بہتر ہوتا ہے- جب آن لائن سروس شروع کی گئی ہے تو مشين کا اپڈيٹ بھی تو متعلقہ بينک ميں رکارڈ ہوتا ہے-اسے فوری پورا بھی کرنا چاہئيے- اسے غير زمہ داری سے بھی تعبير کيا جا سکتا ہے-ايسے مسائل اکثر و بيشتر نظر آتے ہيں- لوگ مارے مارے پيسے نکالنے گھومتے دکھائی ديتے ہيں- گو کہ ون لنک سے بہتری آئی مگر اس ميں مزيد بہتری کے اقدام ضروری ہيں۔
اور بھی غم ہيں زمانے ميں اے ٹی ايم کے سوا
یہی حال نیشنل بینک کا بھی ہے جہاں تنخواہوں والے دن بیشتر مشینیں خراب ہوتی ہیں۔ ایسے میں انہیں چوبیس گھنٹوں کی سہولت کی موجودگی کا نعرہ نہیں لگانا چاہیے۔
کتنا اچھا ہو اگر آپ لوگ پہلے سے لکھ دیں کہ صرف تعریفی اور تائیدی تبصرے شایع کیا جائے گا تو ہم جیسے بے چارے لوگ شامل ہی نہ ہوں ۔۔