لاپتہ لوگوں کا سال
اب تو امریکہ نے بھی پاکستان میں ایجنسیوں کے ہاتھوں سینکڑوں افراد کی گمشدگيوں پر تب تشویش کی ہے جب بلوچستان سے گمشدہ افراد کی لاشیں بر آمد ہونا شروع ہوئی ہیں۔
ہ وہ لوگ ہیں جن میں سے ایک سابق لاپتہ عبدالستار بھٹو کی اہلیہ کے بقول کہ 'انہیں زمین کھا گئی کہ آسمان نگل گیا'۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی کانگریس کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں پولیس اور انٹیلیجنس ایجینیسوں کے ہاتھوں گزشتہ ایک دہائی سے ہزاروں افراد بشمول بلوچستان کے قوم پرستوں اور عام شہریوں کے غائب کر دیے گئے ہیں۔
یہاں تک کہ پاکستان میں ان گمشدہ افراد میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے تک شامل ہیں۔ مجھے ملیر کراچی، لاہور کے چڑیا گھر کے نزدیک اور چکلالہ راولپنڈی میں بیس ماہ تک قید رہ کر رہا ہو کر آنے والے ایک سابق لاپتہ نے بتایا تھا کہ ان عقوبت گھروں میں لاپتہ لوگوں کو رکھے جانے کا ایک بہت بڑا 'نظام' ہے۔ آنکھوں پر پٹی بندھے اس گمشدہ شخص نے اپنی بیس ماہ کی گمشدگی کے دوران شاذ و نادر ہی کبھی سورج کی روشنی دیکھی۔
یہ گمشدہ لوگ کراچی سے لے کر کوٹلی کشمیر تک سے ہیں۔ ان میں طالبان عسکریت پسند بھی ہیں، تو بلوچ علیحدگی پسند بھی، پر امن، روشن خیال اور سیکولر لوگ، بلوچ شہری بھی ہیں، تو سندھی قوم پرست بھی تو سابق اور حالیہ فوجی بھی، تو صرف مذہبی لوگ بھی۔
ایسے بھی ہیں جو ایک دو اور تین بار بھی غائب کر دیے گئے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سندھی قوم پرست آکاش ملاح بھی شامل ہیں جن کیلیے سندھ ہائی کورٹ میں متعلقہ پولیس نے لکھ کر دیا کہ انہیں آئی ایس آئی والے اٹھا کر لے گئے تھے۔ کوئی نماز پڑھنے گھر سے نکلا غائب کر دیا گیا تو کوئی شیو کرواتے حجام کی دکان سے غائب۔ کوئی ایئرپورٹ پر اترتے غائـب، تو کوئی گھر میں سوتے ہوئے غائب۔ اڈیالہ جیل سے مشرف پر حملہ کرنے والے مبینہ حملہ آور مقدمے سے بری ہو کر نکلے ہی تھے کہ غائب کر دیے گئے۔
بلوچ قوم پرست کہتے ہیں کہ اب تک غائب ہو کر مردہ حالت میں برآمد ہونے والوں کی تعداد چالیس ہے۔
عافیہ صدیقی تو پاکستان کی بیٹی ہیں لیکن گمشدہ بلوچ لڑکی زرینہ مری نہیں!
سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے آج تک پیارے پاکستان کو گمسشدگیوں میں کل کے چلی، ارجینٹینا اور ایلسلواڈور سے بھی آگے پہنچا دیا۔
گزشتہ دس برس سے دو ہزار دس تک ہر برس پاکستان میں گمشدگيوں کا سال رہا۔ کاش دو ہزار گیارہ ان کئی گمشدہ لوگوں کے گھر واپس آنے یا ظاہر کر دیے جانے کا سال ثابت ہو۔ بقول فیض:
جن کی آنکھوں کو رخ صبح کا یارا بھی نہیں
انکی راتوں میں کوئی صبح منور کر دے
تبصرےتبصرہ کریں
آج کا بلاگ تو بہت سے لوگوں کی دل کی آواز ہے۔ ماؤں کے بچے تو پہلے بھی غائب ہوتے اور يہ ہی "فرشتے" گھر سے لے کر جاتے تھے ، فرق يہ ہے پہلے ايک آدھ ماہ بعد خط آجاتا تھا کہ "ماں ميں جہاد پر جارہا ہوں، دعا کرنا شہادت ملے"۔ ن لیگ کے حاليہ دس نکات ميں نہ تو زرينہ جيسی بيٹيوں کا ذکر ہے اور نہ ہی ڈرون حملوں کا۔ عرض ہے "ہے بجا شيوہ تسليم ميں مشہور ہيں ہم، قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم"۔
مثال ہميشہ ہی غلط لکھتے ہو، اصل اس طرح ہے کہ آسيہ بی بی پاکستان کی بيٹی ہے، عا فيہ بی بی نہيں۔
دنياميں سب سے بڑا نام نہاد انسانی حقوق کا عالمی ٹھيکيدار امريکہ، خود ہر روز " سی آئی اے" کے ذريعے دنيا ميں انسانوں کا قتل اور انہيں غائب کروا رہا ہے اور اپنی ترقی کی تاريخ ميں ايک کروڑ سے زيادہ معصوم انسانوں کوختم کر چکا ہے۔ بس اس دنيا ميں "ہٹلر" ابھی تک زندہ ہے۔
پرويز مشرف کو گئے تين سال ہوگئے۔ کيا "آٹو پائلٹ" پر چھوڑ گيا تھا کہ سب جوں کا توں چلا جا رہا ہے؟ نہ کہيے، ہم کہے ديتے ہيں کہ فقط اسٹيبلشمنٹ ہی قصوروار ہے۔ بے شک اللہ سب سے بڑا بادشاہ ہے جو چاہے کر گزرے ليکن ابھي تو يہ سب يونہی چلتا نظر آتا ہے ۔
بلکل سچ کہا ہے لاپتہ افراد کی گمشدگی کا سوال تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور آزاد عدلیہ کا امتحان ہے۔ کاش کہ اس امتحان میں ناکام ہونے والوں کو عوام پہچان سکے۔
جبر پر قائم معاشروں میں ذلت انسان کا مقدر بن جاتی ہے، ہر صبح رذیل احساس ساتھ لاتی ہے، اور ہر رات وحشتوں کے بادل دھڑکتے دلوں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ گم شدہ افراد اور ان کے تعلق سے ہمارا رویہ یہ واضح کر رہا ہے کہ ہم تباہی کے غیرمختتم سفر میں کس مقام تک جا پہنچے ہیں۔ سامراجی قوتوں نے استحصال کی طاقت سے اس ریاست کو زخمی کر دیا ہے، رہی سہی کسر اس کے خودساختہ خیرخواہوں نے پوری کر دی ہے!
2010 بہت ہی خون خرابے والا برس تھا۔ جولائی 2010 سے دسمبر 2010 تک تقریباً تریسٹھ بلوچ سیاسی قیدی مارے گئے۔ جو لوگ اغواء کیے گئے ان میں بلوچی سیاسی پارٹی، اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن اور بہت سے بے قصور شہری شامل تھے، جیسے کہ وکیل، طالبِ علم، دانشور اور سماجی کارکن۔
کاش!! بی بی سی نے جس طرح کشمیر میں بھارتی مظالم کے شکار کشمیری لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک طویل پروگرام نشر کیا تھا۔ اگر بی بی سی اردو بلوچستان کے گمشدہ اور حراستی قتل کے شکار افراد کے خاندانوں سے پاکستانی فوج کے مظالم کے بارے میں پوچھ کر اور یو این کی غیر جانبدارانہ رپورٹ دنیا تک پہنچاتے تو شاید دنیا کو بلوچستان کی اصل صورتِ حال سے آگہی ملتی۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ جیسے غیر جانب دار صحافی اِن جیسے مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔ واقعی یہ ایک بہت ہی دردناک صورتِ حال ہے۔ افسوس ہے کہ یہاں کی میڈیا میں موجود صحافیوں کی بڑی اکثریت بہت ہی زیادہ متعصب اور اسٹیبلشمنٹ کے پیروکار ہیں اِسی لئے اُن کو دنیا میں سارے ظلم دکھائی دیتے ہیں لیکن یہاں کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا ظلم نظر نہیں آتا۔
ایک بلوچ کا پیغام یو این کے نام۔ اقوامِ متحدہ کے ذمہ دار افراد کو یاد ہوگا کہ جب فروری دو ہزار نو میں بلوچستان سے ان کے ایک اعلٰی عہدیدار کو بلوچ مزاحمت کاروں نے اغواء کر لیا تھا تو یو این کے نمائندے روزانہ کی بنیاد پر بلوچ حریت پسند رہنماؤں کے در پر سجدہ ریز تھے۔ مگر اب بلوچستان کی سڑکوں پر روز گرنے والی لاشوں پر یو این کی خاموشی کیا باعثِ شرم نہیں ہے؟ یو این کو جان سولاکی کی سلامتی مبارک ہو، چاہے ضمیر جاگے یا نہ جاگے۔
بہت دنوں بعد آپ نے واقعی دل ميں گمبھيرتا لیے ہوئے ايک حساس موضوع کو زيرِ قلم لايا ہے اور پھر کسی بھی ہير پھير يا جانبداری سے پاک يہ بلاگ يقيناً ايک اہم نکتے کو ظاہر کرتا ہے۔ خدا کرے کہ وہ لوگ جو يہ کام کرتے ہيں اور وہ لوگ جو يہ کرواتے ہيں دونوں کی بھی سمجھ ميں آئے کہ غائب ہونے کا کرب لاپتہ ہونے والے اور اس کے گھر والوں پر کتنا شديد ہوتا ہے۔ کرب کی جس قيامت سے وہ گزرتے ہيں، کاش اس کا احساس ان سنگ دلوں کو ہوجائے۔
اپنے پاکستانی محبِ وطن دوستوں کی خدمت میں جناب حیدر بخش جتوئی صاحب کے چند اشعار ہی لکھنے کی ہمّت ہو رہی ہے۔
"بھرو تم قید خانوں کو
کرو قابو جوانوں کو
بجھاؤ شمع دانوں کو
اڑا دو نقطہ دانوں کو
لاؤ رشوت ستانوں کو
جو بنگلے اور محل جوڑیں
شرم آئے آسمانوں کو
پڑھو قومی ترانوں کو
کہ پاکستان زندہ باد"
لا پتہ لوگوں کی رہائی کا سال تو بلا شبہ ہے ، صرف نومبر سے لے کر اب تک جن تراسی افراد کو ان جیلوں سے "رہائی" صرف اور صرف سپریم کورٹ ہی کی بدولت نصیب ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان نوجوانوں کو زندگی کے قید سے بھی آزاد کر دیا گیا۔ جہاں تک ان کی مسخ شدہ لاشوں کا تعلق ہے تو وہ تو صرف دوسروں کو نصیحت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ریاست کی کوشش ہے کہ باقی بلوچ اپنا منہ اور آنکھیں بند کر کے آقا کے دربار میں سجدہ ریز ہو جائیں تاکہ آئندہ ایسی کسی بھی کارروائی کی ضرورت نہ پڑے اور ویسے بھی غلاموں کے کشت و خون پر واویلا کرنا مہذب اقوام کو زیب نہیں دیتا۔
جب محافظ ہی شکاری کا روپ دھار لیں، جب انسانی خون سے سڑکیں سیراب ہوں، جب قانون شاہوں کے گھر کی لونڈی بن جائے، تو یقین کریں یہی وہ حالات ہیں جو ارنسٹوچہ گوارا کو جنم دیتے ہیں۔ یہی وہ حقائق ہیں جس سے انقلاب جنم لیتے ہیں اور ایسے انقلاب ن لیگ و الطاف بھائی کے انقلابی نعروں کے برعکس اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو بہا لے جاتے ہیں۔ اگر یہی رویے رہے تو پھر پاکستانیوں کے پاس پچھتانے کا بھی کوئی اخلاقی جواز مشکل سے بچے ۔