جانے ہمیں کب سمجھ آئے گی
ایک نجی ٹی وی چینل جمعرات کو صبح سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ 'پوری قوم' سپریم کورٹ کے اٹھارویں آئینی ترمیم کے مقدمے کے فیصلے کی منتظر ہے۔
حیرت ہوئی کہ میڈیا کی حد تک تو یہ شاید درست ہو، اعلیٰ ججوں اور وکلا کی حد تک درست ہو اور شاید حکومت کی حد تک بھی اس میں دلچسپی ہو لیکن کیا ان چند ہزار افراد کو سترہ کروڑ میں سے منفی کرنے کے بعد باقی بچی عام عوام کو بھی اس میں کوئی دلچسپی تھی؟ کیا 'دیہاڑی' کی تلاش میں نکلے کروڑوں لوگ آج کام کاج چھوڑ کر ٹی وی یا ریڈیو کے آگے بیٹھے ہیں؟ کیا نجی یا سرکاری ملازمت کرنے والوں کا بھی یہ حال ہے؟ کیا طلبہ آج کالج یونیورسٹی نہیں گئے تاکہ گھر پر رہ کر ٹی وی پر فیصلہ سن سکیں؟ قصہ مختصر پوری قوم کو دوسرے زیادہ اہم کام بھی ہیں، جانے کب ہمیں سمجھ آئے گی۔
اٹھاریوں آئینی ترمیم میں فوجی سربراہان، پبلک سروس کمیشن کے چئرمین اور آڈیٹر جنرل کی تقرری یا مدت ملازمت میں بھی تبدیلی متعارف کروائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں دیگر ترامیم پارلیمان نے منظور کی تھیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے پانچ ماہ تک سماعت کے بعد ججوں کی تقرری کے معاملے پر ہی اعتراض کیا ہے۔ عدالت نے اب اس اشو پر دوبارہ غور آئندہ برس جنوری تک ملتوی کر دیا ہے۔ بقول عدالت عظمیٰ باقی سب ٹھیک ہے۔
آزاد عدلیہ یقیناً ایک مہذب معاشرے کا لازمی جز ہے لیکن اس واحد معاملے پر اعتراض سے محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ کو محض اس سے متعلق ترمیم اچھی نہیں لگی ہے۔ تو کیا یہ اپنے مفاد کے تحفظ کی جنگ ہے یا کچھ اور؟ عام آدمی کے ذہن میں ایک ہی تاثر ہے کہ بظاہر ہاتھیوں کی اس لڑائی میں اس کا براہ راست کوئی لینا دینا نہیں۔ اعلی عدلیہ کے بارے میں ابھرنے والے تاثر کو درست کرنے کی یقیناً اس وقت ضرورت ہے۔
جو بھی ہو ججوں کی تقرری کے قضیے کے لٹکنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی بھی کم از کم جنوری تک نوکری پکی ہوگئی ہے۔ اس کے بعد اللہ مالک ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
کھودا پہاڑ نکلا چوہا !
اٹھارویں ترمیم میں ججوں کی تقرری کے معاملے پر سپریم کورٹ کے اعتراض سے دو تاثر تو ایک عام سوجھ بوجھ کا حامل بندہ بھی حاصل کر لیتا ہے کہ اول عدلیہ ‘سب سے پہلے مَیں‘ کے فلسفہ پر کاربند ہے اور دوم عدلیہ اور حکومت کی جنگ حقیقت میں اَنا کی جنگ ہے۔ پارلیمنٹ کو تو پھر بھی پاکستان کے عوام نے منتخب کیا ہے، اس لیے اس کے فیصلوں کو اہمیت نہ دینا، بار بار ٹوکنا، یا فیصلوں اور پالیسیوں کو جانبدار ٹھہرانا عدلیہ کو زیب نہیں دیتا کہ ایسا کرنا دراصل سیاستدانوں سے کہیں زیادہ عوام کی توہین ہے۔ عدلیہ خود کوئی آسمان سے نہیں اتری بلکہ ‘پی سی او‘ اور ‘ایل ایف او‘ وغیرہ سے مستفید ہوتی رہی ہے۔
یار آپ لوگ کبھی کبھار ایسا لکھ جاتے ہیں کہ اتفاق کرنا ہی پڑتا ہے۔
پاکستان ميں جہاں سياسی چپقلش اور مذہبی فرقہ پرستی کی آگ جل رہی ہے اور پارليمنٹ ميں قانون بنانے کے ليے کسی کے پاس اکثريت نہيں تو اس کا فائدہ اٹھا کر ججوں نے بھی اپنا گروپ بناليا ہے تاکہ وہ بھی اپنی من مرضی کرسکيں۔ عدليہ کے اس طرح کے بيانات عدليہ کی ساکھ کے ليے زہر قاتل ہيں نيز افتخار چوہدری کے ليے عرض ہے کہ وہ نہ تو سياسی رہنما بن سکتے ہيں اور نہ ہی ملک کے حالات ٹھيک کرنے کی اہليت رکھتے ہيں اور عوام نے ان کا جتنا ساتھ دينا تھا دے ديا اب عزت سے اپنا وقت گزاريں۔ ويسے بھی عزت کروانا اپنے ہاتھ کا کھيل ہے اور کہيں وہ غلط قدم اٹھاکر خود ہی توہين عدالت کے مرتکب نہ ہوجائيں۔ جن مسائل کی وہ باتيں کرتے ہيں اس طرح کے مسائل حکومت کے ساتھ راز داری ميں طے کيۓ جاتے ہيں ميڈيا ميں لاکر عوام کے ذہنوں کو خراب کرنے کا مطلب تناؤ پيدا کرنا ہے۔
يہ قوم جس کی غالب تعداد سپريم کورٹ کے فيصلوں يا اپوزيشن کی چيخ پکار سے بےنياز ہے- اکثريت کا خيال ہے کہ کوئی بھی آئے معاملات تو خرابی کی طرف ہی جاتے نظر آتے ہيں۔ عوام تو معصوم بھيڑوں کے ريوڑ کی طرح اپنے چارے کی تلاش ميں اس طرح ايک دوسرے کے پيچھے ايسے چپ چاپ چل رہے ہيں کہ اگر درميان ميں کھائی اور گڑھے بھی آئے تو ان کا سفر جاری رہتا ہے۔ پيچھے چلنے والی بھيڑيں انہيں کچل کر آگے نکل جاتی ہيں۔ حکومت يا عدليہ کے پيکيج سے انہيں کوئی خاص دلچسپی ہے نہ رغبت ہے۔ ايسے فيصلے کوئی انہيں چارہ تو نہيں دے گا۔ چارہ تو انہيں خود ہی تلاش کرنا ہے۔ ايک تو مہنگائی کا اژدہا انہيں نگلنے کو تيار بيٹھا ہے دوسرے دہشت گردی اور قتل عام جس ميں علاقے کی کوئی تفریق نہيں، کبھی لاہور، کبھی سيالکوٹ کبھی کراچی جہاں قبضے کی جنگ نےاس شہر پر اپنے پنجے گاڑنے کی سازشيں شروع کر رکھی ہيں۔ لوگ ان حالات سے چھٹکارہ چاہتے ہيں۔ انہيں انصاف کے ملنے سے دلچسپی ہے۔ غلط ہے کہ پورا ملک اس فيصلے کا منتظر ہے۔ ہاں ايسے معاملات سے نوکرشاہی اور سياسی پنڈتوں کو دلچسپی ہے يا ميڈيا کو۔ مزے دار اور چونکا دينے والے تبصرے پيش کرنے کے مواقعے دستیاب ہو جاتے ہيں يا سياسی بازيگروں کے کرتب دکھانے کا موقع ميڈيا فراہم کر ديتا ہے۔ اس ملک کے بيگناہ مرنے والوں کے لواحقين سے پوچھو کہ ان کو انصاف کون دلائے گا، انہيں کس جرم ميں مارا گيا ان کو اب کن کن حالات ميں کس مشکل سے زندگی گزارنی ہوگی۔ اس گھر کے باسی جن کے باپ اور دو بيٹے اس شہر کے سفاکوں نے موت کی نيند سلا ديے، سيالکوٹ کے ان نوجوانوں کے لواحقين سے پوچھو کہ انہيں کس بات سے دلچسپی ہے۔ وہ عدالت سے انصاف کے طالب ہيں جو فوری مل سکے۔ عوام اٹھارويں ترميم سے زيادہ اپنے مسائل کا فوری حل چاہتے ہيں۔ جس کا ملنا اس ملک ميں مشکل بنا ديا گيا ہے۔
جناب ! يہ ملک تو ايک مذاق بن چکا ہے۔ جوہری طاقت جو قرض اور امداد پر زندہ ہے۔ خواص جو اپنے مفادات ميں متحد ہيں اور عوام جو دست و گريباں ہيں۔
سر یو ں کیوں نہیں کہتے کہ اس لڑائی میں عام آدمی تباہ ہو رہا ہے۔ خدا کے لیے اگر برائی کو ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو بیان تو کھل کر کریں۔ پوری قوم منافق ہے۔
ہارون صاحب! يہ سب کچھ مفادات کی جنگ کا سلسلہ ہے جو طوالت پکڑے ہوئے ہے۔يہ رسہ کشی مخصوص عہدوں پر فائز افراد کے درميان جاری ہے۔ عام عوام بےوقوفی سے بطور تماشائی بن کر يہ ديکھتی رہتی ہے۔
عالی جا ! پاکستان میں عدلیہ اورانتظامیہ میں کوئی خاص پھڈا ہے یا نہیں اس بارے میں مختلف آرا ہیں اور یہ مختلف مقدمات کے موقع پر تبدیلی ہوتی رہتی ہیں لیکن ایک حقیقت جوں کی توں ہے وہ یہ کہ عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں۔ بےروزگاری، مہنگائی، اقرباپروری، رشوت ستانی، لاقانونیت اور معاشی بدحالی میں تیزی سے اضافہ جاری ہے۔ پارلیمان میں عوام کے منتخب کردہ لوگ ڈلیور کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظرآتے ہیں۔ حکومت بعض فیصلوں پر عدلیہ کے احکامات بجا لانے میں پش و پیش کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے بظاہر محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کرکے این آراو زدہ حکمرانوں نے عوام کی توجہ اپنے سے ہٹالی ہے۔اعلیٰ سے ادنیٰ تمام عہدوں پر جیالے جیالیوں کی بھرمار اور ذاتی پسند ناپسندکی پالیسی جاری ہے۔ انتظامیہ اور حکومتی رٹ نام کی کوئی شے کہیں نظر نہیں آتی۔ اداروں میں کرپشن عروج پر اورمانیٹرنگ نام کی کوئی چیز نہ ہونے کو کوئی پوچھنے والا نہیں جس سے عوامی مسائل حل نہیں ہو رہے اور بے چینی، اضطراب اور مشکلات میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں مجھے ایک اور مشکل بلکہ المیہ دکھائی یہ دیتا ہے کہ آئندہ انتخابات (چاہے جب بھی ہوں) میں پارلیمانی طرز انتخاب میں کسی انقلابی قیادت کے ابھر کر کامیاب ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر صدارتی طرز انتخاب رائج ہو جائے تو زرداری صاحب، نوازشریف کو عمران خان یا الطاف حسین ایسے انقلابی سوچ کے حامل رہنما پچھاڑ سکتے ہیں یا کم از کم نوجوان طبقہ اپنی پسند کے کسی انقلابی رہنما کو منتخب کرسکےگا۔ آزاد عدلیہ کوچاہیے کہ پچیدہ آئینی اورقانونی معاملات کے ساتھ ساتھ عوامی معاملات سلجھانے پر توجہ دے اوردیگر نوعیت کے مقدمات بھی نمٹائے۔
خاکسار کو اچھی طرح یاد ہے جب پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے صدرِ پاکستان کی نامزدگی کے لیے اجلاس بلایا تھا اور جس میں آصف علی زرداری کا نام متفقہ طور پر منتخب کیا گیا تھا تو اسی وقت نام نہاد ‘آزاد میڈیا‘ نے ‘زرداری کا فیصلہ صدر میں‘ بطور بریکینگ نیوز دیر تک چلائی رکھی تھی۔ ٹی وی چینلز پر چلنے والی ججوں کی بحالی کا نوٹیفیکشن واپس لینے کی غیر مصدقہ خبر کے فوری بعد جو رات گئے ججوں نے ‘کمک میٹنگ‘ کی اور بعد ازاں اٹھارویں ترمیم مقدمے کی سماعت کے دوران عدلیہ کو تمام شِقیں پسند آ گئیں مگر صرف ایک شِق نمبر ‘ایک سو پچھہتر اے‘ بابت ججوں کی تقرری اس عدلیہ کو پسند نہ آئی، تو کسی بھی میڈیا کی طرف سے ایسی بریکنگ نیوز دیکھنے کو نہ ملی کہ ‘عدلیہ کا فیصلہ، پارلیمنٹ سے پہلے میں‘ حالانکہ یہ صحیح معنوں میں حقیقت پر مشتمل بریکنگ نیوز ہوتی۔ ان دو واقعات سے میڈیا کی جانبداری صاف نظر آ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ میڈیا خصوصا ٹی وی صحافت حقائق کو جوں کا توں پیش کرنے کی بجائے توڑ مروڑ کر، ان پر تجزیوں، تبصروں کا ملمع چڑھا کر، اور خبر کے مواد کو ایسے طریقے سے پیش کرتی ہے کہ جس سے فرقہ واریت کو ہوا ملے، جمہوریت کو نقصان پہنچے اور ملکی یکجہتی میں روڑے اٹکیں۔ اس کا جواب یہی ہے کہ اول میڈیا طاقت کے نشے میں مست ہے جس میں سوائے اپنے آپ کے کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ دوم میڈیا خود کو ‘عقلِ کُل‘ سمجھنے کے خبط میں سوار ہے۔ سوم، میڈیا میں سرمایہ، سرمایہ دار لگاتا ہے، لہذا اس کے لیے ‘منافع‘ کا حصول ہی اولین ترجیح ہوتی ہے، اس کو ہر صورت میں منافع درکار ہوتا ہے اور اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ منافع جائز طریقے سے آئے یا ‘چمک‘ کے ذریعے، قصیدے پڑھ کر آئے یا بلیک میل کر کے، صحافتی ضابطہ اخلاق کے تحت اشتہارات وصول ہوں یا صحافتی ہتھکنڈوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اشتہارات حاصل ہوں۔۔۔۔۔۔ گویا نام نہاد ‘آزاد میڈیا‘ دراصل ایک ‘کاروباری میڈیا‘ ہے اور جہاں ‘کاروبار‘ ہو وہیں ‘کرپشن‘ آتی ہے اور جہاں کرپشن ہو وہیں عدلیہ سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اور جب ایسا نہ ہو اور ‘کرپشن‘ پر ‘سوموٹو‘ نہ لیا جا رہا ہو تو پھر دال میں کالا کالا کے ساتھ ہرا، چِٹا، نیلا پیلا اودا اودا تو ایک بچہ بھی دیکھ سکتا ہے۔ لہذا بہتر ہے کہ بقول شاعر:
لازم یہی ہے کہ کر لیں خطاؤں کا اعتراف
ساعت یہ درگذر کی ہے، وقتِ دعا بھی ہے
دراصل ہر کسی کو قوم کا ٹھیکیدار بننا بہت پسند ہے۔ چاہیے میڈیا ہو یا سیاستدان یا کوئی اور۔