امداد کا سامان بازاروں میں
تاجروں کے لیے دکان سجانے کی جگہ کی کمی نہیں اور خریداروں کو سستے سامان کی لالچ رکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ نیلے پیلے بستروں اور کمبلوں کا ڈھیر آپ کو اپنی جانب متوجہ کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ اور جب رکیں تو پھر وہاں موجود نوجوان پٹھان تاجر سے خالی ہاتھ جانا تقریباً ناممکن ہے۔
یہ احوال ہے مردان میں سڑک کنارے ایک عارضی بازار کا جس پر وہاں سے گزرتے ہوئے نظر پڑی۔ بڑے بڑے جعلی حروف میں ان پر امدادی تنظیموں کے نام لکھے ہیں۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں شدت پسندی سے متاثرہ ضلع سوات اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں چارسدہ اور نوشہرہ میں متاثرین میں امداد تقسیم کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے ادارے یو این ایچ سی آر کی طرف سے متاثرین کو دیئے جانے والے کمبل، لحاف، بسترے، چائے اور دیگر سامان مردان کے قریب سڑک کنارے لگی دکانوں میں بیچا جا رہا ہے۔ ان دکان داروں کا تاہم اصرار ہے کہ یہ صرف سوات کے متاثرین کے لیے دیا جانے والا سامان ہے، سیلاب والا نہیں۔ لیکن وہاں موجود چند عینی شاہدین اور کسی ٹی وی ٹاک شو کی طرز پر باآسانی دستیاب تجزیہ نگاروں نے کہا کہ یہاں دونوں قسم کے متاثرین کو ملنے والا سامان بِک رہا ہے۔ جب دکان لگانی ہے تو پھر مکمل انتظام ہونا چاہیے۔ امدادی سامان کے ساتھ دیگر سامان بھی لاکر یہاں فروخت کیا جاتا ہے اور عام شہری اسے بازار سے ارزاں سمجھتے ہوئے خرید لیتے ہیں۔
وہاں عکس بندی اور دو کمبلوں کی خریداری کے بعد ذہن میں سوال آیا کہ کیا میں نے درست کیا؟ لیکن پھر تسلی دی کہ متاثرہ شخص کو کمبل سے زیادہ رقم کی ضرورت تھی لہذا وہ تو اپنی رقم لے گیا، میرے خریدنے نا خریدنے سے اب اسے کوئی نفع نقصان نہیں ہوگا۔ ہاں یہ سامان خریدنے سے شاید ایک منفی عنصر یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے دیگر متاثرین کی بھی اپنی امداد فروخت کرنے کی حوصلہ افزائی ہو۔
تاہم اس سے سب سے زیادہ اہم سوال ذہن میں یہ تھا کہ اس انتہائی سرد موسم میں سوات اور نوشہرہ کے سرد علاقے کے لوگ اپنے بسترے اور کمبل فروخت کر رہے ہیں، تو یہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ شاید یہ کہ جو متاثرین کو چاہیے وہ انہیں نہیں مل رہا۔ انہیں آسٹریلیا کی چائے نہیں، سو دو سو روپے کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنی کوئی اور زیادہ اہم ضرورت پوری کر سکیں۔ شاید چائے جیسی عیاشی کی نسبت انہیں دو روٹیوں کی زیادہ ضرورت تھی؟
تبصرےتبصرہ کریں
بہت ہی باریک ترین مسئلہ سے روشناس کروا کر معلوماتِ عامہ میں اضافہ فرمانے اور ایک نئی پرت کھولنے پر محترم ہارون رشید صاحب کا بہت شکریہ۔
ہم اس ميں عزت نفس کو بھول گۓ ہيں۔
ہم بدقسمتی سے ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں قوم اپنے ہم نفسوں کے سروں کی بولیاں بازار میں بکنے والے کسی جنس کی مانند کھلی منڈی میں لگوا رہی ہے۔ جی ہاں قوم، قوم اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ اس کاروبار میں جہاں مقتدر قوتیں براہ راست ملوث ہیں وہیں سیاست، صحافت، قلم کاروں، فنکاروں کا قبیلہ غرض یہ کہ ہر ایک اپنی بساط بھر ساجھے داری پر مطمئن ہے۔ ایسے ملک میں جہاں غربت، لخت جگر بکوا دیتی ہے وہاں امدادی سامان کا بکنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ جی ہاں یہ بھوک کہ جس کی کوئی اخلاقیات، کوئی مذہب، کوئی دین ایمان نہیں۔ پھر چاہے یہ بھوک روٹی کے چند ٹکڑوں کی ہو، جھوٹی شان و شوکت کی ہو یا پھر انسان ذات پر حکومت کرنے کی۔
ہارون رشيد صاحب! يہ ہمارے مجموعی رويوں کا عکاس ہے۔ ہم يہ سب کچھ کرنا اپنا حق سمجھتے ہيں۔ شروع سے ہی بازاروں ميں امداد کے نام پر آنے والی اشياء بکتی نظر آتی ہيں۔اس قبيح کام ميں ملوث افراد کبھی نادم نہيں ہوتے اور نہ ہی اس ناپسنديدہ فعل ميں کمی يا اس کی روک تھام کا کوئی امکان ہے۔ يہ بدنماں داغ نماياں ہی رہے گا۔
سوات ويسے بھی پسماندہ علاقہ ہے وہاں آمدنی کا زريعہ سياحوں کی آمد تھی جو اس جنگ کی ہولناکيوں کی بھينٹ چڑھ گئي۔ لوگ کھانے پينے کے مسائل کاشکار ہو گئے۔ اوپر سے سيلابوں کی تباہ کاريوں اور مذہبی شدت پسندی کی چپقلش نے ان کو زندہ درگور کر ديا۔ بہت معصوم اور جفاکش لوگ صرف سر چھپانے اور پيٹ کی آگ بجھانے ميں سرگرداں ہيں۔ ان حالات ميں تو وطن دشمنوں کی حمايت پر کمر بستہ بھی ہو سکتے ہيں۔ چونکہ زندگی کا رشتہ تو پيٹ کی آگ بجھا کر ہی پورا ہو سکتا ہے۔ امدادی تنظيموں کو وہاں ہر آبادی کے ساتھ عارضی ہوٹل کھول کر کھانا تينوں وقت فراہم کرنے کے اقدامات کرنے چاہيئں تاکہ ان کے اس بڑے مسئلے کا صد باب ہو سکے۔
او بھائی کیا کہہ رہے ہو؟ زندگی عزیز نہیں تو بیوی بچوں کا ہی خیال کر لے۔۔۔۔
کیا تمہیں نہیں معلوم اس "مومن قوم" کے لیے "ایمان" کی حرارت کافی نہیں سردی سے بچنے کے لیے؟ رہی بات بھوکے پیٹ کی تو اس کا "اجر" ، "علماء" کی اطاعت کے اجر کے ساتھ جنت میں ملے گا۔
ادھر کوئی ايک مسئلہ ہے۔ ’اجتماعی بے حسی سے ليکر انفرادی لاتعلقی تک بکھری داستانيں نہ جانے کس منزل کا پتہ دے رہی ہيں۔’
یہ ہماری بےحسی کی انتہا ہے۔ بلا شبہ ہمارا معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں ہم لاشوں کی سیاست سے لے کر، لاشوں کی دکانداری تک سب کچھ ایک معمول کی کارروائی سمجھ کر کرتے ہیں۔ افسوس ایسے میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آج اگر یہ حالات ہمارے بھائی دیکھ رہے ہیں تو کل یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اپنے ایک چھوٹے سے مفاد کی خاطر ہم ہزاروں کے بڑے مفادات کو ایک منٹ میں پامال کرنے سے گریز کبھی نہیں کرتے ہیں۔
ہارون رشید صاحب آپ کی اس بات کہ "شاید چائے جیسی عیاشی کی نسبت انہیں دو روٹیوں کی زیادہ ضرورت تھی؟" سے تو میں کلی طور پر اتفاق کرتا ہوں۔ ہمارے شہر مظفر گڑھ کے دیہات میں لوگ پاستا، مائلو، نوڈلز پر کافی تجربات کرنے کے بعدبالاخر انہیں سستے داموں بیچنے پر یا پھر پھینکنے پر مجبور ہوگئے، ٹوٹی پھوٹی بان والی چارپائیوں پر جب کورین کمبل بچھانے یا اوڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا تو کچھ نے تو بیٹیوں کے جہیز کے لئے رکھ لیئے باقی ایک کمبل کے بدلے میں دو دو رضائیاں لے آئے، تاہم اگر آپ کو یہ خوف نہیں ہے کہ واقعی یہ کسی پناہ گزین نے بیچے ہیں یا ان کے تقسیم کرنے والوں نے تو آپ بے دھڑک انہیں پہن سکتے ہیں۔
ہارون صاحب ، ہم منشی ٹائپ لوگ تاریخ کی جس بدترین اوراق کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں ، کیا ہماری یہی کوششیں کافی ہیں؟ جب مستقبل کا محقق اس معاشرے کی تباہی کے سلسلے میں پورے معاشرے کو رگید رہا ہوگا اس کا صحافیوں، دانشوروں سے سلوک کس قسم کا ہوگا؟ کیا وہ ہم سب کو معاف کر دے گا؟ یقیناً نہیں نا، تو کیا اسی فورم پر کسی بھی طرح کی ممکنہ عملی لائحہ عمل پر بحث اور اس کے نفاز پر غور نہیں کرنا چاہیے؟ باتیں تو پورے معاشرے میں بہت ہو رہی ہیں، اگر بساط بھر اپنی سی کوشش کی جاۓ تو کم از کم اطمینان قلب تو میسر ہوگا .
بین الاقوامی بازاروں ميں قيمتوں ميں اضافے کا بہانا بنا کر مہنگائی ميں بےانتہا اضافہ کرنے والے پتہ نہيں کيوں اجرت بین الاقوامی معيار کی نہیں ديتے۔ ہارون رشید صاحب نے تو اعتدال سے کام ليتے ہوئے صرف ايک رخ ديکھايا ہے۔
‘ہیں جال وہ ہوا میں کہ آتے نہیں نظر
خوشبو بھی ہو نہ جائے گرفتار دیکھنا‘
ایک بات جو معلوم نہیں ہو سکی وہ یہ ہے کہ دکاندار جو سامان فروخت کر رہے ہیں، کیا وہ متاثرین میں شامل ہیں اور گرم کپڑوں کے سٹاک کے زیادہ اکٹھا ہو جانے کی وجہ سے سامان فروخت کر کے دیگر ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں؟ یا پھر امدادی تنظیموں کی طرف سے متاثرین کے جو سامان تقسیم کیا جا رہا ہے وہ سامان متاثرین تک براہ راست نہیں پہنچتا بلکہ بذریعہ سڑک کنارے بازار سے سستے داموں خریدنے پر متاثرین کے گھروں میں داخل ہوتا ہے؟ دوسری بات زیادہ درست اور قرین قیاس دکھائی دیتی ہے کیونکہ اگر متاثرین اپنا سامان فروخت کر رہے ہوتے تو پھر مردان میں سڑک کنارے عارضی بازار میں بڑے بڑے حروف میں امدادی تنظیموں کے نام نظر آنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس ٹھنڈ میں اگر سوات اور نوشہرہ کے سرد علاقے کے لوگ گرم کپڑے، بسترے، کمبل اور رضائیاں وغیرہ فروخت کر رہے ہیں تو اس سے دو باتیں اخذ ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ گرم کپڑے ضرورت سے زیادہ دستیاب ہیں اور دوم یہ کہ ایسا لگتا ہے کہ جسے امداد مستحق متاثرین تک نہیں پہنچ رہی بلکہ یہ امداد اونے پونے داموں پر بازار سے خریدنے پر ملتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سڑک کنار لگے عارضی بازار کی مکمل چھان بین کی جائے تاکہ کالی بھیڑوں کی نشاندہی ہو سکے۔ ضرورت سے زیادہ گرم کپڑوں کی فراہمی یا دستیابی سے یہ بھی باآسانی نظر آتا ہے کہ امدادی تنظیمیں بغیر کسی پلاننگ، منصوبہ بندی اور اعداد و شمار اکٹھے کیے بغیر امدادی کام کر رہی ہیں جس سے ایک تو ان کا ‘اناڑی پن‘ کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسری طرف ‘خلوصِ نیت‘ سے زیادہ این جی اوز اور امدادی تنظیموں کو ‘خلوصِ پبلسٹی‘ سے زیادہ غرض و غایت دکھائی دیتی معلوم ہوتی ہے اور جو کہ بازار میں امدادی تنظیموں کے بڑے بڑے بینرز سے عیاں بھی ہے۔ جبکہ اصل امدادی کام وہی ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ سے اس طرح دیا جائے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہ ہو سکے۔
یہ صرف سوات یا خیبر پختونخوا کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہر جگہ جہاں کوئی قدرتی آفت آتی ہے امداد ملنے کے بعد سرعام بازار میں فروخت ہو جاتی ہے۔ اس کی زحتلف وجوہات ہیں۔ ان میں امداد کا زیادہ ملنا، غیرمتعلقہ لوگوں کو ملنا، سرکاری و غیرسرکاری افسر بھی اسے بازار میں فروخت کرتے ہیں۔
جہاں دیکھو امدادی سامان کا اکٹھا کرنا اور تقسیم کرنا لگا ہوا ہے یہ دیکھے اور جانے بنا کے اصل میں ان کو ضرورت کس چیز کی ہے، ہم یہاں سے کمبل اور دوسرے چیزیں لے جا کر دیتے ہیں مگر کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کے نقد رقم بھی ضرورت پر سکتی ہے تو ہو سکتا ہے ان لوگوں کو یہ کام زیادہ آسان لگا ہو کے سامان بیچ کر کچھ رقم کا بندوبست کر لیا جائے جیسے کچھ دن پہلے وہاں پر کچھ خواتین کو سامان کی ضرورت تھے مگر کسی نہیں بھی ان کی ضرورت کا بندوبست نہیں کیا مگر جب چند خواتین وہاں گئیں تو ان کو اندازہ ہوا کے کھانے کے سامان کے ساتھ یہ بھی چند چیزیں ہیں جن کا ہونا ضروری ہے.
جب پاکستان حاصل کیا گیا تو ضروری تھا کہ سجدہ شکر ادا کرتے مگر ایسا اب تک نہ ہوا اور پیٹ کی آگ سب کچھ کھا رہی ہے۔ اس لیے امداد کا سامان تو کچھ بھی بڑی بات نہیں ہے یہاں تو پیسے کے لیے غیرت کے سودے کیے جا رہے ہیں۔
اس ریاست میں نامعلوم کی دھند سے وحشت کے جن برآمد ہو رہے ہیں، جو انسانیت کا خون چوسنے میں مہارت رکھتے ہیں!
امدادی سامان کی تقسیم کے عمل میں روز افزوں بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور خیانت آج کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس سے نہ صرف متاثرین کی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ مخیّر حضرات اور امداد دینے والے اداروں کی کارکردگی پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور سب سے برا اثر یہ ہے کہ لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اور انسانی امداد کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔