| بلاگز | اگلا بلاگ >>

صفائی کی نئی تشریح

اصناف: ,

نعیمہ احمد مہجور | 2010-09-23 ،17:24

برطانوی میڈیا پر جب میں نے للت بھانوت کی کامن ویلتھ گیمز پر صفائی کی تشریح سُنی تو یہاں لندن میں رہنے والے بھارتیوں کے سر شرم سے جُھک گئے۔

میری دوست مارگریٹ میرے ہمراہ بیٹھی میرے چہرے کے تاثرات پڑھ رہی تھی۔ وہ بغیر کچھ کہے میرے گھر کے در و دیوار کو گہری نظر سے دیکھ رہی تھی، شاید صفائی کا معیار معلوم کرنے کی کوشش میں تھی کہ وہ مغرب کےمعیار سے کتنا مختلف ہے۔

ظاہر ہے میرے گھر کے ٹائیلٹ سے کوئی فُضلہ نہیں بہہ رہا ہے، پائپوں سے پانی نہیں رِس رہا ہے، صحن میں گندے پانی پر مکھیاں نہیں بھِن بھنارہیں اور کمروں کی دیواروں سے پینٹ نہیں اُتر رہا۔ حالانکہ میرا مکان چالیس سال پرانا ہے، گیمز ویلیج کی طرح بالکل نیا نہیں۔
ہوسکتا ہے کہ للت بھانوت کا معیارِ صفائی عام لوگوں سے مختلف ہو ورنہ کیا بات ہے کہ ایک بڑی اور ابھرتی معیشت والے ملک میں چند مکان وقت پر نہیں بنائے جاسکے، پُل مضبوط نہیں بنے، چھت کچی رکھی گئی اور نئی عمارتوں کے پائپوں سے گندے پانی کارِسنا بند نہیں کیاجا سکاحالانکہ ویلیج میں ابھی کوئی رہتا ہی نہیں۔

مارگریٹ کہنے لگی 'صفائی تو صفائی ہے اس میں معیار مختلف کہاں ہوتے ہیں یا پھر بھارت جیسی بڑی جمہوریت اور مضبوط معیشت میں صفائی کا وہ معیار نہیں جس کا اظہار للت نے کیمرہ کے سامنے کیا'۔

میں اُس کو بتا نہیں پائی کہ بھارت کی چالیس فیصد سے زائد آبادی غریبی کی سطح سے نیچے گزر بسر کر رہی ہے۔ میں نے یہ بات چھپائی کہ ستر فیصد آْبادی روزانہ ایک ڈالر پر گزارہ کرتی ہے۔

میں نے اِس پر بھی پردہ ڈالا کہ ایک اندازے کے مطابق گیمز پر خرچ آنے والے پچیس کروڑ ڈالر سے جو 'انڈیا شائن فیکٹر' کا مظاہرہ کرنا تھا اُس سے ان لاکھوں جوگی جھونپڑیوں میں رہنے والے خاندانوں کو ایک روم والا گھر فراہم کیا جاسکتا تھا جن کو اپنی جوگیوں سے بے دخل کر کے آج کل جمنا پار رکھاگیا ہے۔

میں نے مارگریٹ سے یہ بات بھی چھپائی کہ گیمز کے بجٹ کے تقریباً پچاس فیصد حصے پر ابھی سوالیہ نشان لگا ہے کہ وہ پیسہ کس کی جیب میں گیا۔

میں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ انڈیا شائن کے لیے جو معاشی زونز بنائے جارہے ہیں وہ ہزاروں کسانوں کی زمینیں چھین کر بنائے جا رہے ہیں۔

میں صرف اُس کو دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کہ وہ تھرڈ ورلڈ جنتا کے بارے میں کم از کم یہ تاثر قائم نہ کرے کہ ہم میں صفائی کا فقدان ہے کیونکہ ہمارے پاس صفائی کے سوا اور کچھ بھی نہیں لیکن وہ بھی للت بھانوت اپنے عوام سے چھین رہا ہے۔

میں اس کی توجہ ہٹانا چاہتی تھی مگر وہ ٹیلویژن پر گیمز ویلیج کی گندی تصویریں اور صفائی کی تشریح سن کر چائے کے اس کپ کی جانب دیکھے جارہی تھی جو میں نے مہمان نوازی کی خاطر اس کو پیش کیا تھا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 19:27 2010-09-23 , رضا :

    يہ تعميراتي منصوبے پرايئويٹ سيکٹر کے کسي سي اي او کو سونپنا چاہيۓ تھے جو ساہارا ، ریلائنس ، ٹاٹا اور انفوسس جيسے ادارے چلا رہے ہيں - يہ سرکاری بابوؤں کے بس کي با ت نہ تھي جو جواب دہي سے بے فکر اپني سہولت سے کام کرنے کے عادي ہوتے ہيں - اور پھر کسي نے ديکھا تک نہيں کيا ہو رہا ہے - بھارت آئندہ ايسی کوئی ذمہ داری کيسے مانگ سکے گا ؟ لوگ چين کے اولمپکس کو ياد کرتے ہيں - يہ تجربہ بھی ياد رہے گا -

  • 2. 19:38 2010-09-23 ,علی گل،سڈنی :

    مغربی ميڈيا يا کھلاڑيوں کی اصل پريشانی دہشت گردی کا خوف ہے کيونکہ انڈيا کی سرحد پاکستان سے ملتی ہےاور چند اسلامی تنظيميں انڈيا ميں بھی موجود ہوسکتی ہيں۔نيز اگر يہ تنظيميں کشمير ميں اپنا اثر ورثوخ دکھا سکتی ہيں تو دہلی اتنا دور نہيں۔يہ صفائی يا کچے پل وغيرہ سب بہانے ہيں کيونکہ دل ميں جو ہے وہ زباں پہ لا نہيں سکتے بھارت کو ناراض کرنے والی بات ہے کيونکہ حکومت کو دہشت گردی کا بہانہ قبول نہيں۔تعميراتی کاموں ميں گھپلا تو ضرور ہوا ہوگا مگر آپ کی يہ تمنا کہ اتنے پيسوں سے غريب افراد کو ايک کمرے والا مکان مل سکتا تھا انسان دوستی يا ہمدری والی سوچ ضرور ہے مگر اقتصادی سائينسی نقطع نظر سے غلط ہے کيونکہ ايسی امداد کا مطلب لوگوں ميں کام نہ کرنے کی عادت کی حوصلہ افزائی ہے اور دنيا ميں ايسا کہيں بھی نہيں ہوتا نيز چودہ کروڑ لگا کر گورنمنٹ اس سے کئی گنا کمائے گی۔

  • 3. 23:12 2010-09-23 ,MALIK MATLOOB AHMED, LUTON :

    جب بھارت میں اتنا دم نہ تھا تو اسے کامن ویلتھ گیمز منعقد کروانے جیسی بھاری بھر ذمہ داری لینی ہی نہیں چاہیے تھی۔ بھارتی سرکار نے کھیلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں اور آفیشلز کے لیے ایسے ہی انتظامات کیے جیسے وہ مختلف ہندو تہواروں کے لیے کرتا رہا ہے۔ صرف بالی ووڈ کی فلموں کے ذریعے دنیا کو اپنا جعلی عکس دکھانے والا بھارت آج دنیا میں اصل چہرے سے گھونگھٹ اترنے پر بہت شرمسار ہے۔ اور ہاں صفائی کی جہاں تک بات ہے تو آنے والے سبھی مہمان کھلاڑیوں کو گنگا میں اشنان کروانے کا بندوبست مکمل ہو چکا ہے۔ ایک ھزار سے زیادہ گھاٹ تیار کر دئے گے ہیں

  • 4. 0:54 2010-09-24 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    مارگریٹ نے بالکل درست فرمایا ہے کہ صفائی تو صفائی ہے اس میں معیار مختلف نہیں ہوتے۔ اور جو یہ بھارت کے موجودہ حالات و واقعات و معاشی حالت و شعور کو مدِنظر رکھ کر فرمایا ہے۔ ان لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے کہ جو لوگ بھارت میں غربت، کرپشن، اقربا پروری، بڑھتی ہوئی آبادی، سیلاب، بارشیں، طوفان جیسے موسمی حالات، صفائی و ستھرائی کا شعور جیسی باتوں کو مدِنظر رکھے بغیر برطانیہ کی صفائی کا مقابلہ بھارت سے کرتے ہیں اور اس طریقہ کو سوائے پراپیگنڈہ کے کچھ قرار نہیں دیا جا سکتا اور یا پھر خوامخواہ بھارت کی صفائی کو پکڑ کر برطانیہ کی صفائی کے قصیدے دنیا کے سامنے بیان کرنے کے کا محض ایک بہانہ ڈھونڈھنا ہے۔

  • 5. 4:20 2010-09-24 ,مبشر شاہ- ٹورانٹو :

    بے پناہ کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے کامن ويلتھ گيمزکو شيم گيمز کہا جا رہا ہے- انڈيا پر يہ مصرعہ سو فيصد پورا اترتا ہے کہ ” کواچلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گيا-

  • 6. 22:27 2010-09-25 ,محمد عبد اللہ :

    یہ ہے شائننگ انڈیا کا اصل چہرہ۔ کشمیر میں خون ہو رہا ہو اور دہلی میں گیمز اور میلے ٹھیلے کی بات کچھ جچتی نہیں ہے ۔در اصل انڈیا ان گیمز کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی ترقی کی دھاک بٹھانا چاہتا تھا جو کہ نہیں ہوا۔

̳ iD

̳ navigation

̳ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔