کیا ہم آگے نکل آئے ہیں؟
چھ دسمبر انیس سو بانوے کو بابری مسجد کی مسماری کے بعد مذہبی فسادات میں دو ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے اور ملک کے سیکولر تانے بانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔
اب اٹھارہ سال بعد جمعہ کی دوپہر ساڑھے تین بجے جب الہ آباد ہائی کورٹ لکھنؤ بینچ بابری مسجد حق ملکیت کیس میں اپنا فیصلہ سنائے گا تو کیا ہوسکتا ہے؟
ماضی پر نظر ڈالیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔
عدالت یہ فیصلہ سنا سکتی ہے کہ بابری مسجد ایک مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی جیسا کہ ہندو تنظیمیں امید لگائے بیٹھی ہیں، یا یہ کہہ سکتی ہے کہ مسجد جب بھی تعمیر ہوئی تھی تو وہاں کوئی مندر نہیں تھا جیسا کہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے یا یہ کہہ سکتی ہے کہ بات اتنی پرانی اور شواہد اتنے مبہم ہیں کے وثوق کے ساتھ کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ سنانا ممکن نہیں ہے۔
لیکن عدالت کے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ مسجد کی اراضی اب کس کی ملکیت ہے؟ مانا جاتا ہے کہ مسجد پندرہ سو اٹھائیس میں پہلے مغل بادشاہ بابر کے ایک سپاہ سالار میرباقی نے تعمیر کروائی تھی۔ بابری مسجد میں نماز انیس سو اننچاس تک ادا کی گئی جب وہاں رام کی مورتیاں نصب کردی گئی تھیں۔
یہ سب مانتے ہیں کہ متنازعہ اراضی پر تقریباً سوا چار سو سال تک مسجد قائم تھی لیکن گزشتہ ساٹھ برسوں سے وہاں پوجا بھی ہوئی ہے۔ عدالت کو فیصلہ یہ کرنا ہے کہ متنازعہ زمین پر اب کس کا حق زیادہ ہے؟
اور فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو ایک چنگاری آگ میں بدل سکتی ہے۔ حکومت کو اس کا خطرہ ہے اور سکیورٹی کے انتظامات اس کے عکاس ہیں۔
اس تنازعہ نے بیس سال پہلے آزاد ہندوستان کی شکل ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دی تھی۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ بابری مسجد کے تین گنبد قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور سیکورلزم کی علامت تھے۔ مسجد مسمار نہیں ہوئی تھی، وہ بنیاد مسمار کی گئی تھی جس پر سیکولر اور جمہوری ہندوستان کی عمارت کھڑی تھی۔
اب پھر امتحان کی گھڑی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس مرتبہ پہلے کی سی شدت باقی نہیں اور دونوں فریق عدالت کے فیصلے کا احترام کرنے، لوگوں سے ضبط سے کام لینے اور اپنے جذبات کا کھل کر اظہار نہ کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایک مرتبہ پھر ہم اسی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں بیس سال پہلے تھے؟
یا ہم اور آپ عبادت گاہوں کی سیاست کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل آئے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
‘مندر ڈھا دے مسجد ڈھا دے
ڈھا دے جو کجھ ڈھیندے
کسے بندے دا دل نہ ڈھانویں
رَب دِلاں وِچ رہندا’
نہ مسجد نہ مندر، وہاں ایک بڑی یونیورسٹی قائم ہونا چاہیے جس کی بنیاد بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانیت پر ہونا چاہیے۔
انڈيا بلکہ ہر جگہ، اسرائيل، فلسطين ميں مسيحی پادری، امريکہ ميں اور چاہے وہ ڈنمارک ہو يا پھر ناروے، ہر جگہ اور فورم پر مسلمانوں کے مذہبی تبرکات کو پامال کر کے غير مسلم لابی اپنے مخصوص ايجنڈے کی پيروی کر رہا ہے۔ آج بھی ہميں ايک غير مسلم کورٹ سے کوئی اميد نہيں کہ اس کا فيصلہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر نے کے سوا کچھ نہيں ہوگا۔
اصل بات قانون کی حکمرانی، عدليہ کی آزادی يا سيکولرازم اور يا پھر اسلام اور ہندوازم کے ٹکراؤ کی نہيں بلکہ اس کے ساتھ منسلک مذہبی و سياسی پيشہ لوگوں کی تجارتی وابستگی ہے جو اسے کيش کر کے اپنے مفادات حاصل کريں گے۔ بھارت کو اگر مکمل سيکولر ملک نہ سمجھا جائے تو اس کی بنيادی وجہ اکثيريتی ان پڑھ عوام اور ان کے کچھ ليڈروں کی وجہ سے ہے۔ ورنہ سيکولر بنانے والے يا پھر پڑھا لکھا طبقے کے لوگ کافی مہذب ہيں اور يہی وجہ ہے کہ مسلمان فلمی اداکار بھی ان کے ہيرو ہيں جبکہ پاکستان ميں ابھی ايسا ہونا کہ کوئی غير مسلم ہيرو بن جائے ممکن نہيں۔ جہاں تک دو ہزار افراد کے قتل يا کشميری عوام کی جانوں کے قصے ہيں تو يہ تو ازل سے ہوتا آرہا ہے۔
ہندوستان صرف نام کا سیکولر ہے۔ وہاں کبھی انسانی رائے کا احترام نہیں ہوتا۔ اگر رائے کا احترام ہوتا تو دلت تحریک یا ماؤنواز تحریک کبھی نہ بنتی، کشمیر میں لوگ گولوں کے سامنے سینا تانے آزادی کے نعرے نہ لگاتے،گجرات میں وحشیانہ آگ نہ لگائی جاتی، سمجھوتا ایکسپریس جلا کر اس کا الزام پاکستان پر نہ لگایا جاتا۔ میڈیا تو بھارت کو فلموں کی عینک سے دیکھتا ہے، تو اسے بھارت سیکولرزم کا احترام کرتا نظر آتا ہے۔
آپ صرف ايک سطر ميں کہہ ديتے کہ بابری مسجد کا معاملہ سياست ہے۔
تاریخی بابری مسجد بھارتی حکومت کی مکمل پشت پناہی میں ہندو انتہا پسندوں نے مسمار کی۔ سیکولرازم کا پرچار کرنے والے ہندو بنیے نے نہ صرف ہندوستان میں رہنے والی اقلیتوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں بےجا مداخلت اور شدت پسندی کو پروان چڑھانے میں مصروف عمل ہے۔ ایسے حالات میں بھارتی عدلیہ سے مسلمانوں کے حق میں کسی فیصلے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔
مندروں اور مسجدوں کی سياست ميں ہم لوگ اتنی دور تک جا چکے ہيں کہ اب ہميں اس بات کا احساس ہی نہيں رہا کہ اس سياست ميں کون کون اپنی اپنی دکانداری چمکا رہا ہے۔ بس يہ ہے کہ سبھی اپنا مفاد ديکھ رہے ہيں۔ ايسے ميں کسے خبر کہ کہاں کون اور کيسے برباد ہوا اور خبر ہو بھی جائے تو پرواہ کسے ہے کہ کون مرا۔ مرنے والے وہی عام عوام کہ جن کا کام ہی مرنا ہے۔ کبھی اِس بلائے ناگہانی سے تو کبھی کِسی اور آفت سے۔
جناب ، اس سوال کا جواب ہم سب جانتے ہيں ورنہ پريشان نہ ہوتے۔ يو پی حکومت پوليس کے لیے کروڑوں روپے کی نئی لاٹھيوں کے آرڈر نہ دے رہی ہوتی۔ عوام کا پيسہ کسی بھلے کام ميں صرف ہو رہا ہوتا۔ افسوس مقامی ميڈيا پر ہے جو قومی اتحاد کی تربيت کي بجائے شرپسندوں کو پليٹ فارم مہيا کرتا رہا اور وفاق تماشائی بنا رہا۔ ساٹھ سال سے چلے آ رہے مقدمے کا فيصلہ پھر ملتوي کرنا پڑا ہے، ليکن کب تک۔