تنازعہ محض وادی تک محدود ہے
اگر عالمی برادری ساٹھ برسوں کی سیاست اور تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اب صرف وادی تک محدود رہا ہے اور ریاست کے دوسرے علاقے شورش سے محفوظ رہے ہیں تو ان کی سوچ غلط نہیں ہے البتہ غور طلب ضرور ہے۔
جب بھی مسئلے کو حل کرنے میں عالمی برادری نے ذرا سے دلچسپی کا مظاہرہ کیا تو ریاست کے اندر ہی اس کے خلاف مختلف آوازیں اٹھی ہیں جو بعض کشمیری مسلمانوں کے علاوہ غیر کشمیری، پنڈتوں اور دوسری برادریوں نے اُٹھائی ہیں، اس کی مثالیں حالیہ شورش کے دوران بھی اُس وقت سامنے آئیں جب حکومت نے مسئلہ کو حل کرنے کا صرف اشارہ ہی دیا تھا۔
کشمیرکا مسئلہ جتنا آسان لگتا ہے اتنا ہی پیچیدہ بھی ہے۔ جہاں کشمیری مسلمان، جن کی وادی میں اکثریت ہے، سو فیصد آزادی کے حق میں نہیں ہیں وہیں جموں وکشمیر کی ہندو اور لداخی برادری بھارت نواز ہیں اور انہوں نے کبھی کسی قسم کی سیاسی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا۔ نہ ہی آزادی نواز کشمیریوں نے ان کو اپنا ہم خیال بنانے کی سعی کی۔
وادی کے مسلمانوں میں گجُر بکروال پہاڑی بھی شامل ہیں جن کا 'تحریک آزادی' میں کوئی نمایاں کردار نہیں رہا اور نہ انہوں نے کُھل کر بھارت نواز ہونے کا اظہار کیا ہے ۔ پھر بھارت نواز ستاسی ممبران پر مشتمل اسمبلی کو اقتدار میں لانے والے وہ ووٹر بھی موجود ہیں جو اگرچہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف حکومت سازی کے لیے ووٹ ڈالے ہیں لیکن اُن کی رائے غیر اہم تصور نہیں کی جاسکتی حالانکہ یہی لوگ حالیہ 'کشمیر چھوڑ دوتحریک' کے روح رواں بھی رہے ہیں۔
عالمی برادری کے سوچ کے مطابق جموں کی آبادی نے الحاقِ بھارت پر کبھی اعتراض نہیں کیا لداخ کے لوگوں میں نیشنل کانفرنس سے زیادہ مرکزی جماعتیں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی مقبول ہیں۔ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں اکثریت نے اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کر رکھا ہے جب کہ شمالی علاقے پہلے ہی پاکستان کے کھاتے میں جا چکے ہیں تو مسئلہ اگر ہے تو وہ صرف وادی کاہے اور وادی کے عوام کو اندرونی خودمختاری دے کر مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جو بھارت نے خاص طور پر عالمی برادری میں پیدا کی ہے اور اِسی کو کشمیر کا روڈ میپ بنا کر بھارتی مذاکرات کار کشمیر کی گلیوں میں آج کل ہر کسی سے ملنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ کیا کشمیری عوام کو بھی اس مسئلے کو سن پچاس یا ساٹھ کے مقابلے میں اب موجودہ تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ بھارت پاکستان نے جس طرح سے اس مسئلے کو اب صرف وادی کی حدود تک محدود کر دیا ہے، عالمی برادری نے اسے آنکھیں بند کر کے قبول کر لیا ہے اور اُن کی توجہ بھی اب صرف وادی تک ہی مرکوز ہوگئی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
مسئلہ کشمير کا روڈ ميپ جواہر لال نہرو نے ترتيب دے ديا تھا- اس مقصد کو عملی جاما پہنانے شيخ عبدللہ کو جيل سے رہا کر کے ايوب خان کے پاس بيجا تھا اسميں کشمير کی بھارتی حدود ميں محدود خود مختاری دينے کی تجويز تھی کہ آزاد کشمير بھی اس ميں شامل ہو سکے- ايوب خان کو شيشے ميں اتارنے کی شيخ عبدللہ نے بڑی کوشش کي- انہوں نے ايوب خان سے مدد بھی چاہی ليکن ايوب خان نے شيخ عبدللہ کو کس مدد کی يقين دھانی تو نہيں کرائی ليکن اس بات چيت کشمير کی جنگ سے شروع ہو کر 65 تک پھيل گئي- اور بھارت تاشقند ميں روسی چھتری تلے پاکستان کو کشمير کی ايل او سی پار نہ کرنے کے معاہدے کا پابند کرانے ميں کامياب ہو گيا- اس معاہدے کے باعث بھٹو کی سياسی زندگی کا آغاز ہوا-
ليکن شملہ معاہدےميں بھٹو نے بھی تمہارہ اور ہمارے کشمير کی توسيق کر کے کشمير کا قضيہ دونوں ممالک کا معاملہ قرار دے کر طے کرنے کے معاہدے پر دستختط کيے پہلے روس کا پريشر تھا پھر بنگلہ ديش اور پاکستانی جنگی قيديوں کی حوالگی کا پريشر تھا جسے بھارت نے شملہ معاہدے کی صورت ميں پاکستان کو مجبورا” دستخط کروائے- اس معاہدے ميں بھی کشمير کونہرو روڈ ميپ کی سمت ہی کی جانب روا رکھا-
پرويز مشرف اب بھيبھارت کی کوشش وہی ہے جس کی تجويز شيخ عبدللہ ايوب کے پاس لائے تھے-پاکستان کی ہميشہ کوشش يہی رہی کہ کشمير کا مسئلہ کسی صورت طے ہو جائے- تا ککہ تصادم سے گريز ہو ليکن بھارت اس مسئلے کو طول دے کر پاکستان سے تصادم کا رستہ کھلا رکھےاور پاکستان کو اتنا مجبور کر دے کہ پاکستان انڈيا کی من مانی تسليم کر کے کشميريوں کی حمائت سے دستبردار ہو جائے- اب ديکھتےہيں کہ پاکستان اپنی بقا کی جنگ کس خوبی سے لڑتا ہے-
اگر کسی وادی کے ارد گرد کا علاقہ امن و امان سے بھرپور ہو اور شورش سے محفوظ ہو تو اس کا یہ معنی نہیں ہو سکتا کہ وادی کا مسئلہ صرف علاقائی ہے اور اس کو بین الاقوامی مسئلہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر عالمی برادری کشمیر مسئلہ کو اب صرف وادی تک محدود سمجھنے لگی ہے تو پھر اس نے کیا پچاس ساٹھ سال پہلے بھنگ پی ہوئی تھی یا چرس کا سُوٹا لگایا ہوا تھا جو اسے کشمیر سے وابستہ ارد گرد کے علاقے شورش سے محفوظ نظر نہیں آتے تھے حالانکہ یہ تو شروع سے ہی پر امن آ رہے ہیں۔ ہاں، البتہ یہ غور طلب ضرور ہے کہ ان کو پر امن آخر کس طرح رکھا گیا ہے؟ کچھ دے دِلا کر؟ یا یہ واقعتا ہی خوش ہیں؟ اگر واقعتا کی خوش ہوتے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارتی بندوبستی کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف وزریوں اور بھارتی فوج کے کرفیو پر پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں سے کوئی قابلِ قدر ‘ردِعمل‘ دیکھنے سننے کو نہیں ملتا؟ اگر ارد گرد کے علاقے حقیقتآ خوش و خرم ہوتے تو ‘جموں کشمیر لبریشن فرنٹ‘، ’جبری ناتے توڑ دو کشمیر ہمارا چھوڑ دو‘ نعروں سے بھرپور پاکستانی اور بھارتی دونوں کشمیر کو اکٹھا کر کے ایک الگ سلطنت کے قیام کے لیے تحریک نہ چلاتی جو کہ رواں دنوں میں جاری ہے۔ پاکستان کے قیام میں بھی سب مسلمان متفق نہ تھے اور صرف وہی متفق تھے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ بھارتی بندوبستی کشمیر میں تمام کے تمام مسلمان ‘الحاق پاکستان‘ یا ‘آزاد کشمیر‘ کے حق میں ہوں۔ ہر جگہ ‘ابو الکلام آزاد‘ موجود ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی باتوں کو جذبات کے دھارے میں بہہ کر نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ ٹھنڈے دل سے اور غیر جانبدار ہو کر ان کی رائے کو پرکھا جائے کہ یہ لوگ بہت سیانے ہوتے ہیں اور آنے والے دنوں کا اپنی حسیات و علم کی مدد سے پہلے علم حاصل کر لیتے ہیں۔ وادی کے لوگوں کا جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ‘آزادی‘ کی تحریک کو دانستہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بلکہ ان کا جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ وہ بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہیں، انہیں بھی بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو کشمیریوں کا اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ‘آزادی‘ کی تحریک کو چار چاند لگا دیتا ہے کہ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کشمیری ‘جمہوریت‘ پر یقین رکھتے ہیں اور بذریعہ دھونس دھاندلی، دہشت و بندوق کے نہیں بلکہ جمہوری طریقے پر یقین کرتے ہوئے ‘آزادی تحریک‘ چلا رہے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کشمیر کو میڈیا کوریج کتنی مل رہی ہے؟ عالمی برادری کے نوٹس میں لانے کے یہی دیکھا جاتا ہے کہ میڈیا کتنا شور کر رہا ہے، کتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، کتنے کرفیو لگ رہے ہیں اور اس کے تحت کتنی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔۔۔۔ آخر عالمی برادری نے بھی تو وہیں نوٹس لینا ہوتا ہے جہاں سے اس کی دال بھی گلے اور اس کی مشہوری ہو۔
صوبہ جموں کے مسلم اکثریتی اضلاع کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہو گا۔وہاں کے لوگ کم از کم ہندوستاں کے بے جا ظلم وزیادتی کی وجہ سے ہندوستاں سے متنفر ضرور ہیں۔اسی طرح الیکشن میں حصہ لینے کو بھی بطور دلیل پیش کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ "أہون البلیتین"یعنی:بڑی مصیبت کے بجائے چھوٹی مصیبت مول لینے کے سوا عوام کے پاس کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا ہے اس لئے اپنے ووٹ کے ذریعہ وہ بڑی مصیبت کو ٹال کر چھوٹی مصیبت اختیار کر لینے میں عافیت سمجھتے ہیں۔اور بعض مقامات پر ان سے زبردستی ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔اس لئے استصواب رائے ہی سب سے بہترین حل ہو سکتا ہے۔
کشمیر کو پاکستان اور انڈیا نے اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے اور بے گناہ کشمیری گذشتہ 60 سالوں سے ظلم وبربریت کی چکی تلے پس رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے حکمرانوں نے کوئی خفیہ معائدہ کیا ہوا ہے کہ بس ادھر تم ادھر ہم۔ جب تک دونوں طرف کے کشمیر میں قابض غیر ملکی افواج و انتظامیہ کے خلاف بھرپور تحریک نہیں چلتی یہ ہمارے خون کے ساتھ ایسے ہی ہولی کھیلتے رہیں گے۔ کشمیریوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انھوں نے اپنا مستقبل ایک ناکام ملک پاکستان کے ساتھ جوڑا جس نے کبھی بھی کشمیریوں کے حقوق کا نہ خود خیال کیا اور نہ بین الاقوامی سطح پر ایشو کو کسی منطقی انجام تک پہچانے کی سعی کی۔ پاکستان نے اپنے مفادات کی خاطر کشمیریوں کے خون کا سودا کیا۔ انڈیا سے تو زیادہ کشمیر کی وحدت کو پاکستان نے نقصان پہچایا۔ گلگت بلتستان جو کہ کشمیر کا حصہ تھے ایک علٰیحدہ صوبہ بنا ڈالا جو کہ متنازعہ علاقے میں ایسا کرنا دنیا کے کسی قانون کے تحت صحیح نہیں ہے۔ بہرحال ابھی کشمیری عوام نے اپنی قربانیوں کے ذریعے تحریک آزادی کشمیر کو جس مقام پہ لاکھڑا کیا ہے انکے لئے بہتر ہو گا کہ جیسے وہ بھارت کی کسی چال میں نہیں آ رہے وہ پاکستان سے بھی خبردار رہیں کیوں کہ پاکستان انڈیا سے بھی برا ہے۔
محترمہ شکر ہے کہ آپ کی سوچ نے بھی کروٹ لی ہے اور يہ بلاگ کافی حقيقت پسند لگتا ہے۔کشمير ميں مجموعی طور پر ان افراد کی تعداد زيادہ ہے جو کہ يا تو بھارت نواز ہيں اور يا ايک آزاد رياست کے حامي۔پاکستان کے ساتھ الحاق کے حاميوں کی تعداد بہت کم ہے اور ان کا وادی ميں تحريک چلانا پاکستانی ايجنسيوں يا تنظيموں کی کاوشوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔اگر انڈيا اور پاکستان کی سياسی اور اقتصادی صورت حال کا موازنہ کيا جائے تو کوئی بھی ذی الشعور پاکستان کے ساتھ رہنے کو تيار نہ ہوگا يہاں کسی چيز کی کوئی گارنٹی نہيں۔اسی ليۓ تو بنگلاديش بنا اور اب بھی اس کے ٹکڑے بنتے نظر آرہے ہيں خدا خير کرے۔بلکہ اگر کشمير اور پاکستان دونوں ميں عوام سے خفيہ رائے لی جائے جس ميں ايجنسياں اور مولوی ملوث نہ ہوں تو يہ گارنٹی والی بات ہے کہ انڈيا کے ساتھ رہنے کے ليۓ پاکستانی بھی پجاس فيصد سے زيادہ ہونگے۔
جی ہاں مسئلہ وادی کشمیر کا ہی ہے لیکن اقوام متحدہ کی جن قرار دادوں کے مطابق ریاست کشمیر کے دونوں حصوں میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین تعنیات ہیں،انہی قراردادوں کے مطابق وادی کشمیر،لداخ،جموں،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی ایسے متنازعہ علاقے ہیں جن کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔تاہم بھارت لداخ و جموں اور پاکستان،گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو اپنے میں مدغم کرنے کا عندیہ دیتا ہے۔یعنی تقسیم کشمیر کے اقدامات حاوی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ وادی کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو لیکر ریاست کے باقی علاقے اپنے معاملات بیان کرتے ہیں یعنی کشمیر میں جلتی آگ پر اپنی اپنی روٹیاں پکانے کی کوشش۔تاہم مسئلہ کشمیر کے حل میں ریاست کے تمام علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو گا۔یہ کریڈٹ وادی کشمیر کے لوگوں کو جاتا ہے جن کی قربانیاں اور جدوجہد نے ہی مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کے حق آزادی کا نام زندہ رکھا ہوا ہے
یہ دائے درست نہیں ہے۔ پہاڑی لوگ تحریکِ آذادی میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اپنے حقائق اور اعداد و شمار کا ازسرِنو جائزہ لیں، پہاڑی لوگ پوری وادی میں بشمول کپواڑہ اور ضلع بارہ مولہ میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔